دسمبر نے اب کے برس
یہ ہنر ہم سے سیکھا ہے
بہت خاموش رہتا ہے
کسی سے کچھ نہ کہتا ہے
کبھی برسنے پر آ ے تو بے حد برستا ہے
جب ہو جائے صحرا، تو مثل برف سلگتا ہے
کبھی تنہا سا چلتا ہے
انتہائی سرد راتوں میں
کبھی کسی تنہا دل کی خوب
یہ پتھر, دل جوئی کرتا ہے
کبھی آسماں پر مانند ابر چھاتا ہے
کبھی اشک بن کر زمیں پر جھلملاتا ہے
خود تشنہ سا رہتا ہے
بہت مہربان ہو کر بھی
کبھی اپنی بانہوں میں
خاموش ٹھٹھر سا جاتا ہے
مگر ایک بات یہ بھی ہے
اسکی سرد مہری میں
اک عجب کشش سی ہے
اسکی بے نیازی کی
اپنی روش سی ہے
میں اس میں مہکتی ہوں
یہ مجھ میں مہکتا ہے
دسمبر جب بھی آتا ہے
ہم دونوں تھم سے جاتے ہیں
میں اس میں سلگتی ہوں
یہ مجھ میں سلگتا ہے!
یہ ہنر ہم سے سیکھا ہے
بہت خاموش رہتا ہے
کسی سے کچھ نہ کہتا ہے
کبھی برسنے پر آ ے تو بے حد برستا ہے
جب ہو جائے صحرا، تو مثل برف سلگتا ہے
کبھی تنہا سا چلتا ہے
انتہائی سرد راتوں میں
کبھی کسی تنہا دل کی خوب
یہ پتھر, دل جوئی کرتا ہے
کبھی آسماں پر مانند ابر چھاتا ہے
کبھی اشک بن کر زمیں پر جھلملاتا ہے
خود تشنہ سا رہتا ہے
بہت مہربان ہو کر بھی
کبھی اپنی بانہوں میں
خاموش ٹھٹھر سا جاتا ہے
مگر ایک بات یہ بھی ہے
اسکی سرد مہری میں
اک عجب کشش سی ہے
اسکی بے نیازی کی
اپنی روش سی ہے
میں اس میں مہکتی ہوں
یہ مجھ میں مہکتا ہے
دسمبر جب بھی آتا ہے
ہم دونوں تھم سے جاتے ہیں
میں اس میں سلگتی ہوں
یہ مجھ میں سلگتا ہے!
No comments:
Post a Comment