تیرے کوچے میں گئے اور لوگ سمجھانے لگے
تیرے کوچے میں گئے اور لوگ سمجھانے لگے
عکسِ بے منظر سے دل تسکیں سی پانے لگے
دُھوپ میں جیسے کوئی آئینہ چمکانے لگے
باغ اور ابرِ بہار اور رات اور خوشبوئے دوست
ایک خواہش سو طرح کے رنگ دکھلانے لگے
اتنی خاموشی بھی گرد و پیش میں طاری نہ ہو
دل دھڑکنے کی صدا کانوں میں صاف آنے لگے
زرد ہوتا جا رہا ہے صحنِ دل کا ہر شجر
جس طرح اندر ہی اندر دُکھ کوئی کھانے لگے
تیری دُنیا سے نِکل جاؤں میں خاموشی کے ساتھ
قبل اس کے تُو میرے سائے سے کترانے لگے
پیش آثارِ قدیمہ رُک گئے میرے قدم
شہر کے دیوار و در کچھ جانے پہچانے لگے
No comments:
Post a Comment