Nazim's poetry

Nazim's poetry

Saturday, March 17, 2012

Ye Jo Tmhara Mera Rishta hai

شعبہ حادثات کے اس سفاک وارڈ میں وہ پہنچی۔ سرخ روتی آنکھوں اور بکھرے حلیے کے ساتھ‘فاطمہ اسے دیکھ کر کھڑی ہوئی تو یوں لگا کہ جیسے زمین پہ ڈھیر ہونے والی ہو‘عادل اس کو آئی سی یو وارڈ سے باہر لے آیا۔
’’گھبرائو نہیں اللہ سے دعا کرو‘وہ ٹھیک ہو جائے گا‘ڈاکٹرز اسے فوری طبی امداد دے رہے ہیں‘اس کی جان سلامت ہے فاطمہ‘اللہ اس کی جان کی حفاظت کرے گا۔‘‘وہ اسے کرسی پر بٹھاتے ہوئے بولا۔
’’میں اسے دیکھنا چاہتی ہوں۔‘‘وہ چیخنا چاہتی تھی‘ مگر چیخ نہ سکتی تھی۔
’’ابھی نہیں بس کچھ ہی دیر میں اسے وارڈ میں منتقل کر دیں گے‘پھر دیکھ لینا۔‘‘عادل نے اس کا ہاتھ مضبوطی سے تھام رکھا تھا‘وہ بالآخر اپنے صبر اور ہمت کے سبھی بند توڑ کے اس کے گلے سے لگ گئی‘ اور بے تحاشا آنسو بہانے لگی‘وہ اس وقت ایک بن ماں باپ کی بچی کا باپ‘بھائی‘ماں ‘بہن اور دوست سب کچھ بن گیا‘اپنی آنکھوں پہ ضبط کی اک کٹھور پٹی باندھی‘ اور اسے سہارا دینے لگا۔
’’آج صبح جب وہ جا رہا تھا‘ تو میں اس سے خفا تھی‘کہنے لگا جانے والوں کو محبت سے رخصت کرتے ہیں‘اس طرح ان کے سفر آسانی سے کٹ جاتے ہیں‘پھر بولا۔’’میں جا رہا ہوں فاطمہ‘مجھے رخصت نہیں کرو گی؟‘‘فاطمہ روتے ہوئے کہا۔
ہچکیاں لیتے ہوئے بولی۔
’’مجھے کیا پتہ تھا عادل کہ آج وہ کیسے سفر پہ جا رہا ہے‘ اور وہ کس طرح کی رخصتی مجھ سے طلب کر رہا تھا۔‘‘وہ ٹوٹ رہی تھی‘منتشر ہو رہی تھی ‘ریزہ ریزہ ہو رہی تھی‘ اور اس کے الفاظ عادل کو بھی توڑ رہے تھے‘اس کی آنکھوں کے بند بھگو رہے تھے۔
’’عادل !وہ تو نماز جمعہ ادا کرنے گیا تھا‘اپنے رب کی عبادت کرنے گیا تھا‘اس کا کیا قصور تھا…کیا…کیا…کیا؟‘‘وہ پھر تڑپ کے بولی۔
’’فاطمہ وہ ٹھیک ہو جائے گا‘تم سنبھالو خود کو۔‘‘اس کے پاس حوصلے کے الفاظ مفقود ہو رہے تھے۔
اور پھر سفید پوش ڈاکٹر عادل کے پاس آیا‘وارڈ میں افراتفری اسی طرح سے تھی‘نرسوں اور ڈاکٹروں کے ہاتھ پائوں بھی پھول رہے تھے‘بنیادی طبی امداد دینے کے لئے ہر کوئی بھاگ رہا تھا۔
’’ان کا آپریشن کرنا پڑے گا ایک ٹانگ کا لیکن بم کے ٹکڑے ان کےBlood veinsمیں آچکے ہیں‘ اور وہ ٹکڑے بہت چھوٹے اور انتہائی خطرناک ہوتے ہیں‘ہم کچھ کہہ نہیں سکتے۔‘‘
’’آپ آپریشن کیجئے ڈاکٹر صاحب‘اگر کہیں تو انہیں کسی اور ہاسپٹل شفٹ کریں؟‘‘
عادل خود کو سنبھالتے ہوئے بولا۔
’’فائدہ کوئی نہیں ہے‘جتنا وقت ہے وہ بہت مشکل ہے‘فی الحال مریض آپ سے اور اپنی وائف سے ملنا چاہتے ہیں ‘آپ مل لیں‘ پھر ہم انہیں اوٹی شفٹ کریں گے۔‘‘ڈاکٹر نے عجلت میں کہا‘ اور پھر وہ فاطمہ کو لے کر آئی سی یو وارڈ میں گیا۔ وارڈ کے اندر بھی زخمیوں کی بھر مار تھی‘کچھ زخمی دم توڑ رہے تھے‘کچھ ٹوٹتی بکھرتی سانسوں کو سنبھالنے کی سعی کر رہے تھے‘ اور یہ سبھی ایک تاریخی اسکول کی عمارت کے اندر بنی مسجد کے نمازی تھے‘ان کے بہت سے ساتھی دوران جماعت شہادت کا درجہ پا چکے تھے‘ اور جو بچ گئے تھے‘ وہ تو اور زیادہ تکلیف میں تھے۔
انہی زخمیوں اور نمازیوں کی صف میں ایک وہ بھی تھا‘زندگی بھر کسی سے لڑائی نہ کرنے والا‘روٹھوں کو منانے والا‘اپنی راہ پہ چلنے والا‘شریف النفس ‘غریب المزاج‘ایک سادہ دل معصوم سا شخص ‘عدنان‘جس نے اپنے گھر اور اپنے بچوں کے بعد کسی سے دوستی نہ کی تھی‘جس نے اپنے رب سے ایسی لولگائی تھی‘ کہ اس کی محبت میں اس نے دنیا ہی تیاگ دی تھی‘ اور وہ اپنی بقایا زندگی اسی رب اور اس کے رسولؐ کی محبت‘ اور ان کا نام لے کے‘ان کی سنت کی پیروی کر کے گزار دینا چاہتا تھا‘ اور آج بھی اپنی اسی محبت کا فرض ادا کرنے‘نماز پڑھنے‘اسی کے حضور جھکنے مسجد گیا تھا‘ اور نہ صرف وہ بلکہ تمام کے تمام نمازی اپنے رب کی اسی محبت کا حق ادا کرنے جماعت میں کھڑے ہوئے ہوں گے۔
اور یہ کیسا مسلمان تھا‘جس نے دوسری صف میں نمازیوں کے ساتھ کھڑے ہو کے نعرہ تکبیر کے بلند ہوتے ہی خود کو اور اپنے ساتھ کے تمام نمازیوں کے پر خچے اڑا ڈالے تھے؟ خود کو جہنمی اور دوسروں کو جنتی بنا ڈالا تھا۔
لیکن کیا اس کی ٹریننگ اس طرح کی گئی ہو گی کہ اس نے جنت کا یقین کر کے اس عمل کو سر انجام دیا ہو گا؟ہاں شاید‘اس کو یقین دلایا گیا ہو گا‘ کہ اس کے لئے جنت یقینی ہے۔
سفید شلوار قمیض میں لہو لہان وجود‘چہرہ آدھا زخموں سے مسخ ہوا‘ڈرپوں‘نلکیوں میں جکڑا ‘تکلیف سے تڑپتا ہوا وہ اس کا محبوب شوہر تھا‘ اسے دیکھ پانے کی وہ ہمت بھی نہ کر پا رہی تھی‘ابھی تک اس کے ہاتھ میں وہ سنہری ڈائل والی گھڑی تھی‘جس کے ڈائل کا شیشہ بھی ٹوٹ چکا تھا‘فاطمہ کو دیکھ کر عدنان کے ہونٹوں پر اک دریدہ سی مسکراہٹ آئی‘فاطمہ نے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں تھام لیا‘عدنان نے دوسری نظر عادل پر ڈالی۔
’’یار میرے اللہ نے میری شہادت کیوں قبول نہیں کی؟‘‘بڑی مشکل سے عدنان کے ہونٹوں سے یہ جملہ ادا ہوا تھا‘جس پہ وہ اور تڑپ کے رودی۔
’’اس کا…اس کا خیال رکھنا عادل ‘اسے یہ کہہ کر حوصلہ دینا کہ یہ…کہ یہ شہید کی بیوہ ہے۔‘‘وہ یہ کہہ کے فاطمہ کی طرف دیکھنے لگا‘ اس کی سانسیں اکھڑ رہی تھیں‘فاطمہ کی گردن مسلسل نفی میں ہل رہی تھی۔
’’ہم پھر ملیں گے‘لیکن تب تک کے لئے…تب تک کے لئے۔‘‘وہ زور زور سے سانسیں لینے لگا۔
’’ڈاکٹر…ڈاکٹر…نرس…نرس۔‘‘
عادل مدد کے لئے دوڑا۔
عدنان کے ہاتھ کی گرفت فاطمہ کے ہاتھ پہ مضبوط ہو گی‘وہ تیز تیز سانسیں لینے لگا‘اردگرد کی آکسیجن کو اپنے پھیپھڑوں میں سمیٹنے لگا۔
’’لا الہٰ الا اللہ…محمد…رسول اللہ۔‘‘
کلمہ پڑھتے ہی اس کی آواز ساکت ہو گئی‘فاطمہ کے ہاتھ پہ اس کی گرفت ختم ہو گئی‘سانس کی ڈوری ٹوٹ گئی‘ آنکھوں کی پتلیاں جامد ہو گئیں‘وقت ٹھہر گیا‘پھر ڈاکٹر آیا‘نرسیں آئیں‘اس کا ہارٹ مساج کیا‘پمپ کیا‘لیکن…لیکن شہید کی روح فانی جسم سے آزاد ہو چکی تھی۔
شہید کی روح شہادت کی منازل طے کرکے رخصت ہو چکی تھی۔
آنکھ ساکت ہے مگر دکھ ہے قیامت کا فراز
ظالم اب بھی نہ روئے گا تو مر جائے گا

