وفا کی اس کہانی کو تو یُوں ہی عام ہونا تھا
تجھے انعام ملنا تھا، ہمیں بدنام ہونا تھا
بدن سُلگا تو اُس کے ساتھ چھالے پھٹ گئے دل کے
چلو بارش کی ان بوندوں سے یہ بھی کام ہونا تھا
جنوں نے آگ بھر دی ہے رگِ جان میں تو اچھا ہے
نہیں تو دل لگی کا اپنے سَر الزام ہونا تھا
ہمیں مرنے کی جلدی تھی، مٹایا ہاتھ سے اپنے
وگرنہ لوحِِ ہستی پر ہمارا نام ہونا تھا!
ازٌل سے عشق شامل ہے نصابِ آدمٌیت میں
کسی کو صبح ہونا تھا، کسی کو شام ہونا تھا
لکھے تھے برف پر اس نے سبھی وعدے وفاؤں کے
تو اس آغاز کا سوچو کہ کیا انجام ہونا تھا؟
No comments:
Post a Comment