Nazim's poetry

Nazim's poetry

Saturday, March 17, 2012

Ye Jo Tmhara Mera Rishta hai

دلوں کے اور جذبات کے قفل کھولنے عورت کو بخوبی آتے ہیں‘ لیکن شاید عورت یہ نہیں جانتی کہ عورت بظاہر وہ قفل کھول دیتی ہے‘ وہ بت توڑ دیتی ہے‘ لیکن بدلے میں اسے سوائے پتھروں کے ڈھیر اور مٹی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا‘ اور وہ تہی داماں رہ جاتی ہے‘ اور جب اس چیز کا احساس ہوتا ہے‘ تو بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔
ذوالفقار احمد بھی اک ایسا بت تھے کہ جسے ماہا حسن ہرحال میں توڑنا چاہتی تھی‘ محبت سمجھ کر‘ ضد سمجھ کر یا پھر… یا پھر انا کی جیت سمجھ کر‘ وہ ذوالفقار احمد کو پانا چاہتی تھی‘ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے۔
لائبریری سے فارغ ہو کے وہ سیدھا کینٹین جانے لگی‘ اپنی دوست ماریہ کے ہمراہ وہ ہمیشہ سے زیادہ اداس اور افسردہ تھی۔
’’تجھے کیا ہوا ہے؟ اس طرح منہ کیوں لٹکا رکھا ہے؟‘‘ ماریہ نے اسے چھیڑا۔
’’میں آج بھی انہیں نہیں بتا پائی ماریہ! کہ مجھے ان سے کتنی محبت ہے؟‘‘ وہ بولی۔
’’تم کبھی بھی یہ بم بلاسٹ نہیں کر پائو گی مائی ڈیئر بھول جائو۔‘‘ ماریہ نے صاف گوئی کا مظاہرہ کیا۔
’’کیسی دوست ہو تم ماریہ! تم چاہتی ہو کہ میں اسی طرح تڑپتی رہوں؟ اسی طرح کلبلاتی اور سسکتی رہوں؟ اپنی منزل کبھی نہ حاصل کروں؟ اپنی محبت کبھی نہ پا سکوں؟‘‘ وہ الٹا ماریا پہ خفا ہوئی۔
’’ماہا پلیز تم مجھے کیوں دوش دے رہی ہو؟ میرا کیا قصور ہے؟ بتا تم خود نہیں پاتیں اور Blame مجھے کرتی ہو‘ میرا کیا قصور ہے؟ یہ تو بتائو اور پھر منزل تم نے ایسی متعین کی ہے کہ جس رستے پہ جانا ہی مشکل ہو‘ ایسی محبت کا بھلا کیا فائدہ کہ جس میں محبوب کے اپنا ہو جانے کی امید ہو‘ اور نہ محبت ملنے کی؟‘‘
’’ہے امید ہے مجھے ماریہ! کہ وہ میرے بن جائیں گے‘ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے‘ میں ان سے شادی کرنا چاہتی ہوں۔‘‘ ماہا نے یہ جملہ جتنی سنجیدگی سے کہا تھا‘ ماریہ نے اتنا ہی لائٹ لیا تھا‘ اور وہ کھلکھلا کے ہنسنے لگی تھی۔ ہاتھ میں رکھا فولڈر منہ پہ رکھے ماریہ دیر تک ہنستی کھلکھلاتی رہی۔
’’ذلیل ہو تم اوّل نمبر کی‘ لائق ہی نہیں ہو تم دوست بننے کے‘ دفع ہو جائو‘ اور مجھے میرے حال پہ چھوڑ دو۔‘‘ ماہا اٹھی اور آگے بڑھ گئی۔
’’ماہا رکو پلیز رکو میری بات سنو۔‘‘ ماریہ نے اپنی رفتار بڑھا کے کہا۔
’’کیا تم نے واقعی یہ پکا اور ٹھوس فیصلہ کر لیا ہے کہ تم ذوالفقار سر ہی سے شادی کرو گی؟‘‘ ماریہ نے سنجیدگی سے پوچھا۔
’’ان کے علاوہ کسی سے بھی نہیں کروں گی۔‘‘ وہ ہٹ دھرمی سے بولی۔
’’لیکن تم… تم اپنی فیملی کو کیسے منائو گی؟ اور اگر وہ مان بھی جائیں تو کیا ڈاکٹر ذوالفقار مانیں گے؟ I don't think so نہیں ماہا‘ وہ کبھی نہیں مانیں گے۔‘‘ ماریہ نے تاسف سے گردن نفی میں ہلائی۔
’’میں خود منائوں گی ان کو‘ مجھے اپنی محبت پہ یقین ہے ماریہ‘ تم مجھے صرف تین دن دو‘ تین روز آئی ایم شیور کہ میں‘ میں انہیں منا لوں گی۔‘‘ وہ پرُعزم تھی‘ پرُاعتماد تھی‘ اور حوصلہ اور عزم کسی نہ کسی سمت تو لازماً لے جاتا ہے۔
…٭٭٭…