…٭٭٭…

’’راحیل…راحیل پلیز اٹھو‘مجھے بہت تکلیف ہے‘پلیز اٹھو۔‘‘روشین نے اسے بری طرح جھنجھوڑا تھا‘ وہ گھبرا کے اٹھ بیٹھا تھا۔
’’کیا ہوا روشین!تم ٹھیک تو ہو ناں۔‘‘
لیمپ لائٹ آن کر کے راحیل نے اس کی طرف دیکھا‘اس چہرہ پیلا پڑ گیا تھا۔پسینے سے تر بتر تھا‘ اور وہ بری طرح تڑپ رہی تھی۔
’’اٹھو روشی!ہمیں ہاسپٹل بلایا ہے ثانیہ نے۔‘‘راحیل نے روشین کو اٹھانے کی کوشش کی‘لیکن وہ جیسے ہی اٹھی‘آنکھوں کے آگے تاریکی سی چھا گئی‘سر چکرا گیا‘ اور وہ بے ہوش سی ہو گئی۔
راحیل کے بازئووں میں جیسے ڈھے سی گئی۔
راحیل اس کے بے ہوش وجود کو اٹھاتا‘بہت آہستگی اور احتیاط سے باہر تک لے آیا‘ اور گاڑی کے فرنٹ سیٹ پہ لٹا دیا‘ اور نجانے کس طرح سے خود کو سنبھالتے ‘لرزتے لڑکھڑاتے ہوئے اس نے ڈاکٹر ثانیہ کے ہاسپٹل تک گاڑی ڈرائیوکی ‘وہ مسلسل روشین کی طرف سے فکر مند تھا۔
ڈاکٹر ثانیہ کو راحیل نے اپنے سے زیادہ فکر مند پایا‘وہ بے ہوش روشین کو لیبر روم میں شفٹ کرا گئی‘ اور راحیل باہر کاریڈور میں بے چین وبیقرار بیٹھا رہا‘ اور پھر چند ہی منٹوں بعد ثانیہ لیبر روم سے باہر آئی۔
’’راحیل بھائی!Miss carriageہو چکا ہے‘فوری طور پر آپریشن کرنا پڑے گا۔‘‘متفکر ثانیہ نے اسے بتایا‘ اور گویا راحیل کے سر پر آسمان آگرا۔
’’او مائی گاڈ۔‘‘وہ اس کے علاوہ کچھ نہ کہہ پایا‘کانچ کے ڈھیروں خواب ایک ہی پتھر کی کر چی سے ٹوٹ کے بکھر گئے تھے۔
’’اس کی جان خطرے میں ہے‘جلدی سے آپ پیپرز پہ سائن کر دیں۔‘‘ثانیہ نے کہا۔
’’آپ پلیز اس کی جان بچائیں ڈاکٹر ثانیہ ‘وہ ہو گی تو اور بچے ہوں گے ناں؟آپ پلیز اسے بچائیں ۔‘‘راحیل کی آنکھوں میں آنسو آگئے تھے‘وہ تڑپ رہا تھا۔
’’تم حوصلہ رکھو‘میں ابھی اوپر یٹ کرتی ہوں۔‘‘ثانیہ حوصلے کے چند ناکافی لفظ کہہ کے چلی گئی‘ اور پھر اگلے گزرنے والے دو گھنٹے گویا اس کے لئے دو صدیوں کے برابر تھے‘ اور پھر ایک بار اور پریشان اور متفکر ثانیہ باہر آئی۔
’’ہاسپٹل کے ماہر سرجن بھی میرے ساتھ اندر موجود ہیں‘زہراس کے Utresمیں پھیل گیا ہے‘ہمیں…ہمیںUtresنکالنی پڑے گی۔‘‘
ثانیہ نے کہا۔
’’کیا… ؟‘‘وہ ہونقوں کھڑا تھا۔
’’وہ دوبارہ کبھی ماں نہیں بن پائے گی۔‘‘
خبراک صدمہ تھی‘ لیکن اس صدمے کو بہر حال سہنا تھا۔ وہ خاموش کھڑا رہا‘کچھ اور صدیاں بیت گئیں‘ اس کے اندر دیر تک دھماکے ہوتے رہے۔
یہ لمحوں میں کیا سے کیا ہو گیا تھا؟کائنات ٹوٹ کے بکھر سی گئی تھی‘زندگی نے یہ کیسا رخ بدلا تھا؟کہ ہر منظر پہ دھواں سا چھا گیا تھا‘ اور آنکھیں دھندلی ہو گئی تھیں‘یہ لمحوں میں کس طرح سے خواب ٹوٹ گئے تھے؟یہ اچانک کیسا زلزلہ آیا تھا‘ جس نے خوابوں کے بنے بنائے آشیانے تہس نہس کر دیے تھے؟کتنے خواب دیکھے تھے اس نے‘ اور روشین نے‘کتنی امانتیں ان دونوں نے اپنے مستقبل کو سونپ رکھی تھیں‘کتنی ڈوریاں انہوں نے اپنے مستقبل سے باندھ رکھی تھیں‘یوں لمحوں میںکیونکر تمام ڈوریاں ٹوٹ گئیں؟کس طرح سے طوفان کی ضد میں آگئی تھی‘ خوابوں کی اک خوبصورت کائنات؟
تمنائوں کی کہکشاں‘آشائوں کی رہگزر ‘یہ تو سراسر ظلم تھا‘نا انصافی تھی‘غضب تھا‘قہر تھا‘سزا تھی‘ایسا کون سا قانون تھا قدرت کا‘جس نے برسوں کی دعائوں کے جمع کیے پھول ایک ہی جھونکے سے بکھرا دیئے تھے‘ اور ایسے بکھرا دیئے تھے‘ جن کا اب تا عمر سمٹنا ممکن نہ تھا۔
ابھی تو وہ بے ہوش تھی‘بے خبر تھی‘ اور بے خبری بے ہوشی میں ہی اپنا سب کچھ گنوا بیٹھی تھی‘ اور جب اسے ہوش آئے گا‘جب وہ شعور کی دنیا میں واپس لوٹے گی‘تو کیا کرے گی؟
جس متاع کو کھو چکی تھی‘اس کے کھونے کا صدمہ کیسے سہے گی‘نجانے کیا کرے گی؟کتنا روئے گی؟کتنا چلائے گی؟‘بیڈ پہ لیٹی روشین کے چہرے کی طرف دیکھتا راحیل فقط یہی سوچ رہا تھا۔

…٭٭٭…

صبح بڑی دیر بعد روشین کو ہوش آیا تھا‘لیکن جب اس کو ہوش آیا تو دل کیا کہ دوبارہ بے ہوشی کی دنیا میں واپس پلٹ جائے‘ہاسپٹل کی کھڑکی پہ بارش کی ہلکی ہلکی بوندیں ٹپ ٹپ برس رہی تھیں‘اس کے ہاتھ کی نس میں لگا ڈرپ بھی بارش کی انہی بوندوں کی طرح ٹپ ٹپ برس رہا تھا‘ اور ڈرپ کی دو ا قطرہ قطرہ اس کے جسم میں منتقل ہو رہی تھی‘ہوش میں آتے ہی اس کے ذہن میں پچھلے گزرے لمحوں کا اک شور اٹھا‘اسے اپنی کو کھ کے بچے کا خیال آیا‘اس کا دوسرا ہاتھ اپنے جسم کے اس حصے پہ گیا‘ جہاں ہاتھ رکھ کے وہ اپنے بچے کی موجودگی کا یقین کرتی تھی‘لیکن اس جگہ ان ننھی منی سانسوں کی لرزش نہ تھی‘وہ احساس نہ تھا‘وہ جان نہ تھی‘وہ رمق نہ تھی۔
راحیل سامنے رکھے صوفہ پہ آڑھا ترچھا سو رہا تھا‘مسلسل جاگنے کے باعث اسے اب نیند کے جھونکے نے آگھیرا تھا‘روشین گو کہ اس دکھ کو جان گئی تھی کہ وہ اپنے بچے کو کھو چکی ہے ‘لیکن اس دکھ پہ یقین کرنا‘ اور اس حقیقت کو تسلیم کر لینا اس کے ذہن کو گوارانہ تھا‘اس کا ذہن پہلے پہل پریشان ہوا‘ پھر اس نے اٹھنے کی سعی کی‘لیکن جسم میں اتنی طاقت نہ تھی کہ و ہ احساسات ‘جذبات اور درد کا بوجھ ڈھو سکے ‘لہٰذا وہ لڑکھڑا کے دوبارہ تکیے پہ ڈھیر ہو گئی۔
’’راحیل…راحیل…اٹھو راحیل۔‘‘وہ تڑپی‘راحیل ہڑ بڑا کر اٹھا‘ اور تیزی سے اس کے پاس آیا۔
’’روشین ‘آپ مت اٹھو‘مجھ بتائو کیا چیز چاہیے؟‘‘وہ اسے سنبھالتے ہوئے بولا۔
’’راحیل …میرا بچہ؟…میرا بچہ؟‘‘وہ بھیگی آنکھوں سے ایسا سوال کر رہی تھی کہ جس کا راحیل کے پاس کوئی قابلِ اطمینان جواب نہیں تھا‘اس نے آنکھیں جھکا لیں‘ جیسے کہ وہ اس کا مجرم ہو۔
’’بولو ناں راحیل…بتائو ناں ؟میرا بچہ کہاں ہے؟‘‘وہ اب رونے لگ گئی تھی۔
’’نہیں راحیل…نہیں نہیں…ایسا نہیں ہو سکتا‘ایسا ہر گز نہیں ہو سکتا۔‘‘وہ بے یقینی اور دکھ کی انتہا پر تھی‘راحیل کی اپنی آنکھیں بھی آنسوئوں کی زد سے بچ نہ سکیں‘ اور اسے سنبھالتے سنبھالتے وہ بھی رونے لگ گیا۔
’’راحیل !ہمارے خواب ‘ہماری دعائیں‘ہمارا گھر‘ہمارے گھر کا پہلا چراغ تھا‘ وہ ہماری خواہشوں کی پہلی قندیل تھا‘ ہم نے اسے کیسے کھو دیا راحیل؟کیسے…؟ہم اسے اب کہاں سے ڈھونڈیں گے کس طرح سے تلاش کریں گے؟‘‘
وہ بلک بلک کے کہہ رہی تھی۔
راحیل کے لئے اسے سنبھالنا مشکل سا ہو گیا تھا‘ اور پھر اس کے بعد ڈاکٹر ثانیہ نے بھی اسے حوصلہ دینے کی ‘سنبھالنے کی‘بہلانے کی بہت کوشش کی‘ لیکن اس کا دکھ اتنا شدید اور اتنا گہرا تھا کہ جس سے نکلنا اس کے لئے اتنا آسان نہ تھا‘ اور پھر بچے کو کھونے کا دکھ ماں سے بڑھ کر اور جان بھی کون سکتا ہے۔
…٭٭٭…

وہ پچھلے ایک ہفتے سے عجیب قسم کے روز و شب گزار رہا تھا‘صبح اپنے گھر سے فاطمہ کے گھر آتا‘دن بھر بچوں کے ساتھ گزارتا‘ اور رات گئے بچوں کو کھانا وانا کھلا کے‘سلاکے پھر گھر واپس آتا‘بچے تو یوں بھی

اس سے مانوس تھے‘اس کے پاس رہتے‘ اور اپنا دل بہلالیتے تھے‘ملنے والوں اور تعزیت کرنے والوں کا بھی سلسلہ ابھی ختم نہیں ہوا تھا۔
فاطمہ کی تو بہت عجیب حالت تھی‘نہ کچھ کھا رہی تھی‘نہ سو رہی تھی‘نہ کسی سے کچھ بول رہی تھی‘گو کہ اس طوفان کو گزرے ڈیڑھ ہفتہ ہونے کو تھا‘ لیکن اس طوفان کے آثار ابھی تک روح سے مٹے نہ تھے‘ابھی خیالوں سے چھٹے نہیں تھے‘وہ دن بھر کمرے میں بند رہتی تھی‘ بچوں پر بھی اس کا کوئی دھیان نہیں تھا‘بس کام کرنے والی شبانہ بچوں کی دیکھ بھال کرتی اور کھانا بناتی تھی‘عادل سے بھی فاطمہ کی بول چال نہ ہونے کے برابر تھی‘سامنا ہوتا بھی تو یوں جیسے شناسائی ہی نہ ہو‘گو کہ دکھ دونوں کا برابر ہی تھا‘عادل نے اپنا گہرا دوست کھویا تھا‘ اور فاطمہ نے شوہر‘لیکن سوال یہ تھا کہ اس دکھ کو سمیٹا جائے تو کیسے؟اس سے نپٹا جائے تو کس طرح؟
آج بھی وہ گھر جانے سے قبل فاطمہ کو کھانا دینے کے لئے اس کے کمرے میں آیا تھا‘ایسا وہ پچھلے کئی دنوں سے کر رہا تھا‘ لیکن اگلی صبح جب آتا تو اکثر اسے کھانا اسی طرح سے ملتا‘اکثر ٹرے میں پڑے کھانے کو فاطمہ ہاتھ بھی نہ لگاتی‘اسی لئے آج وہ خود کھانا لئے اس کے کمرے میں آگیا‘پہلے دستک دی‘ لیکن دیر تک کوئی جواب نہیں آیا‘پھر وہ خود ہی دروازے کو دھکیل کے اندر آگیا۔
وہ بیڈ پہ نیم دراز آنکھیں کھولے سامنے لٹکتے پردے کو گھور رہی تھی‘ آنکھیں مسلسل کھلی تھیں‘بے رنگ‘بے رونق‘کمزور‘اندر دھنسی ہوئی آنکھیں‘سوکھا‘کملایا پیلے رنگ کا چہرہ۔
وہ کھانے کی ٹرے درمیان میں رکھ کے اس کے سامنے بیٹھ گیا۔فاطمہ نے اس کے آنے کا گویا کوئی نوٹس ہی نہ لیا‘ اور اسی طرح بیٹھی رہی‘بے روح بے جان۔
’’کھانا کھا لو فاطمہ۔‘‘وہ بولا۔
فاطمہ نے جیسے سنا ہی نہیں۔
’’فاطمہ…فاطمہ پلیز‘کھانا کھا لو۔‘‘اب کے عادل نے ذرا اونچی آواز میں کہا۔ اسے کچھ دیر کے لئے تو سمجھ ہی نہیں آیا کہ وہ کون ہے؟یہاں کیوں بیٹھی ہے؟احساس و آگہی سب کھو چکی تھی وہ۔
’’پلیز ذرا سا کھانا کھا لو فاطمہ۔‘‘عادل نے اپنی التجا دوہرائی‘فاطمہ کے Reflexesنے عادل کو پہچاننا شروع کیا۔اس نے کھانے کی ٹرے کی طرف دیکھا‘ اور پھر عادل کی طرف‘اس کی آنکھوں میں ہلکی سی نمی کی سطح نظر آئی‘ اور اس نے نفی میں گردن ہلائی۔
’’پلیز فاطمہ‘کب تک نہیں کھائو گی کھانا؟
کب تک یونہی خود سے بھی بے خبر بیٹھی رہو گی؟
تمہارے بچوں کو تمہاری ضرورت ہے‘والد تو ان سے قسمت نے ویسے ہی چھین لیا‘ اب تم ان سے والدہ تو نہ چھینو۔‘‘عادل کے لفظوں نے ایک بار پھر فاطمہ کے زخم کو تازہ کر دیا‘ اور اسے یاد آگیا کہ قسمت کی سفا کی نے اس سے اس کے سب سے پیارے انسان کو موت کی نیند سلا دیا تھا‘اس کے ساتھ بھری بہار کے دنوں میں یہ کیسا سانحہ ہو گیا تھا کہ اس کا سب کچھ لٹ گیا تھا‘ اور وہ بے آباد بنجر زمین کی طرح ہو گئی تھی‘آنسو اس کی پہلے سے متورم آنکھوں سے ابل کے باہر گرے۔
’’مت روئو اس طرح ‘مت اور غمزدہ کرو خود کو ‘تم شہید کی بیوہ ہو‘اس سے بڑھ کر اور کیا رتبہ چاہیے تمہیں؟تمہارے شوہر کو شہادت کی موت ملی ہے‘ایسی موت جیسی ہر مسلمان کی خواہش ہوتی ہے‘وہ نماز جیسے فریضے کو ادا کرتے ہوئے مرا ہے‘وہ جنتی ہے‘ اور وہ مرا نہیں ہے‘ کیونکہ شہید کبھی مرتے نہیں‘کبھی نہیں۔‘‘عادل نے کہا۔وہ مسلسل خاموش آنسو بہاتی رہی۔
’’کھانا کھالو فاطمہ‘دیکھو ایک دوست کی حیثیتسے ہی میری بات مان لو۔‘‘اس نے التجا کی ۔
’’کھالوں گی میں۔‘‘بھاری آواز میں اس نے فقط اتنا ہی کہا۔
’’گو کہ عادل کہنا چاہتا تھا کہ میں تمہیں اپنے سامنے کھلانا چاہتا ہوں‘مجھے پتہ ہے تم نہیں کھائو گی۔‘‘لیکن وہ ایسا کچھ بھی نہ کہہ سکا‘ اور خاموشی سے اٹھ کے جانے لگا۔
’’میں عدت میں ہوں‘ اور کسی سے ملنا نہیں چاہتی‘پلیز میں مزید تعزیت کے لئے آنے والے لوگوں کا بھی سامنا نہیں کرنا چاہتی‘گھر کے باہر تالالگا دو یا کوئی بھی بہانہ بنا دو‘مگر مجھے کسی سے نہیں ملنا۔‘‘فاطمہ کا لہجہ نم اور زخم خوردہ تھا‘عادل سمجھ گیا کہ اس’’کسی‘‘ میں وہ خود بھی شامل ہے‘ اور فاطمہ صاف لفظوں میں اسے بھی گھر سے نکل جانے کو کہہ رہی ہے‘لیکن عادل نے اس کا برا نہیں منایا‘وہ ذہنی طور پہ جس حالت میں تھی ‘وہ اس کا اندازہ لگا سکتا تھا۔
اگلی صبح وہ ناشتے سے بھی پہلے وہاں موجود تھا‘کام والی شبانہ ابھی تک ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھی تھی‘دونوں بچے گو کہ جاگ چکے تھے‘ لیکن کارٹون لگا کے انہیں دیکھنے میں مصروف تھے۔
’’حرا…اذین…برش کیا تم لوگوں نے؟‘‘عادل کے سوال پہ دونوں بچوں نے گردن نفی میں ہلائی۔
’’یہ صبح کے وقت کارٹون دیکھنے کا کون سا اصول ہے؟اور یہ تم لوگ اسکول کیوں نہیں جاتے۔‘‘ وہ بحوں کے بکھرے ہوئے کھلونے سمیٹ کے رکھ رہا تھا۔

