دیکھا نہیں کچھ ہم نے خریدار کے آگے
پھیلا دیے خود ہاتھ طلب گار کے آگے
دیکھا نہیں کچھ ہم نے خریدار کے آگے
پھر شام ہوئی اور بڑھا ناخنِ اُمیّد
پھر صبح ہے اور ہم اُسی دیوار کے آگے
شہزادے! میری نیند کو تو کاٹ چکا ہے
ٹھہرا نہ یہ جنگل تیری تلوار کے آگے
کیا جاں کے خسارے کی تمنا ہو کہ اب عشق
بڑھتا ہی نہیں درہم و دینار کے آگے
وہ ایڑ لگی رخشِ زمانہ کو کہ اب تو
اسوار سراسیمہ ہے رہوار کے آگے
پھر روزئہ مریم جو فقیہوں میں ہے مقبول
عاجز تھے بہت وہ میری گفتار کے آگے
انکار کی لذّت میں جو سرشار رہے ہیں
کب ٹوٹ سکے ہیں رسن و دار کے آگے
یاقوس رکھے یا وہ ہمیں دائرہ کر دے
نقطے کی طرح ہیں کسی پرکار کے آگے
جاں اپنی ہے اور آبرو نسلوں کی کمائی
سر کون بچاتا پھرے دستار کے آگے
گھمسان کا رن جیت کے لب بستہ کھڑی ہوں
میں پُشت سے آئے ہُوئے اک وار کے آگے
No comments:
Post a Comment