جُز سلسلۂ آہ و فغاں کچھ نہیں رکھا
چھوڑو بھی محبت میں میاں کچھ نہیں رکھا
نظروں سے گِرا اسکی تو پھر میں نے نظر میں
وہ شہر، وہ کوچہ، وہ مکاں کچھ نہیں رکھا
دل ہی کا یہ اصرار اُدھر لوٹ کے جائیں
اور دل ہی یہ کہتا ہے وہاں کچھ نہیں رکھا
نکلے تیرے کوچے سے تو گُم کر دیا خود کو
پھر اپنا کہیں نام و نشاں کچھ نہیں رکھا
آنکھوں کو یہ امید ابھی گھر ہے سلامت
سرگوشیاں کرتا ہے دھواں، کچھ نہیں رکھا
ساحل کی طرف جانے سے کشتی بھی گریزاں
اور یوں بھی پسِ ریگِ رواں کچھ نہیں رکھا
آنکھیں نہ اگر دیکھ سکیں کچھ تو گِلہ کیا
اس نے تو کبھی ہم سے نِہاں کچھ نہیں رکھا
ہستی کی حقیقت پہ یقیں ہے تو بس اتنا
ہستی میں بجز وہم و گماں کچھ نہیں رکھا
آباد یہ دل تھا تو نسیمؔ اس کے ہی دم سے
وہ شخص گیا ہے تو یہاں کچھ نہیں رکھا
No comments:
Post a Comment