’’اسکول تو مما بھیجتی ہیں‘وہ ہی ہم سے نہیں بولتی اور پاپا‘وہ تو اللہ میاں کے پاس چلے گئے۔‘‘اذین کے لہجے میں دکھ اور افسوس کی ملی جلی کیفیت تھی‘عادل کے دل میں کہیں اک ٹیس سی اٹھی۔
’’چلو نکلو بستر سے ‘ناشتہ کر لو‘پھر ہم کہیں گھومنے چلتے ہیں۔‘‘عادل نے ان کا بستر کھینچا اور اسے درست کرنے لگا۔
’’مما کو بھی لے جائیں گے؟‘‘حرا نے معصومیت سے سوال کیا۔
’’بیٹا!مما کی طبیعت ٹھیک ہو گی تو ان کو ضرور ضرور لے جائیں گے‘فی الحال ان کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے ناں۔‘‘عادل نے حرا کو سمجھایا‘ اور ننھی بچی فوراً بہل گئی۔
’’آپ مجھے بار بی ڈول بھی لے دیں گے ناں؟‘‘وہ بولی۔
’’ہاں میری جان!میں اپنی گڑیا کو ضرور ڈول لے دوں گا۔‘‘عادل نے اس کے گال پہ پیار کیا‘ اور جب وہ دونوں واش روم میں جانے لگے تو عادل باہر آگیا۔
’’تم نے بچوں کا ناشتہ بنایا؟‘‘انہوں نے کام والی سے پوچھا۔
’’ابھی بنالوںگی صاب…ڈبل روٹی جیم ہی تو کھاتے ہیں۔‘‘شبانہ نے کہا۔
’’نہیں آج تم انڈے ابالو اور ٹوسٹ بنائو‘ساتھ میں دودھ کے گلاس اور فاطمہ بی بی کے لئے آملیٹ روٹی بنائو۔‘‘اس نے کہا۔
’’باجی تو ناشتہ نہیں کرتیں۔‘‘شبانہ کے لہجے میں دکھ تھا۔
’’وہ کریں گی۔‘‘عادل نے فقط اتنا کہا۔
’’آپ کے لئے بنائوں صاب جی؟‘‘
شبانہ نے مسکرا کے پوچھا۔
’’ہاں بنالو‘میں بھی کروں گا۔‘‘وہ آہستگی سے بولا۔
ناشتے کی ٹیبل پہ اس نے دونوں بچوں کو پاس بلا کے ناشتہ کروایا‘فاطمہ کا ناشتہ اندر جا کے رکھ آیا‘بنا اس سے کوئی بات کیے‘رات کے برتن واپس لے آیا‘جس میں سے تھوڑا سا کھانا کھایا گیا تھا‘باقی بچا ہوا تھا‘بہر حال عادل مطمئن ہو گیا کہ اتنے دنوں بعد اس نے کچھ کھایا تو سہی۔
’’شبانہ۔‘‘اس نے کام والی کو پکارا۔
’’جی صاب جی!‘‘
’’اچھی سی چائے بنائو‘ایک کپ مجھے دو اور ایک کپ اندر جا کے اپنی باجی کو دے آئو۔‘‘
’’اچھا صاب جی۔‘‘شبانہ نے مسکرا کے حامی بھری‘آج بہت دنوں بعد گھر کا ماحول کچھ بہتر محسوس ہو رہا تھا۔

…٭٭٭…

’’کیا کہا ممی…؟باسط انکل میرے لئے پرپوزل لے کر آئے تھے‘ اپنے بیٹے کا؟مجھے یقین نہیں آرہا۔‘‘راحلہ کی بات سن کر ماہا چیخی تھی۔
’’کیوں یقین نہ آنے کی کیا وجہ ہے؟یہ تو اچھی بات ہے‘اچھے گھروں کی بیٹیوں کے رشتے آتے رہتے ہیں‘ اور پھر تمہاری شادی کی عمر بھی تو ہو گئی ہے۔‘‘راحلہ نے اسے یاد دلایا۔
’’ممی میں ابھی پڑھ رہی ہوں‘وہ بھی میڈیکل ‘مجھے ابھی اپنی تعلیم مکمل کرنی ہے‘پھر ہائوس جاب‘پھر اسپیشلائیز یشن اور بعد میں پریکٹس ‘مجھے کم از کم آٹھ نو سال اور چاہئیں ‘بعد میں شادی کروں گی۔‘‘وہ ماں کوColculateکر کے بتا رہی تھی۔
’’بیٹا تعلیم کے لئے پوری زندگی پڑی ہے‘لیکن شادی کی ایک مخصوص عمر ہوتی ہے‘اگر وہ گزر جائے تو لڑکیوں کے لئے اچھے رشتے آنے بند ہو جاتے ہیں۔‘‘ راحلہ بیگم نے کہا۔
’’یہ آپ کی سوچ تو نہیں ہو سکتی ممی‘یہ سوچ کسی گائوں کی ان پڑھ عورت کی ہو سکتی ہے میری ممی کی نہیں۔‘‘ماہا نے کہا۔اس کے لہجے میں طنز تھا‘ یا خوشامد‘یہ راحلہ سمجھ نہیں پائی۔
’’پرپوزل بہت اچھا ہے‘ساحر اکلوتا بیٹا ہے‘پڑھا لکھا‘خوبصورت سلجھا ہوا‘ اور اس کی فیملی ہماری دوستوں کی فیملی ہے۔‘‘راحلہ نے کہا۔
’’مجھے پتہ ہے ممی‘لیکن مجھے اس سے شادی نہیں کرنی‘وہ بہت…وہ بہت عجیب ہے۔‘‘ماہا نے الجھتے ہوئے کہا۔
’’کیا عجیب ہے اس میں؟یورپ میں رہا ہے‘ لیکن پھر بھی کوئی بری عادت نہیں اس میں ‘اتنی اچھی تعلیم‘اتنی اچھی ڈگری ہے اس کے پاس اور سب سے بڑھ کر وہ ہمارے اسٹیٹس کے مطابق ہے‘ وہ ہمارے

گھر کا داماد بننے کے لئے بالکل پرفیکٹ ہے۔‘‘راحلہ نے بلند آواز میں کہا۔
’’لگتا ہے آپ نے اس پرپوزل کے لئے حامی بھرلی ہے۔‘‘ماہا لمحہ بھر کے لئے خوفزدہ ہو گئی تھی۔
’’حامی نہیں بھری‘لیکن انکار کرنے کا بھی کوئی جواز نہیں میرے پاس۔‘‘وہ بولیں۔
’’ممی‘میں یہاں شادی نہیں کر سکتی۔‘‘اس نے کہا۔
’’لیکن کیوں؟آخر کیا وجہ ہے؟‘‘
’’میں کسی اور کو پسند کرتی ہوں۔‘‘وہ اعتراف کرتے ہوئے بولی۔
راحلہ کے چہرے پہ اک سایہ سا لہر ایا‘انہیں بہت غصہ آیا ‘لیکن اگلے ہی لمحے انہوں نے خود کو بہتر طور پر سنبھال لیا اور اک گہری سانس لے کے اپنی جگہ سے اٹھیں‘ اور بنا کچھ کہے ماہا کی طرف دیکھتی ہوئی کمرے سے باہر چلی گئیں۔