فرخندہ بی نے ڈاکٹر ذوالفقار کے کمرے کا دروازہ کھٹکھٹایا۔
’’یس۔‘‘ اندر سے آواز آئی۔
فرخندہ بی ہاتھ میں چائے کی ٹرے مع اخبار کے اٹھائے اندر کمرے میں چلی گئیں۔ ذوالفقار بیڈ ٹی لینے کے عادی تھے‘ یہ ان کی برسوں کی روٹین تھی‘ جو کہ اب ایک عادت بن چکی تھی۔
اے سی والے خنک اور سگریٹ کی رچی بسی خوشبو والے کمرے میں فرخندہ بی اندر آئیں‘ کمرے کی دیواروں پہ ہر طرف فائزہ کی تصویریں آویزاں تھیں‘ اور ایک دیوار پہ فائزہ کی سرخ جوڑے میں قد آدم تصویر تھی‘ یوں لگتا تھا کہ جیسے فائزہ خود تصویر کا بہروپ رچائے کھڑی ہو‘ اور ذوالفقار کی تنہائی میں یوں بھی یہ تصویر زندہ ہو جاتی تھی‘ اس کے پاس ہی کہیں سانسیں لینے لگ جاتی تھی۔ وہ سانسیں جو اب تک ٹوٹ گئی ہیں‘ کہ جن کا کوئی موہوم سا سراغ بھی اب کہیں نہیں تھا۔ فرخندہ بی نے تصویر کی جانب دیکھ کے اک گہری سانس لی‘ اور ذوالفقار کے لئے کپ میں چائے ڈالنے لگی۔
’’ارسلان اٹھ گیا ہے فرخندہ بی!‘‘ ذوالفقار نے پوچھا۔
’’بابا رات کو اڑھائی بجے گھر آئے تھے‘ ساری رات کمپیوٹر پہ بیٹھے نجانے کیا ٹھک ٹھک کرتے رہے‘ صبح اذانوں کے وقت سوئے ہیں‘ ابھی تک سو رہے ہیں۔‘‘ فرخندہ بی نے چائے میں چمچ ہلاتے ہلاتے کہا۔
’’مجھے تو کمرے میں آنے ہی نہیں دیتے بابا‘ ڈانٹ دیتے ہیں‘ اور پھر صاحب میں روک ٹوک کرنے والی کچھ لگتی بھی تو نہیں ناں‘ ماں باپ ہی حق رکھتے ہیں بچے کو سمجھانے کا۔‘‘ فرخندہ بی نے کہا۔
’’کیا سمجھائوں میں اسے؟ کیا روک ٹوک کروں؟ کیا کیا ہے اس نے فرخندہ بی؟‘‘ ذوالفقار نے سختی سے پوچھا۔
’’کیا کچھ نہیں صاحب! لیکن وہ بڑا ہو رہا ہے‘ اسے آپ کی توجہ کی ضرورت ہے۔ اسے اکیلا تو نہ چھوڑیں۔‘‘
’’تو کیا کروں؟ کام دھندہ‘ یونیورسٹی‘ کلینک سب چھوڑ چھاڑ کے اس کو گود میں بٹھا لوں؟ دو سال کا بچہ نہیں ہے وہ فرخندہ بی‘ تیرہواں برس لگے گا اسے اس سال۔‘‘ ذوالفقار کا لہجہ ٹھوس اور سخت تھا۔
’’آپ اسے وقت نہیں دے سکتے تو کم از کم اسے ایک ماں ہی لا دیں‘ اسے ضرورت ہے کسی کی‘ جو اسے وقت دے‘ اس کی پریشانیاں سمجھے‘ وہ آج بچہ ہے‘ کل بڑا ہو گا‘ آج کل کا زمانہ بہت خراب ہے نجانے کس کی صحبت میں بیٹھتا ہے‘ کیا کیا کرتا ہے صاحب خدا کے لئے آپ شادی کر لیں‘ اس گھر کو آپ کو اور ارسلان بابا کو عورت کی ضرورت ہے‘ ایک عورت بکھری چیزوں کو سمیٹ سکتی ہے‘ میری بوڑھی ہڈیوں میں اب طاقت نہیں رہی۔‘‘ فرخندہ بی نے نم آنکھوں سے التجا کی‘ ذوالفقار خاموش ہو گئے۔
’’فائزہ کی جگہ کوئی نہیں لے سکتا فرخندہ بی۔‘‘ ذوالفقار کا لہجہ سرد اور نرم ہو گیا۔
’’بے شک نہیں لے سکتا صاحب! بے شک فائزہ بی بی کی جگہ کوئی نہیں لے سکتا‘ لیکن کم از کم کچھ زخموں کو بھر تو سکتا ہے ناں؟ کچھ بے روح چیزوں کو زندہ تو کر سکتا ہے ناں؟ ہماری تو زندگی جتنی گزرنی تھی گزر گئی‘ لیکن ارسلان کے لئے تو ابھی سب شروع ہوا ہے۔‘‘ فرخندہ بی کی آنکھوں کی نمی گہری ہو گئی۔
’’اس موضوع کو یہیں ختم کریں فرخندہ بی اور کچھ نہیں۔‘‘ ہاتھ کے اشارے سے ذوالفقار نے انہیں روک دیا تھا‘ وہ بھی اپنے اوپر ضبط کرتی کمرہ چھوڑ آئیں‘ اس کے بعد چائے اور اخبار میں ذوالفقار کے لئے کوئی مزہ نہیں رہا تھا۔
…٭٭٭…

