تمہیں پایا نہیں میں نے
عمر بھر کی اِک خواہش
تمہیں پایا نہیں میں نے
میرے اُجڑے ماضی کی
وہی مانوس سی دستک
بلند آواز میں مجھ کو
سنائی دیتی ہے
اب اکثر
تمہیں پایا نہیں میں نے
وہ اِک معصوم سی خواہش
جو کسک بن کر اب
میرے من میں آتی ہے
تمہیں پایا نہیں میں نے
ہزاروں خواہشیں ایسی
مرمر کے ہیں جو زندہ
میرے معصوم سے دل میں
اُجڑ کر پھر اُبھرتی ہیں
اُبھر کر بھی اُجڑتی ہیں
تمہیں پایا نہیں میں نے
میری ایک ایک غلطی پر
تمہارا یوں خفا ہونا
نہ کوئی بھرم رکھنا پھر
ہماری اُجڑی چاہت کا
No comments:
Post a Comment