…٭٭٭…

رات کے وقت راحلہ اس کے کمرے میں ایک بار پھر آئی‘ان کی آنکھوں سے لگ رہا تھا کہ وہ بہت دیر تک روتی رہی ہے‘آنکھوں میں سرخ ڈورے سے تھے‘ اور ناک بھی سرخ تھی‘ماہا گو کہ اپنے سامنے کتاب کھولے اس کو بغور پڑھنے کی کوشش کر رہی تھی‘ لیکن اس کا دھیان بالکل بھی کتاب پر نہیں تھا۔
’’آئیے ممی۔‘‘وہ کتاب رکھ کے سیدھی ہو کے بیٹھ گئی‘جانتی تھی کہ ممی اس سے خفا ہوں گی‘اس ایک بات کے باعث جو اس نے کہی تھی۔
راحلہ چلتی ہوئی اس کے پاس آئی‘ اور بیڈ کے ساتھ رکھے سیاہ رنگ کے ریگزین کائوچ پہ بیٹھ گئیں۔
’’جی ممی۔‘‘
’’کون ہے وہ جس سے تم شادی کرنا چاہتی ہو؟کیا اس کا اسٹیٹس اور اس کی فیملی ہمارے برابر کی ہے کہ نہیں‘ اور کیا تم اس کے متعلق سیریس ہو؟مکمل طور پر تم نے سوچ لیا ہے سب کچھ؟‘‘ممی کے سوال اس کے لئے جتنے غیر متوقع تھے‘ اس سے کہیں زیادہ مشکل۔ وہ ان میں کس سوال کا جواب دیتی اور کس طرح سے دیتی‘وہ خاموشی سے اپنے ہونٹ کاٹتی رہی‘ اور اس کی خاموشی کے یہ لمحے راحلہ پہ بہت دشوار گزر رہے تھے۔
’’دیکھو بیٹا‘تم باشعور ہو‘تعلیم یافتہ ہو‘میری اکلوتی بیٹی ہو‘تم کوئی بھی فیصلہ لو گی‘میں مخالفت نہیں کروں گی‘بشرطیکہ وہ فیصلہ واقعی تمہارے اور تمہارے خاندان کے حق میں ہو۔‘‘راحلہ نے ٹھنڈی سانس لے کے کہا۔
’’بے شک مجھے ساحر گردیزی پسند ہے‘ اور اس کی فیملی بھی‘لیکن تمہارے اوپر کچھ بھی لاگو کرنا مجھے ہر گز نا پسند ہے۔‘‘ وہ کچھ توقف کے بعد بولیں۔
ما ہاکے پاس کہنے کو کچھ نہ تھا‘راحلہ بیٹی کی اس مسلسل چپ کو اس کا گریز اور خوف سمجھتی رہیں‘وہ صوفہ سے اٹھ کے بیڈ پہ اس کے پاس بیٹھ گئیں‘اس کے ہاتھ پہ اپنا ہاتھ رکھا۔
’’دیکھو بیٹا‘آج صبح جب تم نے مجھے بتایا کہ تم کسی کو پسند کرتی ہو‘ مجھے تم پہ بہت غصہ آیا‘میں بہت الٹا سیدھا سوچتی رہی ‘لیکن جب میں اپنے کمرے میں گئی‘ اور وہاں پہ رکھی تمہاری بچپن کی تصویر دیکھی تو میں بہت روئی‘مجھے احساس ہوا کہ میں نے تمہیں‘اپنی اکلوتی اولاد کو بہت منتوں مرادوں کے بعد حاصل کیا ہے‘میرے لئے بیٹوں سے بڑھ کر ہو‘ اور میں تمہیں ہر گز دکھی نہیں کرسکتی۔‘‘یہ کہتے ہوئے راحلہ کی آنکھوں میں ہلکی سی نمی جھلملائی۔
’’پتہ ہے ماہا‘تمہاری ماں کو ہر چیز بنا مانگے ملی‘ دولت‘ جائیداد ‘ محلوں جیسے گھر‘ گاڑیاں‘ لیکن تمہیں پانے کے لئے تمہاری ماں نے بہت دکھ دیکھے‘ننگے پائوں بزرگوں کے درباروں پہ گئی‘کئی مہینے روزے رکھے‘ اور تمہیں جب پایا تو بس کسی اور چیز کی ضرورت نہیں رہی۔‘‘راحلہ کی باتیں ماہا کے دل میں فخر کا وہ احساس دلارہی تھیں جو اکثر یہ باتیں سن کر اسے ہوتا تھا۔
’’آئی لو یو ممی۔‘‘وہ بے اختیار بولی۔
’’آئی لو یو ٹو میری جان۔‘‘راحلہ نے فوراً کہا۔
’’اب مجھے پلیز بتائو کہ تم کس کو پسند کرتی ہو؟تاکہ ہم کسی طرح بات آگے بڑھا سکیں۔‘‘وہ بولیں۔
’’ممی کیا یہ کام میری میڈیکل کی تعلیم تک ملتو ی نہیں ہو سکتا؟میں اپنی تعلیم مکمل کرنا چاہتی ہوں۔‘‘وہ بولی۔
’’بیٹا تمہاری تعلیم میرے لئے بھی بہت ضروری ہے‘مگر اگر تمہیں کوئی پسند ہے‘ اور تم نے اسی کے ساتھ شادی کا فیصلہ کر لیا ہے تو پلیز بتا دو‘ورنہ رشتے آتے رہیں گے‘ اور کہیں ایسا نہ ہو کہ کسی موڑ پر میں تمہیں مجبور کروں یا تمہارے ساتھ زیادتی کروں۔‘‘راحلہ نے کہا۔
ماہا کے پاس کوئی جواب نہ تھا‘وہ مسلسل اپنے ناخن دانتوں سے چباتی رہی۔
’’کیا تمہارا کوئی کلاس فیلو ہے؟‘‘راحلہ نے اس کے لئے معاملہ آسان کرنا چاہا‘اس کی گردن نفی میں ہلی۔
’’تو کیا پھر کوئی دوست؟‘‘ دوسرے سوال پہ بھی گردن انکار میں دائیں سے بائیں ہلی۔
’’پلیز ماہا مجھے پزل مت کرو‘بتائو وہ کون ہے؟‘‘اب کے وہ زچ ہو گئیں۔
’’وہ…وہ میرے ٹیچر ہیں‘ڈاکٹر ذوالفقار۔‘‘ماہا نے ڈرتے ڈرتے بتایا‘ اور راحلہ کی حیرت اور شاک کی کوئی انتہا نہیں تھی اسے سمجھ ہی نہ آیا کہ وہ ماہا کو کیا کہے؟ ڈانٹے… خفا ہو…منع کردے یا پھر سمجھائے ‘ایک بار پھر اکلوتی بیٹی کی ماں بے بسی کی انتہا پر تھی‘ لیکن انہوں نے خود کو سنبھالنے کی مکمل کوشش کی۔
’’اور کیا…وہ بھی؟‘‘وہ ٹکڑے جوڑ کے جملہ بنانے لگیں۔
’’نہیں…یہ یکطرفہ محبت ہے ممی۔‘‘ماہا نے اعترافاً کہا۔
’’یہ محبت نہیں بے وقوفی ہے ماہا‘سراسر بے وقوفی‘ اور میں تمہیں یہ بے وقوفی کرنے کی ہرگز اجازت نہیں دوں گی‘ میں کل ہی باسط بھائی کو بلوا کے ہاں کہے دیتی ہوں۔‘‘ راحلہ یہ کہتی اٹھ گئی‘ اور باہر جانے لگیں۔
’’ممی!ممی پلیز میری بات سنیں‘ممی پلیز۔‘‘
وہ عقب سے پکارتی رہ گئی‘ مگر راحلہ ایک لمحے کو بھی نہیں رکی‘وہ اس قدر حیرت بھرے غصے میں تھی کہ وہ ماہا کی کوئی بات سننا نہیں چاہتی تھیں‘انہیں اپنی اکلوتی اور لاڈلی بیٹی سے ہر گز یہ توقع نہیں تھی۔

…٭٭٭…

بہت دن گزر گئے تھے‘روشین اور راحیل ایک یہ چھت تلے دو اجنبیوں کی سی زندگی گزار رہے تھے‘بہت کم دونوں کی بات چیت ہوتی‘ آنکھیں ملتیں تو دونوں اس طرح چرالیتے کہ جیسے دونوں ہی ایک دوسرے کے گناہ گار ہوں‘روشین ان دنوں حد سے زیادہ ڈپریس تھی‘ لیکن خود کو سنبھالنے کی بھر پور کوشش کر رہی تھی‘ اور اس کوشش میںراحیل بھی اس کا بھر پور ساتھ دے رہا تھا‘وہ تقریباً روز شام کو اسے گھمانے لے جاتا تھا۔ ڈنر‘ شاپنگ‘مگر روشین کی طبیعت سنبھل نہ پاتی‘وہ بد ستور اداس اور خاموش رہتی۔ جہاں اس کی نظر کسی بچے پہ پڑتی‘وہ روپڑتی یا پھر راحیل سے بے وجہ لڑنے لگ جاتی۔
آج بھی راحیل اسے شاپنگ کرانے لے آیا تھا‘دو دن بعد راحیل کے ایک کولیگ عاشر کی شادی تھی‘ اور گزشتہ تمام پارٹیز اور فنکشنز کی طرح راحیل چاہ رہا تھا کہ اس بار بھی روشین کوئی اچھی سی ساڑھی یا لباس پہن کے اس کے ہمراہ چلے‘ اور اسی طرح مسکرائے‘ کھلکھلائے اور دنیا کو احساس دلائے کہ وہ دونوں ایک قابل رشک اور باکمال کپل ہیں‘ اسی لئے آج راحیل اسے بازار لے آیا تھا کہ وہ اپنے لئے کوئی جیولری ‘کوئی بیگ یا کوئی اچھی سی ساڑھی خریدلے‘وہ تو آنے کو تیارہی نہ تھی‘ لیکن راحیل اسے زبردستی عاشر کی بیوی کے لئے گفٹ لینے کے بہانے لے آیا تھا۔
’’راحیل! اب تو ہم نے گفٹ لے لیا ہے ناں؟اب چلو واپس چلیں ۔‘‘روشین نے کہا۔
’’چلے چلیں گے سویٹ ہارٹ‘پہلے آپ اپنے لئے تو کچھ خرید لو۔‘‘
’’میرا موڈ نہیں ہے شاپنگ کا۔‘‘وہ بولی۔
’’بہت عجیب بیوی ہو تم…یار…تمہارا شوہر بذات خود اپنے تمام کریڈٹ کارڈز اور اپنا والٹ تمہارے حوالے کر رہا ہے‘ اور تم کہتی ہو کہ تمہارا موڈ نہیں ہے‘تمہاری جگہ کوئی اور بیوی ہوتی تو جھپٹ پڑتی۔‘‘ راحیل نے ہلکے پھلکے موڈ میں کہا۔روشین خاموش ہی رہ گئی‘راحیل ایک سلک ساڑھی کی دکان میں آیا‘یہ دکان روشین کی پسندیدہ دکان تھی‘یہاں سے ملنے والی ساڑھیاں وہ اکثر خریدا کرتی تھی۔
’’کیا حال ہیں صاحب جی ‘بڑے دنوں بعد چکر لگا۔‘‘شاپ کیپر انہیں دیکھتے ہی مسکرا کے بولا۔
’’بس یار!ذرا مصروف تھے کہیں‘آج تم سے بہت خاص قسم کی ساڑھی لینے آیا ہوں اپنی بیوی کے لئے۔‘‘راحیل نے کہا۔
’’کس طرح کی ساڑھی دکھائو سر‘سلک کی‘جارجٹ شفون یا پھر بنارسی۔‘‘
’’یار بس بلیک کلر میں کوئی خوبصورت سے کام والی ساڑھی د کھا دو۔‘‘راحیل کے یہ کہنے کی دیر تھی کہ دکاندار نے سیاہ رنگ میں طرح طرح کی ساڑھیاں بکھرا دیں۔ سلک‘جارجٹ ‘بنارسی‘شفون ‘ہر طرح
 