’’میں ماہا سے شادی کرنا چاہتا ہوں ڈیڈ!‘‘ بہت صاف لفظوں میں ساحر نے اپنے دل کی بات کی تھی۔ ناشتے کی پلیٹ میں کانٹے سے ٹوسٹ کو کچوکے لگاتے باسط گردیزی کے ہاتھ لمحہ بھر کو رک گئے۔
’’آر یو شیور ساحر؟‘‘ یہ ان کے لئے حیرت کا باعث بات تھی کہ ان کا بیٹا اسی لڑکی کا نام بذاتِ خود لے کہ جس کا خیال ان کے اپنے دل میں بھی تھا۔
’’یس ڈیڈ! ماہا حسن وہی میری چوائس ہے‘ اسی سے میں شادی کرنا چاہتا ہوں۔‘‘ وہ یقین سے بولا۔ باسط گردیزی نے مسکرا کے اپنے اکلوتے بیٹے کی جانب دیکھا۔۔
’’مجھے بہت خوشی ہوئی تمہاری پسند کا سن کے‘ ماہا کے متعلق تو میں سالوں سے سوچتا تھا کہ وہ لڑکی ہمارے گھر کے لئے ہی بنی ہے‘ اس کے ڈیڈی کی زندگی میں ہی مجھے یہ خیال آیا تھا کہ اسے تمہارے لئے مانگ لوں‘ لیکن تب تم لوگ بہت چھوٹے تھے‘ اس لئے میں نے خاموشی اختیار کر لی‘ اور اب مجھ سے پہلے یہ خواہش تمہارے لب پہ آئی ہے‘ یہ سن کے مجھے بہت اچھا لگا۔‘‘ باسط گردیزی نے فرطِ جذبات سے خوش ہوتے ہوئے کہا۔
’’تو ڈیڈ! کیا میں آپ کی طرف سے رضا مندی سمجھوں؟‘‘ ساحر کی خوشی کی کوئی حد نہیں تھی۔
’’آف کورس بیٹا! تم ماہا سے کہہ دو وہ اپنی مما کو بتا دے کہ اس ویک اینڈ پر پرپوزل لے کر آرہے ہیں۔‘‘ باسط صاحب نے کہا۔
’’لیکن ڈیڈ بات آپ نے کرنی ہے‘ میں نے ماہا سے اس متعلق ابھی کوئی بات نہیں کی‘ ان فیکٹ اسے ابھی تک پتہ ہی نہیں کہ میں اسے کتنا پسند کرتا ہوں۔‘‘ ساحر نے مسکراتے ہوئے کہا۔
’’واٹ تم نے ابھی تک اسے بتایا ہی نہیں؟ یہ کیا بات ہوئی؟ تم نے باہر کی یونیورسٹیز میں تعلیم حاصل کی ہے‘ لڑکیوں میں اٹھے بیٹھے ہو‘ تمہیں تو یہاں کے لڑکوں سے زیادہ بولڈ ہونا چاہئے اور تم نے ابھی تک اسے بتایا ہی نہیں۔‘‘
’’ڈیڈ میری اس سے ملاقاتیں کتنی ہوئی ہیں؟ صرف دو اور ان دو ملاقاتوں میں وہ مکمل طور پہ مجھ سے فرینک نہیں ہو پائی‘ تو میں اس کو پرپوز کہاں سے کرتا؟ وہ تو اک ایسی لڑکی ہے‘ جو آہستہ آہستہ عیاں ہوتی ہے‘ پرت در پرت اس کے اندر اک پوری کائنات جمع ہے‘ پوشیدہ ہے۔‘‘ ساحر کے ذہن پہ ماہا کا دلربا چہرہ چھا گیا۔
’’لگتا ہے محبت بہت گہرائی سے اتر گئی ہے‘ تمہارے اندر مائی سن۔‘‘ باسط گردیزی مسکرا دیئے۔
’’اب بتائیں ناں ڈیڈ! آپ کب پرپوزل لے کر جائیں گے اس کے گھر؟‘‘ وہ کمال بے تابی سے بولا۔
’’پہلے تو ماہا کے دل میں یہ بات تو ڈال دو‘ کسی ڈنر پہ یا لنچ پہ اسے انوائٹ کرو اور پرپوز کر و‘ اگر وہ بھی رضامند ہو گئی‘ تو اس کی مما ایک منٹ بھی نہیں سوچیں گی‘ اور مان جائیں گی۔‘‘ باسط صاحب ٹیبل سے اٹھتے ہوئے بولے۔
’’ہوں ڈنر یا لنچ‘ چلیں میں کوشش کرتا ہوں۔‘‘ وہ کچھ سوچتے ہوئے بولا۔
…٭٭٭…

اس کے موبائل فون پہ انجان نمبرز بلنک ہو رہے تھے‘ نا چاہتے ہوئے بھی اس نے فون پک کیا۔

’’ہیلو ساحر گردیزی بات کر رہا ہوں۔‘‘ دوسری طرف سے آواز آئی۔
’’جی ساحر صاحب! کیسے ہیں آپ؟‘‘ وہ بولی۔
’’ساحر صاحب؟ یہ ساحر صاحب کون ہے‘ کیا آپ ان کے دفتر میں امپلائی ہیں؟ اتنے تکلف سے تو صرف اپنے باس سے ہی بات کی جاتی ہے۔‘‘ وہ شرارت سے بولا‘ وہ مسکرا دی۔’’آئی ایم سوری اگر آپ کو کچھ برا لگا تو ویسے آپ کو میرا نمبر کس نے دیا؟‘‘
’’ڈھونڈنے سے تو خدا بھی مل جاتا ہے‘ یہ تو پھر ایک سیل نمبر تھا۔‘‘ وہ بولا۔
’’کہئے کس سلسلے میں یاد کیا؟‘‘
’’یاد کرنے کے لئے کسی سلسلے کی ضرورت نہیں ہوتی‘ یاد تو یاد ہوتی ہے بے ربط‘ بے سلسلہ‘ بے معنی۔‘‘
’’باتیں بہت اچھی کرتے ہیں آپ‘ الفاظ کا سحر خوب بکھیرتے ہیں۔‘‘
’’ساحر جو ہوں‘ سحر تو بکھیروں گا ہی۔‘‘ وہ اِترایا۔
’’میں اس وقت یونیورسٹی میں ہی ہوں‘ آج میرا پریکٹیکل ہے۔‘‘ ماہا نے اطلاع دی۔
’’میں بھی اس وقت آفس میں ہوں‘ اور آج میری بھی میٹنگ ہے۔‘‘ ساحر نے بالکل اس کے لہجے میں نقل اتاری۔
’’تو اگر اتنے ہی مصروف ہیں‘ تو پھر بولیں فون کیوں کیا ہے؟‘‘ وہ زچ ہوئی۔
’’آج شام آپ کیا کر رہی ہیں؟‘‘ وہ بولا۔
’’وہ شام کو ہی سوچوں گی۔‘‘
’’کیوں؟ ابھی نہیں سوچا جا سکتا؟‘‘ حاضر جواب وہ بھی تھا۔
’’نہیں کیونکہ اس وقت پریکٹیکل کرنے جا رہی ہوں۔‘‘
’’چلیں تو ابھی آپ پریکٹیکل کریں‘ اور شام کو میرے ساتھ ڈنر کر لیں۔‘‘ ساحر نے انوکھے انداز میں کہا۔
’’ڈنر لیکن کس خوشی میں؟‘‘
’’دیکھیں ماہا! میں اس شہر میں نیا آیا ہوں‘ مجھے علم نہیں یہاں کے کھانوں کا‘ یہاں کی جگہوں کا‘ کیا آپ مجھے بتائیں گی نہیں کہ آپ کے اس شہر روشنی میں کیا پایا جاتا ہے کیا نہیں؟‘‘ ساحر نے معصومیت سے کہا۔
’’یہ شہر آپ کا اپنا ہی ہے‘ آپ کی پیدائش یہیں کی ہے‘ آپ یہاں سے انجان کس طرح ہو سکتے ہیں؟‘‘
’’تو پھر آپ میرے ساتھ ڈنر نہیں کریں گی؟‘‘
’’ڈنر۔‘‘ وہ سوچنے لگی۔
’’ڈنر نہیں تو پھر آئس کریم؟‘‘ اس نے آفر بدلی۔
’’اتنی ٹھنڈ میں آئس کریم؟‘‘ وہ حیران ہوئی۔
’’تو پھر کافی؟ کریم کے ساتھ۔‘‘
’’سوچا جا سکتا ہے۔‘‘ وہ گویا ہار گئی۔
’’میں آپ کو پک کر لوں گا گھر سے ٹھیک نو بجے۔‘‘ ساحر نے یہ کہہ کے فون بند کر دیا۔ ماہا حیرت سے فون کو دیکھے گئی۔
’’ملاقاتوں کے بہانے ڈھونڈ رہا ہے یہ شخص۔‘‘ وہ بڑبڑائی۔

یہ رقص شام غم ہے اور میں ہوں
محبت محترم ہے اور میں ہوں
پہاڑوں پر پرندے جاگتے ہیں
دعائے صبح دم ہے اور میں ہوں
اب اس کی یاد کے تنہا سفر میں
یہ میری چشم نم ہے اور میں ہوں
یہ ساحل پر بکھرتی سیپیاں ہیں
ہوائے تازہ دم ہے اور میں ہوں
جبین دل کو سجدوں کی سہولت
تری نظرِ کرم ہے اور میں ہوں
کہ وصف زندگی تھکنے لگا ہے
تری مشق ستم ہے اور میں ہوں

نجانے کیسی خزاں رسیدہ اور ہجر زدہ رت نے درد دل پر دستک دی تھی کہ اردگرد کا سارا ماحول بیگانہ بن گیا تھا‘ ہر طرف اک ویرانہ سا چھا گیا تھا‘ اک بے نام سی اداسی اور گہری یاسیت نے عدنان کی پوری شخصیت کے گرد اک ایسا تنگ احاطہ کھینچ لیا تھا کہ اسے پوری کائنات کھوکھلی‘ دھندلی اور بے معنی لگنے لگی تھی۔ نجانے اس کی روح میں یہ کس طرح کی چبھن تھی‘ یہ کیسی گھٹن تھی‘ جو دن بدن بڑھتی جا رہی تھی۔
اپنے بچے اپنا اپنا پیارا شریک سفر اسے اجنبی اور انجان محسوس ہو رہا تھا۔ ان کی طرف سے دل بہت کھینچ کھینچ سا گیا تھا۔ ان کی طرف سے تو کیا‘ دل گویا پوری دنیا سے بے گانہ ہو گیا تھا‘ اندھیروں سے اس کا ایسا دل لگا تھا کہ روشنی آنکھوں میں چبھنے لگی تھی‘ دل کر رہا تھا کہ دور کوئی ویران گوشہ پکڑ کے بیٹھ جائے‘ کوئی جنگل بیابان بسا لے کسی جوگی یا سادھو سنت کی طرح دنیا سے منہ موڑ لے‘ اور ایسے ویرانے میں جا بسے کہ جہاں وہ تنہا ہو اور اس کے علاوہ اس کا رب ہو‘ اور کوئی تیسرا نہ ہو‘ یہ کس طرح کا رشتہ گانٹھ لیا تھا اس نے اپنے معبود سے کہ اس کا دل کر رہا تھا کہ پوری دنیا سے کنارہ کشی اختیار کر لے۔ زمانے بھر سے مکھ موڑ لے اور فقط ایک کونے میں بیٹھ کے اس کی ذات واحد کو سراہے‘ اسے اپنائے‘ اس کا ہو جائے‘ گھر کے لان کے ایک گوشے میں لگے جھولے پر وہ تنہا بیٹھا تھا۔ آسمان میں پھیلے کروڑوں ستاروں پہ نظر ڈال رہا تھا۔
فاطمہ اسے تلاش کرتی کرتی اس کے پاس آئی۔ سیاہ رنگ کی شال کو مکمل طور پر اوڑھے وہ سردی کی شدت سے بچنے کی کوشش کر رہی تھی‘ جبکہ عدنان سردی کی سختی سے بے نیاز فقط اک سادہ سی شلوار قمیص میں ملبوس تھا۔
’’آپ یہاں کیوں بیٹھے ہیں؟ اس قدر ٹھنڈ میں‘ چلیں اندر چلیں۔‘‘ وہ بولی۔
’’ٹھنڈ مجھ پر اثر انداز نہیں ہوتی‘ میری فکر مت کرو۔‘‘ وہ بہت بے تاثر چہرہ لئے اجنبی پن سے بولا۔
’’کیا ہو گیا ہے عدنان! آپ اتنے روکھے روکھے لہجے میں کیوں بولنے لگے ہیں‘ اور آپ پہلے کی طرح نہ بچوں سے کھیلتے ہیں‘ نہ عادل اور مجھ سے بات کرتے ہیں۔ گھر آتے ہی کوئی گوشہ بسا لیتے ہیں‘ اور وہاں بیٹھ جاتے ہیں۔‘‘ فاطمہ نے کہا۔
’’ایک تو تم عورتیں بھی عجیب ہوتی ہو‘ بات ہوتی نہیں‘ اور آپ اس کا پہلے ہی بتنگڑ بنانے بیٹھ جاتی ہو‘ اب بھلا اگر میں سکون کے چند لمحوں کی تلاش میں گھر کے لان یا سٹڈی میں تنہا بیٹھ گیا‘ تو محترمہ کو تشویش لاحق ہو گئی‘ اور آ گئیں شکایت کرنے‘ میں بدل گیا ہوں‘ کیا بدل گیا ہوں میں؟ کیا بولو؟‘‘ عدنان الٹا اس پہ چلانے لگا‘ وہ سہم گئی‘ عدنان کا ایسا لہجہ پہلے کبھی نہ تھا‘ وہ ہمیشہ تحمل اور پیار سے بولا کرتا تھا۔
’’میں نے ایسا کچھ تو نہیں کہا عدنان کہ جس کے نتیجے میں آپ اس طرح چلا رہے ہیں۔‘‘ وہ شرمندہ ہی تو ہو گئی تھی۔
’’مجھے سکون کی تلاش ہے‘ مجھے اپنے رب کی تلاش ہے‘ مجھے کسی ایسے گوشے‘ کسی ایسے کونے‘ کسی ایسے ویرانے کی تلاش ہے‘ جہاں میں اپنے رب کو حاصل کر سکوں‘ مجھے کسی کی بھی ضرورت نہیں فاطمہ خدا کے واسطے پلیزپلیز مجھے تنہا چھوڑ دو ‘ پلیز۔‘‘ عدنان نے اس کے آگے ہاتھ جوڑ دیئے‘ اور زور زور سے روتے ہوئے کہنے لگا‘ فاطمہ حیران و پریشان اسے دیکھنے لگی۔
’’کیا ہو گیا ہے تمہیں عدنان! طبیعت تو ٹھیک ہے ناں تمہاری؟‘‘ وہ الجھ گئی تھی