کی ساڑھیاں کائونٹر پہ جھلملانے لگیں۔
’’آپ کچھ مشورہ دیں مسز‘کون سی والی سلیکٹ کی جائے۔‘‘راحیل نے مشورے کے لئے روشین کی جانب دیکھا‘وہ خاموش اور کھوئی کھوئی نگاہوں سے ساڑھیوں کو دیکھ رہی تھی۔
’’اچھا چلیں ‘میں خود ہی سلیکٹ کرتا ہوں‘یار تم ہی میری مدد کردو۔‘‘راحیل نے دکاندار سے گزارش کی‘دکاندار نے سلور کام سے سجی نہایت نفیس سلک کی ساڑھی اس کے سامنے کی۔
’’سر یہ لیجئے انڈین جودھ پوری کام سے سجی یہ نہایت نفیس اور خوبصورت ساڑھی ہے‘باجی پہ یہ بہت سوٹ کرے گی۔‘‘دکاندار نے کہا۔
’’ایسا کرو اس کو پیک کر دو‘مجھے لگ رہا ہے کہ یہ ساڑھی میری بیوی کے لئے ہی بنی ہے۔‘‘راحیل نے یہ کہہ کے ساڑھی پیک کروائی اور پے منٹ کر دی۔ اس کے بعد وہ اسی مارکیٹ میں بنی ایک اچھی جوتوں کی دکان پہ آیا تھا‘ اور شو کیس میں سجی جوتیوں میں سے ایک بلیک کلر کی نازک سی ہیل والی سینڈل پسند کی۔
وہ کسی خاموش گڑیا کی طرح اس کے ساتھ تھی‘نہ اسے کسی چیز سے روک رہی تھی‘ اور نہ اس کا ساتھ دے رہی تھی‘جب سینڈل راحیل نے پسند کر لی اور سائز کا اطمینان کر لیا تو اس نے جوتی پیک کروالی‘ اور شوشاپ کے بعد اسی طرح جیولری اور بیگ کی دکان سے بھی نہایت نفیس جیولری سیٹ اور بیگ پسند کیا‘ اور اسے لیا اور اس کے بعد پھول والے لڑکے سے گجرے خرید کے روشین کو پہنائے۔
’’تم یہ سب کیوں کر رہے ہو راحیل؟‘‘
گاڑی میں بیٹھتے ہی اس نے راحیل سے پوچھا تھا۔
’’کیوں کر رہا ہوں؟کیا مطلب کیوں کر رہا ہوں؟تم میری بیوی ہو‘میں تمہارا شوہر ہوں‘میں ہمیشہ تمہیں خوبصورت ‘زندہ دل اور پرُ اعتماد دیکھنا چاہتا ہوں‘اس لئے ایسا کر رہا ہوں۔‘‘
راحیل نے ڈرائیو کرتے کرتے کہا۔
’’لیکن آپ کا یہ رویہ مجھے محسوس کرا رہا ہے کہ جیسے میں کوئی پاگل ہوں‘کوئی چھوٹی سی بیمار بچی ہوں‘جس کو کھونے کا ڈر اور جس کی بیماری آپ کے دل میں اس کے لئے ہمدردی جگا رہی ہے‘مجھے لگ رہا ہے کہ جیسے میرا کوئی ہاتھ یا پائوں ٹوٹ گیا ہے‘ اور آپ مجھے احساس دلا رہے ہیں کہ نہیں روشین کچھ نہیں ہوا‘تم ٹھیک ہو جائو گی‘یہ ساڑھیاں‘ زیور‘ پھول پہنا کے آپ میرے اس ٹوٹے اعضاء کو چھپانا چاہتے ہیں‘مجھے ایسا کیوں لگ رہا ہے؟‘‘ اس نے روہانسے لہجے میں کہا۔
’’ایسی کوئی بات نہیں ہے روشی‘میں تم سے بہت محبت کرتا ہوں‘اتنی کہ مجھے خود نہیں پتہ اور میں تمہیں اس طرح پژُمردہ‘ بجھا بجھا اور ویران ہر گز نہیں دیکھ سکتا‘میرے لئے تم متاعِ حیات ہو اور اگر تم اس طرح بجھی بجھی رہیں تو میری پوری زندگی ویران اور تاریک ہو جائے گی‘یقین کرو روشی۔‘‘راحیل کے لہجے میں اس قدر محبت تھی کہ وہ آگے ایک لفظ بھی نہ کہہ پائی‘پورا راستہ فقط اپنے گجرے کے پھول ہی توڑتی رہی تھی۔

…٭٭٭…

ٹوٹ کر ذرا دیکھو
تم اگر بکھر جائو
بے بسی میں گھرِ جائو
دل سے اک صدا دینا
بس مجھے بلا لینا
میں تمہیں سنبھالوں گی
زندگی میں چلنے کا
راستہ بدلنے کا
اک ہنر سکھادوں گی
تم کو حوصلہ دوں گی
اور جب سنبھل جائو
روشنی میں ڈھل جائو
مجھ کو یوں صلہ دینا
تم مجھے بھلا دینا…!
آئینے کے سامنے تیار ہوتی روشین بہت گم صم تھی‘اس کی آنکھیں کسی غیر مرئی نقطے پہ ٹکی تھیں‘سیاہ رنگ کی سلک کی ساڑھی میں ہم رنگ جیولری اور موزوں میک اپ میں اس کا اداس حسن ملکوتی لگ رہا تھا‘بڑی بڑی سیاہ کاجل سے بھری آنکھوں میں بے پناہ اداسی تھی‘وہ کافی دیر کی اسی طرح کھڑی تھی‘بے جان دیوی کی طرح گنگ اور ویران ‘پتہ نہیں کب راحیل اس کے پیچھے آکھڑا ہوا‘ اور اس نے اپنے بازوئوں کا ہالہ اس چاند کے گرددے ڈالا‘وہ لمحہ بھر کو چونکی‘ لیکن اس کی آنکھوں میں ویسا کوئی احساس نہیں جاگا‘ جیسا پہلے جاگتا تھا‘جب راحیل اس طرح سے اپنی محبت کا اظہار کرتا تھا۔
’’بہت خوبصورت بیوی ہے میری‘چاند کو بھی مات دے دے اس کا روشن چہرہ۔‘‘راحیل کی سرگوشی پہ وہ مسکرا بھی نہ سکی‘ اور ایسی آنکھوں سے راحیل کو دیکھتی رہی‘ جیسے کہ اسے پہچانتی نہ ہو۔
’’کیا ہوا روشین؟اتنے خوبصورت لباس میں یہ اداسی نہیں جچتی ‘یہ چہرہ اداسی کے لئے نہیں بنا میری جان۔‘‘راحیل نے پیار سے کہا۔
’’مجھے اپنا وجود خالی خالی لگتا ہے راحیل!میں کیا کروں میرا جینے سے جی اوب گیا ہے۔‘‘
وہ ہارے ہوئے کسی کھلاڑی کی طرح پژُمردہ لہجے میں بول کے بیڈ پہ بیٹھ گئی‘ اور اپنا سر دونوں ہاتھوں میں تھام لیا‘راحیل اس کے گھٹنوں کے پاس بیٹھ گیا۔
’’پلیز روشین!سنبھالو خود کو‘جو ہو گیا اسے بھول جائو اور پلیز اپنے اردگرد کی چیزوں سے دل لگانے کی کوشش کرو‘ابھی بھی کچھ نہیں بگڑا‘ابھی بھی موسم ہمارے ہیں‘زندگی ہماری ہے‘رنگ اور آرزوئیں ہماری ہیں؟‘‘راحیل نے کہا۔
’’اور ہمارا بچہ؟‘‘روشین نے حیران لہجے میں اس کی جانب دیکھ کر سوال کیا۔
’’کیا تم اسے بھول گئے ہو؟اتنی جلدی؟‘‘
راحیل کے پاس اس کے سوالوں کا کوئی ایسا جواب نہ تھا‘ جو اسے مطمئن کر سکے۔
’’تم اسے بھول سکتے ہو راحیل‘مگر میں نہیں‘اس نے چار پانچ ماہ تک میری کوکھ میں سانسیں لی تھی‘اپنا احساس دلایا تھا‘میں نے اس کے ہاتھوں پائوں‘آنکھوں کی پتلیوں اور مسکراہٹوں کو محسوس کیا تھا‘میں نے اسے اپنے رب سے مانگا تھا۔‘‘وہ بلک بلک کے رودی‘کئی دنوں کا غبار آنکھوں میں لگے کاجل کے ہمراہ بہنے لگا تھا‘راحیل کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ اسے کس طرح بہلائے۔
’’وہ میرا بھی تو بچہ تھا ناں روشین‘اسے میں نے بھی تو مانگا تھا ناں؟‘‘راحیل بے بسی کی انتہا پر تھا۔
’’ہاں مگر تم ماں نہیں ہو‘تم سوبار زندگی بھی لے لو تو ماں نہیں بن سکتے ‘تم کسی وجود کو اپنی کوکھ میں زندگی نہیں دے سکتے‘تمہارے اندر اک ماں کی دھڑکن اور ماں کی نبض نہیں آسکتی‘مرد‘مرد ہوتا ہے جو خدا تو بن سکتا ہے‘ مگر ماں نہیں۔‘‘وہ غصے‘ افسوس اور دکھ کے ملے جلے تاثرات سے کہہ رہی تھی۔
’’تم دنیا کی پہلی عورت نہیں‘جس کا بچہ دنیا میں آنے سے قبل چلا گیا‘لیکن کسی نے کبھی اس طرح ری ایکٹ نہیں کیا ہو گا‘جس طرح تم کر رہی ہو‘یہ پاگل پن تو ہو سکتا ہے لیکن افسوس نہیں۔‘‘راحیل نے غصے میں آکے کہا۔
’’میرا صبراب جواب دے گیا ہے ‘تھک گیا ہوں تمہیں سنبھالتے سنبھالتے‘شادی میں چلنا ہے تو چلو ورنہ میں جا رہا ہوں۔‘‘
راحیل غصے سے کہتا ہوا بیڈ پہ رکھے اپنے کپڑے اٹھاتا‘ دوسرے کمرے میں چلا گیا‘ اور وہ پہلے سے ہی دکھوں کی ماری اور رونے لگ گئی‘آنسوئوں کی ایسی جھڑی لگی کہ دیر تک کوئی اور احساس دل کو چھو نہ سکا۔

…٭٭٭…

دوروز کے اندر اندر ہی راحلہ نے منگنی کی تیاری کر لی تھی‘گھر کا رنگ وروپ بدل گیا تھا‘کیٹرنگ والے‘ڈیکوریٹرز‘ہر طرف سجاوٹ اور تبدیلی لانے کی کوشش کر رہے تھے‘ہمہ وقت خاموش رہنے والے گھر میں اک رونق سی مچی ہوئی تھی‘ہر طرف شور کی آوازیں تھیں‘ اٹھائو‘ پکڑو‘رکھو کا شور ہر جانب تھا‘ اور اس ماحول میں کہ جہاں سارے خوش تھے‘وہ سب سے زیادہ غمزدہ‘دکھی اور پریشان تھی‘آنکھوں سے مسلسل آنسو بہہ رہے تھے‘ اور اسے یقین نہیں آرہا تھا کہ اس کی ممی اس کے ساتھ ایسا کر رہی ہیں۔
مسلسل رو رو کے اس کا اور اس کی آنکھوں کا برا حشر ہو رہا تھا‘دو دن سے بھوک ہڑتال پہ تھی‘ممی نے ڈریس ڈیزائنر اور بیوٹیشن کو اس کے کمرے میں بھیجا تھا‘ اور وہ دونوں کچھ ہی دیر بعد اندر سے آگئی
 
تھیں‘بقول ان کے ’’بے بی نے ہمیں ڈانٹ کے واپس بھیجا ہے‘ اور وہ کہہ رہی ہیں کہ انہیں نہ کپڑوں کی فٹنگ دینی ہے‘ اور نہ میک اپ وغیرہ کروانا ہے۔‘‘راحلہ نے یہ سن کر ایک طویل ٹھنڈی سانس لی‘ اور خود اس کے کمرے کی طرف جانے لگیں ‘گو کہ انہوں نے خود سے عہد کیا تھا کہ منگنی ہو جانے تک وہ ماہا سے بات نہیں کریں گی‘ اور سمجھداری سے کام لیں گی۔جذبات کی رو میں نہیں بہیں گی‘ لیکن ماہا کی ضد نے انہیں مجبوراً منگنی سے قبل اس کے سامنے لا کھڑا کیا تھا۔
’’کیوں تم فیشل نہیں کروا رہی؟اور کپڑوں کی فٹنگ نہیں دے رہیں؟‘‘راحلہ نے اپنا لہجہ نارمل رکھا‘وہ ماں سے آنکھیں بھی ملانا نہ چاہ رہی تھی‘اکلوتی بیٹی نے ماں کا یہ روپ پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔
’’میں پہلے بھی بول چکی ہوں ممی!کہ مجھے منگنی نہیں کرنی‘پھر یہ فیشل اور کپڑوں کا ڈرامہ کس لئے؟‘‘وہ بولی۔
’’ماہا!امیں تم سے کوئی بحث کرنا نہیں چاہتی‘کل شام تمہاری منگنی ہے‘ مہمانوں کو دعوت نامے جا چکے ہیں‘تمہاری ڈریس کا رنگ اور ڈیزائن میں نے سلیکٹ کر لیا ہے‘تم صرف اپنی فٹنگ دے دو اور بیوٹیشن کو وقت دو۔‘‘راحلہ نے سنجیدگی سے کہا۔
’’ممی!آپ میری وہی ممی ہیں‘ جو میری معمولی سے معمولی بات بھی مان لیا کرتی تھیں؟
میری آنکھ سے گرنے والے ہر آنسو کو گرنے سے پہلے ہی اپنے ہاتھوں سے صاف کر دیتی تھیں۔‘‘
وہ بولی۔
’’اگر بچے کھیلنے کے لئے آگ کے جلتے شعلوں میں ہاتھ ڈالنا چاہیں‘ تو انہیں روکنا پڑتا ہے‘اگر نہیں روکا تو اپنی ہی اولاد کے ہاتھ جل جانے کا خدشہ وخطرہ رہتا ہے‘میں تمہاری وہی ماں ہوں‘ مگر تمہیں تمہاری ہر نادانی کے لئے چھوڑ نہیں سکتی۔‘‘راحلہ کا لہجہ نرم تھا۔
’’ممی‘میں اس لڑکے کو پسند نہیں کرتی‘ جسے آپ میرا ہمسفر بنانا چاہتی ہیں‘یہ میرے لئے بہت مشکل ہو گا۔‘‘وہ بے بسی کی انتہا پر تھی۔
’’تم اس لڑکے کو ناپسند کرتی ہو یا پھر اپنے پروفیسر کو پسند کرتی ہو؟جس کی وجہ سے تمہیں میری چوائس ناگوار گزر رہی ہے؟‘‘راحلہ نے پوچھا۔
’’ممی یہاں یہ سوال ہر گز نہیں اٹھتا کہ میں پروفیسر ذوالفقار کو پسند کرتی ہوں کہ نہیں‘ سوال یہ ہے کہ مجھے وہ لڑکا ہر گز اپنے Life partnerکے لئے موزوں نہیں لگتا‘ جو آپ کی چوائس ہے۔‘‘
’’اگر میں تمہاری منگنی ساحر سے نہ کروں‘ تو کیا تم اپنے پروفیسر سے شادی کی ضد چھوڑ دو گی؟‘‘راحلہ کی بات پہ ماہا مسلسل نفی میں گردن ہلانے لگی۔
’’میں ان کے علاوہ اور کسی سے بھی شادی کا سوچ نہیں سکتی۔‘‘وہ الجھی۔
’’تو پھر ٹھیک ہے رہو اپنی ضد کے ساتھ‘میں اپنا فیصلہ نہیں بدلنے والی ‘تمہاری  نادانی اور جذباتی فیصلوں کے لئے میں اپنے عزت وناموس پہ حرف نہیں آنے دے سکتی‘میں نے باسط بھائی کے بیٹے کو سوچ سمجھ کے تمہارے لئے پسند کیا ہے‘ اور یہ میرا اٹل فیصلہ ہے۔‘‘راحلہ نے حتمی طور پر کہا اور اپنی جگہ سے اٹھیں۔
’’میں بیوٹیشن کو اندر بھیج رہی ہوں‘ماہا اگر تم نے کوئی ضد کی تو آج سے میرا اور تمہارا رشتہ ختم‘بالکل ختم۔‘‘راحلہ نے سختی سے کہا اور کمرہ چھوڑ کر چلی گئیں‘ اور آنسو بہاتی بے بس ماہا کے لئے ماں کی بات ماننے کے سوا اور کوئی چارہ نہ تھا‘ اور جس کے لئے وہ یہ محبت کی جنگ لڑ رہی تھی‘اس کے فرشتوں کو بھی علم نہیں تھا۔
…٭٭٭…