’’جائو یہاں سے تم‘ کچھ نہیں ہوا مجھے‘ مجھے تم سے کچھ بھی نہیں لینا‘ جائو تم مجھے اکیلا چھوڑ دو‘ خدا کے واسطے مجھے بخش دو‘ جائو یہاں سے جائو۔‘‘ عدنان نے اونچی آواز میں کہا۔
فاطمہ کے رخساروں پہ آنسو ٹپک ٹپک کے گرنے لگے۔ وہ تیز تیز قدموں سے گھر کے اندرونی حصے کی طرف چلی گئی‘ اور وہ اپنے اس طیش میں آنے پہ حیران و پریشان ہونے لگا۔
صبح چبھتی ہے میری آنکھوں میں
اندھیرا ہم سفر سا لگتا ہے
اتنے مانوس تنہائی سے ہو گئے ہیں
اب اپنے عکس سے بھی مجھ کو ڈر لگتا ہے
اندھیرا عدنان کے چاروں جانب پھیلنے لگا۔
…٭٭٭…

’’نجانے اس کو کیا ہو گیا ہے عادل! اس نے مجھے بہت بری طرح سے ڈانٹا ہے‘ اور عجیب الجھی‘ بہکی باتیں کر رہا ہے‘ چلا رہا ہے‘ چیخ رہا ہے‘ اس نے اتنے سالوں میں کبھی مجھ سے ایسی بات نہیں کی‘ نجانے اسے کیا ہو گیا ہے؟‘‘ روتے ہوئے وہ عادل کو فون پہ بتا رہی تھی۔
’’دماغ خراب ہو گیا ہے اس کا‘ ابھی آکے ٹھیک کرتا ہوں اسے‘ سمجھتا کیا ہے خود کو‘ نواب ہے‘ معصوم بچوںاور بے قصور بیوی کے ساتھ زیادتی کرتا ہے‘ بڑا آیا رب کو ڈھونڈنے والا‘ حقوق العباد تو پورے کرے اس کے بعد حقوق اللہ کی طرف بڑھے‘ میں ابھی آ کے اس کی ولایت نکالتا ہوں۔‘‘ عادل‘ فاطمہ کی روتی ہوئی آواز سن کر مشتعل سا ہو گیا تھا۔ حقیقت تھی کہ وہ فاطمہ اور بچوں کی آنکھوں کی نمی بالکل بھی برداشت نہ کر پاتا تھا۔ نجانے کیسا یہ رشتہ تھا‘ جو اسے دنیا کے ہر رشتے سے زیادہ قریب تر محسوس ہوتا تھا۔
’’نہیں عادل اس وقت تم مت آئو‘ اس وقت وہ غصے میں ہے‘ تمہیں بھی اول فول کہہ دے گا۔ مجھے اچھا نہیں لگے گا‘ اگر اس کے اور تمہارے بیچ کوئی فاصلہ حائل ہو‘ بس نجانے اسے کیا ہو گیا ہے؟‘‘ فاطمہ نے اپنے آنسوئوں کو صاف کیا۔
’’کیا حل ہے اس کے پاگل پن کا؟‘‘ عادل نے بھی تحمل سے پوچھا۔
’’اگر تم کہو تو اسے کسی نفسیاتی ڈاکٹر کو دکھائیں۔ شاید اس طرح کی حرکتیں کرنا بند کر دے۔‘‘ وہ بولی۔
’’میرا تو خیال ہے اسے کسی اور نفسیاتی ڈاکٹر کی نہیں‘ صرف میری ضرورت ہے۔ مجھے اچھی طرح پتہ ہے اس کا علاج‘ فاطمہ‘ برا نہ مانو لیکن قصور تمہارا بھی ہے‘ تم نے بھی اسے ضرورت سے زیادہ سر چڑھا رکھا ہے۔ گدھوں کی طرح اس کی خدمت اور جی حضوری میں لگی رہتی ہو‘ ہر بات چاہے صحیح ہو یا غلط تم مان جاتی ہو‘ اس لئے تو وہ اِتراتا ہے۔ ذرا ٹائٹ رکھو تو شاید اس کی عقل ٹھکانے آئے۔‘‘ عادل نے اب ناراضگی اس پہ اتارنی شروع کی۔
’’عادل !چپ ہو جائو‘ میں پہلے ہی اتنا روئی ہوں‘ اب اگر تم نے کچھ اور کہا تو خدا قسم گھر کی چھت سے چھلانگ لگا دوں گی‘ اور الزام آئے گا تم پر اور تمہارے اس دوست پر۔‘‘ وہ روہانسے پن سے بولی۔
’’اچھا بابا میں کچھ نہیں کہتا‘ اب تم آرام سے سو جائو‘ اور اس پاگل جنگلی سے ذرا بھی بات نہ کرنا‘ سمجھتا کیا ہے خود کو ہم سارے غلام ہیں اس کے؟ اب تم اور میں مل کر اس سے مکمل طور پہ بائیکاٹ کریں گے پھر دیکھنا کیسے عقل ٹھکانے آتی ہے اس گدھے کی۔ اب تم سو جائو‘ آرام سے‘ ذینی اور حرا کو میرا بہت سارا پیار کرنا۔‘‘ عادل نے ہمیشہ کی طرح فاطمہ کو سنبھالنے کی کوشش کی۔
’’عادل! تم نہ ہوتے تو میں کتنی تنہا ہوتی۔‘‘ فاطمہ  بوجھل دل سے مسکرائی۔
’’جی نہیں تم بالکل بھی تنہا نہیں ہوتیں‘ میں نہیں ہوتا تو کوئی اور ہوتا‘ کوئی اور نہیں ہوتا تو کوئی اور ہوتا‘ اللہ تعالیٰ کبھی کسی کو تنہا نہیں چھوڑتا۔‘‘ عادل نے بہت اپنائیت سے کہا۔ اس نے مسکرا کے فون بند کر دیا۔ وہ ظالم رات گئے کمرے میں آیا تھا‘ لیکن فاطمہ نے اس سے بات نہ کی۔ دوسری طرف چہرہ کیے خاموش لیٹی رہی‘ اور نجانے کب اس طرح اسے نیند نے آ گھیرا۔
…٭٭٭…

صبح دیر سے فاطمہ کی آنکھ کھلی۔ اٹھی تو دیکھا کہ عدنان دفتر کے لئے جا چکا تھا۔ وہ اٹھی اور ڈائننگ روم میں آئی‘ ٹیبل کے اوپر خالی گلاس رکھا تھا‘ جس پہ دودھ کے نشان تھے‘ یعنی عدنان نے فریج سے دودھ نکال کے ناشتے کے طور پر پیا ہے۔ فاطمہ دوبارہ کمرے کی طرف آئی۔ عدنان کے بیڈ کی سائیڈ ٹیبل پہ فاطمہ اور بچوں کی تصویر کے ہمراہ کچھ کاغذات رکھے تھے‘ وہ ان کی طرف بڑھی۔ کاغذ کی شفاف سطح پر عدنان کی تحریر لکھی تھی۔
 
’’اپنے رویے کی معافی مانگتا ہوں‘ ساتھ رکھے Insurance کے کاغذات کو پڑھ کے ان پہ دستخط کر دینا۔‘‘
فاطمہ نے دیگر کاغذات پہ نظر ڈالی۔ وہ حادثاتی موت اور بچوں کی تعلیم کی انشورنس کے کاغذات تھے‘ جس میں لکھا تھا کہ ’’اگر میری کوئی حادثاتی موت واقع ہو جاتی ہے تو میری بیوی اور بچوں کو انشورنس کی رقم ملے گی۔‘‘ اور اس تحریر کے نیچے عدنان کے دستخط تھے‘ دوسری طرف فاطمہ کے دستخط کی جگہ تھی‘ کیونکہ یہ پالیسی فاطمہ ہی کے نام تھی۔ فاطمہ نے اپنے ہونٹ دانتوں میں داب لئے۔
’’نجانے کیا ہو گیا ہے عدنان کو؟ میں کس طرح سمجھائوں اور کس طرح انہیں روکوں؟‘‘ تاسف سے سر ہلاتے ہوئے خود کلامی کرنے لگی۔ تبھی اچانک اس کے موبائل پہ بیل ہونے لگی۔
وہ کاغذات رکھ کے موبائل کی طرف بڑھی‘ اور فون لیس کیا‘ دوسری طرف عادل تھا۔
’’کیسی ہو فاطمہ؟ اور تمہارے مجازی خدا کا کیا حال ہے؟‘‘
’’میں ٹھیک ہوں‘ اور وہ بھی ٹھیک ہی ہوں گے‘ میں سو رہی تھی کہ دفتر کے لئے نکل گئے۔‘‘ وہ بولی۔
’’اچھا تو پھر آج دفتر آ رہی ہو ناں تم شانزے سے ملنے کے لئے؟‘‘ عادل نے مطلب کی بات کی۔
’’آج؟ نہیں عادل آج تو نہیں آ سکتی‘ آج میرا موڈ ٹھیک نہیں ہے۔ عجیب افسردگی سی طاری ہے۔ آج میں اس سے کھل کے بات نہیں کر پائوں گی۔‘‘ اس نے انکار کیا۔
’’مجھے کچھ پتہ نہیں فاطمہ! تم نے آج وعدہ کیا تھا کہ تم آئو گی اور تمہیں ہر صورت میں آنا ہے۔ دوپہر کو میں عدنان کے دفتر چلا جائوں گا‘ اور تم آ جانا شانزے سے ملنے کے لئے‘ اس کو بتانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ سرپرائز کے طور پہ آنا۔‘‘ عادل نے اس کی بات سنی ان سنی کر دی۔
’’لیکن عادل!‘‘
’’لیکن ویکن کچھ نہیں‘ دوست کے لئے اتنا بھی نہیں کر سکتیں؟ میں آج تمہارا مسئلہ حل کرتا ہوں‘ اور تم میرا کر دو۔‘‘ عادل نے گویا حرفِ آخر کہہ کے فون بند کر دیا‘ اور وہ عادل پہ بھی جھنجھلا گئی۔
’’نہ وقت دیکھتا ہے‘ اور نہ موقع‘ ہمیشہ اپنی منواتا ہے‘ اسے صرف اپنی پڑی ہوتی ہے دوسروں کا خیال ہی نہیں ہوتا۔‘‘ وہ عدنان کا غصہ عادل پہ نکالنے لگی۔
…٭٭٭…
جب بادل ٹوٹ کے برسا تھا
ہم دونوں اس میں بھیگے تھے
وہ برسات بھی اس کو یاد نہیں
وہ ساحل دریا‘ پھول ہوا
وہ وعدہ ساتھ نبھانے کا
وہ شب بھر چاند کو دیکھا تھا
وہ رات بھی اس کو یاد نہیں
وہ کہتا تھا میں سنتا تھا
میں کہتا تھا ‘ وہ سنتا تھا
ان لاکھوں باتوں میں کوئی
اک بات بھی اس کو یاد نہیں