اور پھر فقط کچھ ہی گھنٹوں بعد وہ اپنا ارادہ بنا چکی تھی کہ وہ اس یکطرفہ محبت کی آگ میں نہیں جھلسے گی‘ اور کم از کم اسے ضرور بتا دے گی‘ جس کی محبت لہو بن کے اس کی رگ رگ میں دوڑ رہی ہے‘ان دو گھنٹوں میں جب وہ ایک بیوٹیشن کے آگے بیٹھی رہی‘وہ فقط اپنے آپ میں ہی کھوئی ہوئی تھی‘ اور پھر اپنا ارادہ اور حوصلہ مضبوط کر کے وہ اٹھی‘دراز سے اپنی والدہ کی گاڑی کی چابی نکالی‘ اور لائونج سے ہوتی ہوئی سیڑھیاں اترنے لگی۔
’’کہاں  جا رہی ہو ماہا؟‘‘راحلہ اس کے پیچھے آنے لگیں‘ان کا بد ترین خدشہ سچائی کا روپ دھار رہا تھا‘ان کی بیٹی سر کشی اور بغاوت پہ آمادہ ہو گئی تھی۔
وہ تیز رفتاری سے اپنی والدہ کے کہے کی سنی ان سنی کرتے ہوئے نیچے اتری‘ اور پورچ میں کھڑی گاڑی میں بیٹھ گئی‘چوکیدار اس طرح سے بوکھلا گیا‘ماہا کبھی ڈرائیور یا اپنی والدہ کے علاوہ نہیں نکلی‘اگر خود بھی گاڑی لے جاتی تو راحلہ ہمیشہ اس کے ساتھ ہوتی ۔
’’گیٹ کھولو‘ورنہ میں گیٹ توڑ دوں گی۔‘‘
وہ جذباتی لہجے میں بولی ‘چوکیدار نے بوکھلا کے گیٹ کھول دیا اور ماہا زن سے گاڑی نکال کر لے گئی‘راستہ بھر اس کی دھندلاتی آنکھیں اپنے آوارہ مزاج عشق کا بوجھ اٹھائے تڑپ رہی تھیں۔

چھلک رہی تھیں‘نجانے اس نے کس طرح پل صراط کا یہ سفر طے کیا‘نجانے کس طرح اس نے ذلفی کے گھر کی طرف جاتے راستے کا اندازہ لگایا‘وہ جو بھی قوت تھی‘وہ اس جنونی‘ہیجانی قوت کے زیر اثر بالآ خر ذلفی کے گھر پہنچ گئی۔
ذلفی کے گیٹ کے باہر گاڑی روک کے وہ اسی ہیجانی کیفیت کے زیر اثر اتری اور گھر کے اندر آئی۔
وہ اس طرح اندر داخل ہوئی‘ جیسے یہ گھر اس کا اپنا ہو‘اس کا ذاتی۔ وہ حدود وآداب کے سب فرمان بھلا کر آج اپنے وجدانی عشق کے پیچھے ننگے پائوں دوڑ رہی تھی‘آج وہ تپتے صحرا میںننگے پائوں دوڑ لگاتی سسی تھی۔
آج وہ عین عشق تھی۔ آج وہ صحرا بھی‘ تو بارش بھی تھی‘پیاسی بھی تھی‘ تو سیراب بھی تھی‘شعلہ بھی تھی‘ تو آب بھی تھی‘ساحل بھی تھی‘ گرداب بھی تھی‘آج وہ نہیں کچھ اور تھی۔
اس نے اسی جنون اور جذباتیت کے ساتھ ہر طرح کا ہمت وحوصلہ مجتمع کر کے ذوالفقار کے کمرے کا دروازہ کھولا۔
’’سر!‘‘ اس کی سرخ آنکھیں‘دھڑکتا دل اور آوارہ مزاج عشق اسے مسلسل بلا رہے تھے۔
اپنے کمرے میں راکنگ چیئرپہ آرام سے آکر وائلڈ کی کتاب پڑھتے ذوالفقار کی حیرت کے لئے ماہا کی آمد کافی تھی ‘وہ کرسی سے اٹھ کے کھڑے ہو گئے‘ اور ماہا کی یہ حالت دیکھ کر حیرت زدہ رہ گئے۔
’’ماہا…تم …یہاں؟‘‘وہ بولے۔
ماہا ہانپتی کانپتی ان کے کمرے کے اندر آگئی‘ اور عین ان کے سامنے کھڑی ہو گئی۔
’’سر میری ماں زبردستی میری منگنی کر رہی ہیں‘ اور میں منگنی نہیں کرنا چاہتی‘پلیز میری مدد کریں۔‘‘آنسو اس کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ بہہ رہے تھے۔
’’لیکن…لیکن کیوں؟اور اس میں میرا کیا رول ہے؟میں کیا مدد کر سکتا ہوں تمہاری۔‘‘وہ حقیقتاً پزل ہی تو ہو گئے تھے۔
’’آپ ہی تو کر سکتے ہیں سب کچھ سر۔‘‘وہ بولی۔
’’لیکن میں کیا کر سکتا ہوں؟‘‘وہ ہڑبڑائے۔
’’آپ مجھ سے شادی کر سکتے ہیں‘میں آپ سے محبت کرتی ہوں‘بہت بہت بہت شدید محبت۔‘‘وہ طوفانی لہجے میں بولی اور ذوالفقار کے سر پر ایک ہتھوڑا ہی تو پڑا تھا۔
’’کیسی باتیں کر رہی ہو تم؟دماغ تو نہیں چل گیا تمہارا؟‘‘وہ اپنا آپ سنبھال کے بولے۔
’’میں آپ سے بہت بہت بہت محبت کرتی ہوں!مر جائوں گی‘میں آپ کے بنا نہیں رہ سکتی‘مجھے اپنا لیجئے ‘خدا کے لئے مجھے اپنا لیجئے۔‘‘اس نے پہلے ڈاکٹر صاحب کا گریبان پکڑا ‘اور پھر روتے روتے اس کے قدموں میں گر گئی‘ اور اس کے گھٹنے کو دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر دیر تک روتی رہی۔
’’یہ کیسے ممکن ہے ماہا؟ نہیں یہ ممکن نہیں‘تم اپنے گھر جائو اور اپنے فیصلے پہ غور کرو۔‘‘وہ اس سے اپنا آپ چھڑا کے دور ہوئے۔
’’کیا ممکن نہیں ہے سر؟کیا آپ مجھ سے شادی نہیں کر سکتے؟‘‘وہ حیرانی سے اس کی طرف دیکھنے لگی۔
’’نہیں میں کسی سے شادی نہیں کر سکتا‘تم اپنے اس پاگل پن میں بھول گئی ہو کہ میں ایک جوان بیٹے کا باپ ہوں۔‘‘
’’مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا‘میں آپ کو آپ کے بیٹے سے ہرگز دور نہیں کروں گی‘بلکہ آپ کے گھر میں آپ کا حصہ بن کے آئوں گی۔‘‘وہ رو رو کے التجا کر رہی تھی۔
’’تم خود اپنے گھر جا رہی ہو یا میںتمہاری والدہ کو فون کر کے بلائوں؟‘‘وہ حتمی طور پر بولے‘بہت بے حسی اور کرختگی سے اور ان کے لہجے کی یہ کرختگی ماہا کے لئے حیرت سے زیادہ صدمے کا باعث تھی‘اسے ہر گز توقع نہیں تھی کہ وہ اس طرح ٹھکرائی جائے گی‘وہ سسی کی طرف تھل میں سسک سسک کے مری تھی‘ اور اس کا کچا گھڑا پار لگنے سے قبل ہی ڈوب گیا تھا وہ خالی دامن لے کے دوبارہ اپنے گھر واپس آگئی تھی۔

…٭٭٭…

عادل کو فاطمہ اور بچوں کو اپنے گھر شفٹ کرنا پڑا تھا‘کیونکہ جس گھر میں وہ پہلے رہ رہے تھے‘وہ عدنان کو اس کی کمپنی کی طرف سے ملا تھا‘جو انہیں تین ماہ کے اندر اندر خالی کرنا تھا‘اور عدت گزرتے ہی فاطمہ نے خواہش ظاہر کی کہ وہ یہ گھر چھوڑنا چاہتی ہے‘ اور اس سے قبل کہ کمپنی اسے جانے کا نوٹس دے دے‘وہ خود اپنا کوئی اور انتظام کرنا چاہتی ہے‘ اور اس نے عادل کی یہ بات اس شرط پہ مانی تھی‘ کہ وہ اس کے اوپر کے پورشن کے دو کمرے بطورPaying Guestاستعمال کر سکتی ہے ورنہ نہیں‘ اور عادل نے اس کی یہ شرط مان لی تھی‘ اور بطور کرائے دار عادل کے گھر کے اوپر والے پورشن میں شفٹ ہو گئی تھی‘ ساتھ ہی ایک پرائیویٹ اسکول میں عارضی طور پہ نوکری بھی کر لی تھی‘دونوں بچوں کو ساتھ لے کر وہ صبح اسکول جاتی تھی‘ اور دوپہر کو واپس آتی تھی۔
 