’’تمہیں کس کا انتظار ہے عادل؟‘‘ پچھلے پانچ منٹ میں عادل کوئی دس بار اپنی گھڑی اور دروازے کی طرف دیکھ چکا تھا۔
’’نہیں تو مجھے کس کا انتظار ہو گا؟‘‘ وہ مسکرا دیا۔ شانزے کے لئے اس کا یہ جواب کچھ زیادہ قابلِ اطمینان نہیں تھا۔
’’تو پھر بار بار دروازے کی طرف کیوں دیکھ رہے ہو؟‘‘ اس نے ایک اور سوال کیا۔
’’وہ… وہ لنچ ٹائم ہونے والا ہے ناں۔‘‘ عادل نے بات بدلی۔
’’تو؟‘‘
’’تو یہ کہ مجھے آج عدنان کے ساتھ لنچ لینا ہے‘ اس نے انوائٹ کیا ہے مجھے۔‘‘ عادل نے کہا۔
’’اوہ! تو تم ان کے گھر جا رہے ہو۔‘‘ ہمیشہ کی طرح عدنان اور فاطمہ کا تصور شانزے کے لئے کچھ خاص اچھا نہ تھا۔
’’نہیں اس کے دفتر جا رہا ہوں۔ ضروری کام ہے اس سے‘ دو گھنٹے تک واپس آ جائوں گا۔‘‘ عادل کی اس بات کے جواب میں شانزے کچھ نہ بولی‘ بلکہ بدستور فائل پہ جھکی رہی۔
’’مرضی ہے تمہاری‘ جب چاہے آ جائو‘ میں نے کب کہا کہ جلدی آئو۔‘‘ شانزے نے شانِ بے نیازی سے کہا۔ عادل خاموشی سے اٹھ گیا‘ شانزے سے کوئی بحث نہیں کرنا چاہتا تھا۔
ابھی عادل گیا ہی تھا کہ پیچھے سے فاطمہ آ گئی۔ فاطمہ کو دیکھ کے شانزے کے دل میں چھپے بدتر خدشات پھر زندہ ہو پڑے۔
’’کیسی ہو شانزے؟‘‘ فاطمہ نے مسکرا کے پرُجوش انداز میں کہا۔
’’میں ٹھیک ہوں‘ لیکن عادل تو یہاں نہیں ہے‘ شاید وہ آپ کا انتظار کرتے کرتے ابھی گیا ہے۔ کہہ رہا تھا آپ کے ہزبینڈ کے ساتھ لنچ لینا ہے۔‘‘ شانزے نے ذومعنی انداز میں کہا۔
’’مجھے پتہ ہے وہ یہاں نہیں ہے‘ اور پھر میں تو تم سے ملنے آئی ہوں اس سے تھوڑی‘ آخر کو میرا تم سے الگ بھی تو ایک Relation ہے ناں؟‘‘ فاطمہ نے کہا۔
’’Are you sure کہ آپ مجھ ہی سے ملنے آئی ہیں؟ میرا مطلب اگر عادل سے ملنا ہے تو میں اسے سیل پہ فون کر کے بلا لیتی ہوں۔‘‘ شانزے پر فاطمہ کے نرم لہجے کا مطلق اثر نہیں ہوا۔
’’کوئی ضرورت نہیں اسے بلانے کی‘ مجھے پہلے سے پتہ تھا کہ وہ عدنان کے ساتھ لنچ لینے والا ہے‘ اور اسی لئے اس کی غیر موجودگی میں‘ میں تم سے بات کرنے آئی ہوں‘ ایک بہت خاص بات۔‘‘ فاطمہ نے مسکرا کے کہا۔
’’کیا آپ کو عادل نے بھیجا ہے؟‘‘ شانزے نے پوچھا۔
’’کسی بہتر جگہ چل کے بیٹھیں؟ مجھے بہت بھوک لگ رہی ہے‘ کیفے ٹھیک رہے گا۔‘‘ فاطمہ نے کہا۔
’’نہیں کیفے نہیں‘ رش ہو گا بہت اس وقت‘ کہیں باہر چل کے لنچ کرتے ہیں۔‘‘ شانزے نے کہا‘ اور پھر وہ دونوں ایک قریبی ریسٹورنٹ کی جانب جانے کے لئے اٹھ گئیں۔
…٭٭٭…

اطالوی ریستوران کے پرُفسوں ماحول میں وہ دونوں آمنے سامنے تھیں۔
’’اگر میں یہ کہوں کہ مجھے عادل نے ہی تم سے بات کرنے کو کہا ہے‘ تو تم ناراض تو نہیں ہو گی؟‘‘ کھانا کھاتے فاطمہ نے کہا۔
’’آپ سے تو نہیں البتہ عادل سے ضرور ناراض ہوں گی‘ ایسی کیا بات ہے جو عادل مجھ سے خود نہیں کر سکتا‘ اور آپ کے ذریعے کروا رہا ہے۔‘‘ شانزے نے صاف لفظوں میں کہا۔
’’تم نے تو ابتداء میں ہی مجھے ڈرا دیا‘ اب میں اور کیا کہوں؟‘‘ فاطمہ نے مسکرا کے کہا۔
’’دیکھیں میں ایک Straight  forward لڑکی ہوں ‘ گھما پھرا کے بات کرنے کی مجھے عادت نہیں۔ آپ بولیں عادل نے کون سا پیغام مجھے دینے کے لئے آپ کو بھیجا ہے؟‘‘ شانزے سلاد کی پلیٹ میں کانٹا پھیرتے ہوئے بولی۔
’’شادی کرنا چاہتا ہے وہ تم سے‘ شادی کے بعد وہ Abroad سیٹل ہونا چاہتا ہے۔‘‘ فاطمہ نے کہا۔
’’لیکن اس متعلق ہماری بات ہو چکی ہے‘ میں اسے اپنا نقطہ نظر سمجھا چکی ہوں۔‘‘ وہ بولی۔
’’دیکھو شانزے اسے تمہاری ضرورت ہے‘ وہ گھر بنانا چاہتا ہے۔‘‘ فاطمہ نے اسے سمجھایا۔
’’تو بن جائے گا گھر بھی پہلے اپنا Career تو بنا لیں‘ کچھ پیسے تو بنا لیں۔‘‘ شانزے نے کہا۔
’’اور کتنا انتظار کروانا چاہ رہی ہو اسے تم؟ وہ تم سے بہت محبت کرتا ہے‘ اور وہ بہت Sincere لڑکا ہے‘ میں اسے سالوں سے جانتی ہوں۔‘‘ فاطمہ نے کہا۔
’’مجھے اس کی Sincerity پہ کوئی شک نہیں‘ لیکن شادی ایک کمٹ منٹ ہے‘ اور مجھے خود کو اس کمٹ منٹ کے لئے ذہنی طور پہ تیار کرنا پڑے گا‘ مجھے خود کو سمجھانا پڑے گا۔‘‘ شانزے الجھ رہی تھی۔
’’لیکن کیا سمجھانا پڑے گا شانزے؟ عادل تمہاری چوائس ہے‘ تمہاری محبت اور شادی محبت ہی کی تکمیل ہوتی ہے‘ محبت کی منزل ہوتی ہے۔‘‘
’’اگرسفر طے کیے بغیر ہی منزل مل جائے تو اس کی قدر اور ضرورت ختم ہو جاتی ہے‘ میں عادل اور اپنے رشتے کو مزید کچھ وقت دینا چاہتی ہوں کم از کم پانچ سال۔‘‘ شانزے نے حتمی طور پر کہا۔ فاطمہ خاموش ہو گئی۔
 
’’کم از کم منگنی تو کر سکتی ہو؟ کچھ اس کی خواہش کا ہی مان رکھ لو۔‘‘ فاطمہ کی اس بات پہ شانزے نے ایک طویل چپ سادھ لی‘ ان کی یہ ملاقات بنا کسی حتمی نتیجے کے ختم ہوئی۔
…٭٭٭…