زندگی اچانک سے کتنا بدل گئی تھی؟جو کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا‘وہ ہو رہا تھا‘تنہائی اور بے سہارا پن تو شاید اتنا شدید نہیں چبھتاتھا‘ جتنا کہ لوگوں کے سوال‘ان کے رویے‘ان کے لہجے ‘رشتہ دار‘محلے دار‘دوست‘کو لیگ‘جو ملتا فقط ایک ہی بات کرتا‘دوسری شادی‘ دوسری شادی‘ دوسری شادی‘ فاطمہ کے لئے تو آج کل ’’دوسری شادی‘‘لفظ کے علاوہ اور کوئی دھمکی اور کوئی خدشہ اور کوئی گالی نہیں تھی‘وہ اس لفظ سے کسی چھلاوے یا بھوت کی طرح خوفزدہ ہو گئی تھی‘عادل کی پھوپھو آج جانے والی تھیں‘ اور شام کو وہ فاطمہ سے ملنے اوپر آئی تھیں۔
’’آپ اتنی جلدی کیوں جا رہی ہیں پھوپھو‘بہت رونق لگی رہتی ہے‘ بڑوں کے دم سے۔‘‘
فاطمہ نے کہا۔
’’کیا کروں بیٹا؟اپنا گھر بار اور بچے چھوڑ کے بیٹھ تو نہیں سکتی ہوں ناں‘یہاں دو سال سے عادل کی منتیں کر رہی ہوں کہ شادی کر لو‘شادی کر لو‘مگر اس پر سارے حربے بے اثر‘ خیراب تو تم کھانے پینے اور دیگر چیزوں کا خیال رکھ ہی لو گی‘لیکن آخر تم بھی کب تک رہو گی۔‘‘پھوپھو اپنی روانی میں کہہ گئیں۔
’’جب تک کسی اور گھر کا بندوبست نہیں ہو جاتا پھوپھو‘تب تک تو میں یہیں ہوں‘ اور انشاء اللہ عادل بھی شادی کر ہی لے گا۔’’وہ بولی۔
’’میں تو کہتی ہوں بیٹا شادی کر لو‘بچے ابھی چھوٹے ہیں‘نیا باپ اپنا مان لیں گے‘ذرا بڑے ہوئے تو وہ امید بھی نہیں رہے گی۔‘‘ پھوپھو نے بھی وہی کہانی کہنی شروع کر دی۔
’’میں شادی نہیں کرنا چاہتی پھوپھو‘میرے لئے میرے بچے اور ان کے لئے میں بہت ہیں‘کافی ہیں ‘عمر بھر کے لئے۔‘‘وہ بولی۔
’’مرد کے سہارے کے بغیر عورت کچھ نہیں ہوتی‘بھائی‘باپ‘شوہر کسی کا بازو تو چاہیے ہوتا ہے ناں۔‘‘ پھوپھو نے کہا۔
’’میرا بیٹا اذین ہے ناں؟آج آٹھ برس کا ہے‘کل اٹھارہ اور پرسوں اٹھائیس کا ہو جائے گا‘وہ میرا سہارا اور ساتھی ہے‘وہ میرا اور اپنی بہن کا وارث بنے گا۔‘‘فاطمہ کے لہجے میں فخر اور امید چھپی تھی۔
’’مرضی ہے تمہاری بیٹا لیکن عادل بھی تو تمہیں زیادہ دن نہیں رکھ سکتا ناں‘آخر کو وہ اکیلا ہے‘کنوارہ ہے اور گھر میں اور کوئی نہیں۔‘‘پھوپھو کی بات نے اک نیا رخ اختیار کر لیا تھا۔
’’پھوپھو جی ۔‘‘عادل یہ بات سنتے ہوئے اندر آگیا تھا‘فاطمہ اور پھوپھو اس کی طرف متوجہ ہوئی تھیں۔
’’یہ گھر فاطمہ کا اتنا ہی ہے جتنا کہ میرا ہے‘بلکہ عدنان کی بیوہ اور حرا اذین کی ماں ہونے کے ناتے وہ زیادہ حق رکھتی ہے‘ اور یہ گھر چھوڑ جانے کو اسے کوئی نہیں کہہ سکتا۔‘‘عادل کے لہجے میں یقین تھا ‘مان تھا۔
’’لیکن بیٹا لوگ کیا کہیں گے۔‘‘پھوپھو کی سوئی وہیں اٹکی تھی۔
’’عدنان کی لاش کو کندھا دینے‘ اس کے بچوں کو کھلانے‘اس کی بیوہ کے آنسو پونچھنے لوگ آئے تھے؟لوگ تو فقط تماشائی ہوتے ہیں‘ اور تماشا ہی دیکھتے ہیں اس کے علاوہ کر بھی کیا سکتے ہیں؟آپ لوگوں کا خوف نہ دیا کریں۔‘‘
عادل نے سختی سے کہا۔
پھپھو خاموشی سے اٹھ کر چلی گئیں‘فاطمہ خاموش آنکھوں سے اس کی طرف دیکھتی رہ گئی۔

…٭٭٭…

’’ناشتہ کیے بغیر مت جائو‘پورا دن کس طرح گزار دوگی؟‘‘دروازے تک پہنچنے سے پہلے ہی عادل کی آواز نے اس کے قدم روک دیئے۔
’’میں وہیں اسکول میں کچھ کھالوں گی‘تم فکر مت کرو۔‘‘اس نے یونہی کہہ دیا اور یہ عادل اچھی طرح جانتا تھا کہ وہ اسکول جا کے بھی کچھ نہیں کھائے گی‘اس کی کملائی رنگت‘دن بدن گرتی صحت اور کمزور پڑتا جسم اس کی چغلی کھاتا تھا کہ وہ اپنے کھانے پینے پر بالکل دھیان نہیں دے رہی۔
’’فاطمہ ٹیبل پہ آئو‘میں تمہیں ناشتہ کیے بغیر نہیں جانے دوں گا‘کم از کم دودھ کا ایک گلاس تو پینا ہی پڑے گا۔‘‘اس کے لہجے میں اپنا ئیت اور محبت کے ساتھ اک دوستانہ خفگی بھی تھی۔
وہ واپس پلٹ کے ٹیبل تک آئی‘جانتی تھی کہ عادل اسے اس طرح جانے نہیں دے گا‘عادل نے دودھ فریج سے نکالا اور کچن میں جانے لگا۔
’’مجھے دیر ہو رہی ہے عادل ٹھنڈا دودھ ہی دے دو۔‘‘وہ بولی۔
عادل نے دودھ گلاس میں ڈالا اور اس کی طرف بڑھایا‘دودھ کا گلاس فاطمہ نے اس طرح اپنے اندر انڈیلا جیسے کہ کوئی دوا ہو۔
’’میرا اتنا خیال مت رکھا کرو عادل ‘خدا کے لئے مجھے اس کا عادی مت بنائو۔‘‘ فاطمہ کی آنکھیں ٹیبل کے کپڑے میں گڑی تھیں۔
’’کیوں؟کیوں نہ رکھوں خیال ؟کچھ نہیں لگتیں تم میری؟کوئی رشتہ نہیں ہے تمہارا مجھ سے؟‘‘وہ اس کے سامنے رکھی کرسی پر بیٹھ گیا۔
’’رشتوں کی اہمیت ہی کیا ہوتی ہے عادل؟کبھی لوگ خود اسے توڑ دیتے ہیں اور کبھی وقت ہم سے چھین لیتا ہے‘بہتر یہی ہے کہ رشتوں کے اس گورکھ دھندے میں نہ ہی پڑا جائے‘جو جیسے جی رہا ہے اسے جینے دیا جائے۔‘‘فاطمہ کے لہجے میں ان دیکھی اداسی تھی۔
’’یہ تمہارا فلسفہ ہو سکتا ہے‘میرا اور میرے خیالات کا اس سے کوئی تعلق نہیں‘میرے لئے رشتے زندگی میں اہم ہوتے ہیں‘ اور مرنے کے بعد بھی اور ان کی اہمیت کو دنیا کی کوئی چیز کم نہیں کر سکتی۔‘‘عادل نے کہا۔ وہ اٹھی اور اپنا بیگ سنبھالنے لگی۔
’’دوپہر کا کھانا میں لیتا آئوں گا آفس سے‘تم مت بنانا اور دوپہر کو بچوں کے ساتھ آرام کرنا‘پھوپھو بتا رہی تھیں کہ تم سلائی سینٹر جوائن کر رہی ہو‘لیکن میں یہ کہتا ہوں کہ تمہیں دوپہر میں آرام کی ضرورت ہے‘ اور وہ میں تمہیں ہرگز کمپرومائز نہیں کرنے دوں گا۔‘‘عادل بولا تھا اور وہ بنا کچھ کہے وہاں سے چلی آئی تھی‘بولتی بھی تو کیا۔عادل کے پاس اسے مطمئن کرنے کے لئے سو طرح کے دلائل تھے۔

…٭٭٭…

’’آج ہم لنچ کہیں باہر کریں گے۔‘‘کام کے دوران ہی شانزے نے کہا تھا۔
’’نہیں شانز ے آج مجھے جلدی گھر جانا ہے‘ اور وہیں لنچ کرنا ہے‘فاطمہ کو میں نے جلدی آنے کا کہا ہے۔‘عادل نے بے اختیارہی یہ جملہ ادا کیا تھا‘ جو شانزے کو سلگا کے رکھ گیا تھا۔
’’ترس کھا کے ‘ہمدردی کے جذبے کے تحت گھر میں رکھنا تو ٹھیک تھا‘لیکن اب نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ تم اس کے لئے مجھ نظر انداز کرو؟‘‘شانزے نے گڑھتے ہوئے جواب دیا۔
عادل نے لمحہ بھر شانزے کے چہرے کو خاموشی سے دیکھا‘جو کہ بہت انجانا اور بہت پرایا محسوس ہو رہا تھا۔
’’میں نے اس پر ترس نہیں کھایا شانزے‘وہ میرے جگری دوست کی بیوہ ہے‘وہ دو معصوم بچوں کی ماں ہے‘‘‘عادل نے اطمینان سے کہا۔
’’تمہارے جگری دوست کے کئی رشتہ دار ہیں اور اس کی بیوہ کے بھی‘پھر یہ ذمہ داری صرف تمہارے اوپر کیوں آن پڑی ہے؟‘‘
شانزے کے لہجے میں طنز کی اک کاٹ تھی۔
’’میرا خیال ہے کہ تم یہ اعتراض کرنے والی کوئی نہیں ہوتیں‘وہ میرے لئے قابل تعظیم ہے‘اس عورت سے میرا بہت اٹوٹ رشتہ ہے۔‘‘وہ بولا۔
’’جب دوست ہی نہیں رہا تو پھر کیسا رشتہ کیسی تعظیم؟کوئی کسی کو یوں بنا کسی جائز رشتے کے اپنے گھر نہیں بٹھاتا‘ آخر لگتے کیا ہو تم اس کے اور وہ تمہاری؟‘‘شانزے چلانے لگی تھی۔
’’سب کچھ۔‘‘وہ لاشعوری طور پہ بولا تھا۔
’’میرے لئے وہ پوری دنیا‘پوری کائنات ہے۔‘‘نجانے کون سا رشتہ اس کے اندر سے سینہ تان کے اٹھا تھا‘شانزے حیرت اور شاک کی کیفیت میں اس کی جانب دیکھ رہی تھی۔
عادل پھر رکا نہیں‘اٹھا اور شانزے کے آفس سے تیزی میں نکلا چلا گیا۔
…٭٭٭…

کھانا باہر سے پیک کرا کے وہ گھر پہنچا تھا‘کچھ ہی دیر میں فاطمہ اپنے اسکول سے بچوں سمیت آگئی تھی‘ اور آج بہت دنوں بعد اس نے اطمینان سے بچوں کے ساتھ کھانا کھایا تھا‘کھانے کے بعد عادل نے چائے بنائی اور فاطمہ کا مگ اسے پکڑایا۔
’’بچے سو گئے؟‘‘
’’ہاں بہت تھک گئے تھے‘کھانا کھاتے ہی نیند آگئی ان کو۔‘‘فاطمہ نے مطمئن لہجے میں کہا۔
’’تم نے دفتر نہیں جانا؟‘‘فاطمہ نے پوچھا۔
’’نہیں دل نہیں کر رہا۔‘‘وہ بولا۔
’’کیوں ؟پہلے تو کبھی تم نے دفتر سے بے وجہ چھٹی نہیں کی۔‘‘فاطمہ نے کہا۔
’’بس دل نہیں کر رہا‘کچھ ڈسٹرب سا ہوں۔‘‘وہ مختصر اً بولا۔
’’شانزے سے لڑائی ہوئی ہے؟‘‘بہت دنوں بعد فاطمہ کا لہجہ اک دوست کا لہجہ تھا‘جسے محسوس کرتے ہی عادل پگھل سا گیا۔
’’نجانے کیا سمجھتی ہے خود کو‘نوکر بنا کے رکھنا چاہتی ہے اپنا‘میں اس کی غلامی نہیں کرناچاہتا‘ اپنا شعور‘ اپنی سوچ اپنی مرضی رکھتا ہوں۔‘‘وہ غصے میں بولا‘فاطمہ اس کا یہ روپ دیکھ کر خوفزدہ سی ہو گئی‘ اور سمجھ گئی
 
کہ کچھ گڑ بڑ ہے‘وہ عادل کے بہت پاس آکر کھڑی ہوگئی۔
’’کیا ہوا ہے عادل؟خیریت تو ہے؟‘‘وہ ابھی اور بھی کچھ پوچھنے ہی والی تھی کہ شانزے اسی لمحے لائونج میں داخل ہوئی۔‘فاطمہ اور عادل کو اتنا قریب دیکھ کر اس کے تن بدن میں آگ سلگ گئی۔
’’پہلے تو صرف شک تھا مجھے‘آج اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا۔‘‘شانزے نے نفرت انگیز لہجے میں کہا۔عادل نے منہ دوسری طرف پھیر لیا‘فاطمہ حیران رہ گئی۔
’’ارے شانزے کیسی ہو؟آئو بیٹھو۔‘‘فاطمہ نے نا سمجھنے والے انداز سے کہا۔
’’شٹ اپ تمہیں ڈرامہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے‘ اور یہ بیوگی کی سفید چادر اتار دو اور کھول دو دنیا کے سامنے اپنا یہ چالباز روپ۔‘‘شانزے نے شعلہ بار انداز میں کہا۔فاطمہ حیران تھی ‘اس کی باتیں سن کر۔
’’ایک لفظ بھی اور کہا ناں تم نے شانزے‘ تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہو گا۔‘‘عادل سے رہا نہیں گیا۔
’’دوستی کی آڑ میں عشق کرتے ہو ناں اس سے ؟اور یہ میاں کو مرے دس دن بھی نہیں ہوئے کہ بچے اٹھا کے یہاں آگئی‘اپنے محبوب کی جدائی برداشت نہیں ہو رہی تھی ناں۔‘‘شانزے نے آکے فاطمہ کو بازو سے پکڑا‘عادل نے شانزے کو پکڑ کے اس کے منہ پہ اک زور دار طمانچہ مارا‘ جس نے دبلی پتلی سی شانزے کو ہلا کے رکھ دیا۔
’’نکل جائو میرے گھر سے اور دوبارہ کبھی قدم نہ رکھنا۔‘‘عادل نے ہاتھ سے اشارہ کیا‘وہ گال پہ ہاتھ رکھے حیران وپریشان سی کھڑی تھی۔
’’تم نے بہت غلط کیا ہے‘میرے منہ پہ یہ طمانچہ مار کے‘میرے ساتھ نہیں اپنے ساتھ‘میں تمہیں برباد کردوں گی۔‘‘وہ غصے میں بولی۔
’’گیٹ یو لاسٹ اور اگر نہیں گئیں تو میں دھکے دے کر نکالوں گا۔‘‘فاطمہ روکتی رہ گئی‘ مگر عادل نے سختی سے کہا اور شانزے نہایت غصے کے عالم میں تیزی سے اس کے گھر سے نکل گئی اور شاید اس کی زندگی سے بھی۔

…٭٭٭…

’’کہاں جا رہی ہو تم فاطمہ؟‘‘اس نے آدھے گھنٹے بعد فاطمہ کے کمرے کا دروازہ کھولا‘ تو وہ اپنا اور بچوں کا سامان پیک کر رہی تھی‘دونوں بچے بد ستور سو رہے تھے۔
’’میں یہ گھر چھوڑ کے جارہی ہوں عادل۔‘‘
وہ بولی۔
’’وجہ پوچھ سکتا ہوں؟‘‘وہ غم وغصے سے بری طرح کھول رہا تھا۔
’’تمہارا اور میرا کوئی رشتہ نہیں ہے عادل اور جو تھا‘ وہ عدنان کی موت کے وقت ہی ختم ہو گیا۔‘‘وہ سفاک لہجے میں بولی۔
’’اس رشتے کو کیا نام دو گی فاطمہ جو میرا تم سے ہے اور تمہارے بچوں سے۔‘‘ وہ بولا۔
’’یہ کوئی ایک آدھ مہینے پر انا رشتہ نہیں ہے فاطمہ‘بارہ طویل سالوں کی محبت اور دوستی ہے۔‘‘
’’اس دوستی کو اس اپنائیت اور تقدس کے اس رشتے کو کس نظریے سے دیکھا جائے گا‘  معاشرے میں تمہیں پتہ ہے؟کل تمہاری پھوپھو نے کہا‘آج شانز ے اور پرسوں پوری دنیا کہے گی کہ یہ رشتہ جائز نہیں۔‘‘
’’نہیں ہے مجھے پروا زمانے کی‘ مجھے صرف تمہاری پروا ہے‘اذین کی اور حرا کی پروا ہے‘مجھے میرے شہید دوست کی پروا ہے ‘مجھے اس زمانے کی پروا نہیں ہے۔‘‘وہ شدت جذبات سے بولا۔
’’تم زمانے کی پروا بے شک مت کرو‘اپنے اور شانزے کے رشتے کی پروا کرو‘میں تمہیں اس سے دور کرنا نہیں چاہتی۔‘‘فاطمہ نے نرمی سے کہا۔
’’اور میں اس لڑکی کے قریب نہیں جاناچاہتا‘نہ اس سے کوئی رشتہ رکھنا چاہتا ہوں۔‘‘وہ بولا۔
’’جذباتی فیصلے مت کرو عادل‘تمہیں اس لڑکی سے محبت ہے۔‘‘فاطمہ نے گو یا اسے یاد دلایا۔
’’نہیں ہے مجھے اس سے محبت فاطمہ‘نہیں کر سکتا میں ایسی خود غرض لڑکی سے محبت اور نہ کرنا چاہتا ہوں۔‘‘وہ بہت یقین کے ساتھ بولا۔
فاطمہ خاموشی سے اپنا سامان پیک کر کے آگے بڑھی اور دونوں بچوں کو جگایا۔
’’اٹھو حرا…اٹھو اذین‘چلو ہمیں چلنا ہے۔‘‘وہ بولی۔
 
’’کہاں جائو گی تم؟کون ہے تمہارا؟‘‘
عادل نے سوال کیا۔
’’بہت بڑی دنیا ہے‘ عادل کہیں بھی چلی جائوں گی‘کسی سڑک کے فٹ پاتھ کے کنارے زندگی گزارلوں گی‘لیکن تمہاری زندگی سے بہت دور چلی جائوں گی۔‘‘وہ حرا کو اٹھا کے بولی‘ننھی حرا اس کے کندھے پہ جھول گئی۔
’’میری زندگی سے تم دور نہیں جا سکتیں‘ اور نہ ان بچوں کو لے جا سکتی ہو۔‘‘عادل نے زبردستی حرا کو اس کے کندھے سے اتارا۔
’’کس رشتے کے تحت مجھے اس گھر میں رکھو گے؟کس رشتے کے تحت۔‘‘وہ روتے اور چلاتے ہوئے کہہ رہی تھی۔
’’اپنی بیوی کی حیثیت سے‘نکاح کروں گا میں تم سے ‘اپنا نام دوں گا ان بچوں کو۔‘‘وہ اس سے بھی تیز لہجے میں بولا اور پھر تیز رفتاری سے گھر سے نکل گیا‘ اور جب دو گھنٹے بعد وہ گھر واپس آیا تو فاطمہ گھر میںنہیں تھی‘وہ جا چکی تھی‘نجانے کہاں اورنجانے کس طرح؟

…٭٭٭…

ملٹی شیڈ کے عروسی لباس میں ماہا بہت خوبصورت لگ رہی تھی‘پروفیشنل میک اپ اور ڈریس ڈیزائنر کی محنت نے ماہا پر حسن کے گویا پھول کھلا دیئے تھے‘اس کا کچی عمر کا کومل حسن اک دلفریب مستی اور کشش اپنے اندر سموئے ہوئے تھا۔
فوٹو گرافر نے دل کھول کے اس کے اسٹلز لئے‘راحلہ آج بہت خوش تھیں‘ ان کی برسوں کی تمنا پوری ہو رہی تھی‘ان کے خوابوں کے عین مطابق اس کی بیٹی کو لڑکا ملا تھا‘ اور گھر بھی ایسا‘ جیسا انہوں نے چاہا تھا۔
ماہا خود کو آج بے جان اور بے روح محسوس کر رہی تھی‘سفید رنگ کی بے داغ اور بھولی بھالی گڑیا‘جسے اس کے کھیلنے والے نے بے حد بے طرح سجایا  ہو‘اعلیٰ لباس پہنایا ہو‘لیکن اس کی تقدیر فقط طاق پہ سجنا اور بے مول ہونا ہی ہے‘ اور کچھ نہیں اس کے اندراک طوفان تھا‘احساسات میں اک شور برپا کر رہی تھی‘ٹھکرائے جانے کا احساس اس کے اوپر غالب تھا۔
’’آپ نے مجھے چھوڑ کے ‘میری محبت کو ٹھکرا کے اچھا نہیں کیا ذلفی‘میں نے تو آپ کی چاہت میں زمانہ چھوڑ دیا تھا‘ اور آپ نے کیا کیا؟اتنی آسانی سے کہہ ڈالا کہ جائو اور اسی سے شادی کر لو جس کو چاہتی ہو‘کیا میرے لئے یہ شادی کرنا اتنا آسان ہے ذلفی؟‘‘وہ خود کلامی اور خود اذیتی میں گھرِی ہوئی تھی۔
اور پھر راحلہ بہت فخر سے اسٹیج پہ لے گئی‘ اور ساحر گردیزی کے پہلو میں بٹھا دیا‘ڈارک بلیو ٹو پیس میں ملبوس تھا‘ اور بہت خوش تھا‘جب ماہا کا مجسمہ اس کے پہلو میں بیٹھا تو ساحر نے اس کے کان میں ایک معنی خیز سر گوشی کی‘لیکن اس پتھر کی دیوی میں کوئی احساس نہیں پھوٹا‘راحلہ نے اپنے ہی گھر کے کشادہ لان میں اس چھوٹی سی انگیجمنٹ پارٹی کا انعقاد کیا تھا‘ایونٹ آرگنائزر کے ماہر فنکار ذہن نے لان کے اس گوشے کو بہت منفرد اور خوبصورت بنا ڈالا تھا۔
تمام دیکھنے والے اس کم عمر خوبصورت جوڑی کو رشک کی نگاہوں سے دیکھ اور سراہ رہے تھے۔
اور پھر اک خاموش لمحے میں ساحر نے ماہا کے بے جان ہاتھ میں اک رشتہ ڈال دیا‘ اور اس کو جگمگانے کے لئے چھوڑ دیا‘ اور پھر دو گھنٹے کے اس مزیدار ہلے گلے سے بھر پور فنکشن کے بعد ماہا کو اس کی کزنز لڑکیاں اوپر اس کے کمرے میں لے آئیں‘راحلہ اس وقت مہمانوں کورخصت کرنے میں مصروف تھی۔
ماہا اپنے کمرے میں آئینے کے سامنے بیٹھی انگلی میں چمکتی ہیرے کی انگوٹھی کو دیکھ رہی تھی‘ جو اسے کسی اژدھے کا روپ لگ رہی تھی۔
’’آپ نے اچھا نہیں کیا میرے ساتھ ذوالفقار ‘آپ نے بہت غلط کیا ہے‘ اور آپ ضرور پچھتائیں گے۔‘‘ماہا کی آنکھ سے ایک آنسو پھسل کے گرا تھا‘ اور ماہا نے اپنے پرس سے گولیوںکا وہ پیکٹ نکالا‘ جو اس نے ذلفی کے گھر سے واپسی پر میڈیکل اسٹور والے کو دوگنے پیسے دے کر خریدا تھا‘ماہا نے تمام کی تمام گولیاں اپنی ہتھیلی پہ رکھیں اور پھر انہیں نگل لیا۔
…٭٭٭…

’’میں آج بہت خوش ہوں ماہا‘آج میرے دلی تمنا پوری ہوئی ہے۔‘‘
راحلہ نے کمرے کے اندر داخل ہو کے پہلا جملہ یہی کہا تھا‘ماہا بستر پہ دوسری طرف چہرے کیے لیٹی تھی‘ابھی تک عروسی لباس میں ملبوس تھی۔
’’تمہیں کیسے بتائوں کہ آج تم کتنی پیاری لگ رہی تھیں‘میری سہیلیوں میں میری بیٹی کے حسن کی دھوم مچ گئی‘انیلا خواجہ ولی کہ آج تم کوہ قاف سے اتری کوئی پری لگ رہی ہو‘ اور نیلو فرکی تو ساری اکڑ ہی ختم ہو گئی‘بڑے قصیدے گاتی تھی اپنی بیٹی کے حسن کے‘ تمہارے مقابلے میں تو اس کی بیٹی کچھ نہیں۔‘‘راحلہ وہ تمام تحائف ماہا کی ٹیبل کے پاس رکھتی جا رہی تھی‘ جو منگنی میں اسے ملے۔







No comments:

Post a Comment

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...