’’تم ڈائریکٹ مجھ سے بھی تو کہہ سکتے تھے؟ فاطمہ کو بیچ میں انوالو کرنے کی کیا ضرورت پیش آئی؟‘‘ اگلے دن لنچ ٹائم کے دوران وہ اس پہ برس پڑی۔
عادل چونکہ اس کی اس طرح کی باتوں کو پہلے ہی متوقع سمجھ رہا تھا لہٰذا خاموش رہا۔
’’جب فیصلہ تمہاری اور میری زندگی کا ہے‘ تو کسی تیسرے کی درمیان میں آخر حیثیت ہی کیا ہے؟ کیا ہمارے بیچ اتنی بھی Understanding نہیں ہے عادل کہ ہم کھل کے بات کر سکیں؟‘‘ وہ مزید بولی‘ عادل بدستور خاموش اسے سن رہا تھا۔
’’شادی کرنی ہے‘ گھر بسانا ہے‘ جاب کرنی ہے‘ نہیں کرنی‘ بزنس Astablish کرنا ہے‘ نہیں کرنا‘ باہر سیٹل ہونا ہے کہ نہیں‘ یہ سب ہمارا دردسر ہے‘ اس میں فاطمہ کا کیا رول ہے آخر؟ پلیز عادل دوستوں کو دوست ہی کی حد تک محدود رکھا کرو‘ حد پار کر جائیں تو وہ دوست نہیں کہلاتے‘ اور پھر تم مجھ سے کوئی ارینج میرج نہیں کر رہے کہ تمہیں پر پوزل بھیجنے کی یا بہن بھابی کے تھرو مجھ سے بات کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘ عادل کی خاموشی شانزے کو اور زچ کر رہی تھی۔
’’اب اس طرح منہ بنانے‘ گونگے بنے کیوں بیٹھے ہو؟ کچھ بولتے کیوں نہیں؟‘‘ وہ غصہ ہوئی۔
’’پریکٹس کر رہا ہوں‘ شادی کے بعد بھی تو مجھے سننا اور تمہیں بولنا ہے‘ یوں بھی تم جو مرضی کہہ لو‘ جتنا غصہ کرو‘ جتنا بھی خفا ہو‘ میں اپنے مؤقف پہ اسی طرح قائم ہوں کہ مجھے تم سے شادی کرنی ہے‘ شادی نہیں تو نکاح‘ نکاح نہیں تو پھر منگنی‘ لیکن مجھے اس طرح بنا کسی رشتے کے نہیں رہنا۔‘‘ وہ بولا۔
’’میں اس وقت کچھ بھی نہیں چاہتی عادل‘ میں اپنے اور تمہارے اس رشتے سے بہت خوش ہوں۔‘‘ وہ اپنی جگہ پہ قائم تھی۔
’’سوچ لو‘ پھر میں ہاتھ نہیں آئوں گا۔‘‘ وہ بولا۔
’’اگر مجھ سے محبت کرو گے تو پچاس سال تک بھی انتظار کرو گے۔‘‘ وہ بہت یقین سے بولی۔
’’زندگی نے اگر ساتھ نہ دیا تو؟‘‘ وہ اس کی آنکھوں میں جھانک کے بولا۔
’’میرے اوپر اس طرح کی دلیلیں کام نہیں کرتیں۔‘‘ وہ بولی۔
’’وقت و حالات بدل گئے تو؟‘‘
’’میں اپنے حالات کو خود بدلنے کی سکت رکھتی ہوں‘ میں کم ہمت اور کمزور عورت نہیں ہوں۔‘‘ وہ غرور کے سائے تلے تھی۔
وہ خاموش ہو گیا‘ لیکن دل ہی دل میں سوچنے لگا۔
’’اگر تمہاری جگہ فاطمہ ہوتی یا پھر تمہارے ساتھ فاطمہ کے جیسی دوستی ہوتی‘ تو لڑ جھگڑ کے ہی صحیح لیکن میں تم سے اپنی بات منواتا ا ور تم کچھ نہ کر پاتیں‘ کیونکہ تمہیں میری ناراضگی کا احساس ہوتا‘ لیکن تم تو تم ہو شانزے حسن‘ ٹھوس‘ جامد‘ پتھر کی دیوی‘ احساسات سے عاری‘ جذبات سے بے نیاز۔‘‘
…٭٭٭…

’’آج سر ذوالفقار پریکٹیکل کروائیں گے‘ اور میں یہ کسی صورت مس کرنا نہیں چاہتی۔‘‘ وہ حتمی طور پر فیصلہ کرتے ہوئے بولی۔
’’لیکن تمہیں پتہ ہے کہ یہ ایوننگ سیشن والوں کا پریکٹیکل ہے‘ دیر بھی ہو سکتی ہے‘ تمہیں گھر جانے میں مسئلہ تو نہیں ہو گا۔‘‘ ماریہ نے اسے یاد دلایا۔
’’میں گاڑی لیٹ بلوا لوں گی‘ کوئی فرق نہیں پڑتا‘ ممی کو پتہ ہے کہ ہم میڈیکل سٹوڈنٹس کی نہ تو کوئی روٹین ہوتی ہے‘ اور نہ کوئی وقت کی قید۔‘‘ ماہا نے اسے مطمئن کیا۔
’’ہاں اور یہی اصول ہمارے ڈاکٹر بن جانے کے بعد بھی اپلائی ہو گا‘ نہ دن‘ نہ رات‘ نہ صبح نہ شام‘ فقط ڈیوٹی اور کام‘ ٹھیک کہا ہے کسی نے کہ ایک ڈاکٹر پہلے ڈاکٹر ہوتا ہے‘ اور پھر ایک مرد‘ عورت‘ بھائی بہن یا ماں اور باپ اس کے پیشہ ورانہ فرائض سے زیادہ کچھ اس کے لئے اہم نہیں ہوتا۔‘‘ ماریہ نے سیڑھیوں کی ریلنگ سے ٹیک لگا کے کھڑے ہوتے ہوئے کہا۔
’’تو کیا ڈاکٹرز سے ان کے بچے‘ بیویاں‘ گھر والے اور شوہر مطمئن رہتے ہوں گے؟ ان کے ٹف آموز کو ان کی ہمہ وقت غیر موجودگی کو کیسے مینیج کرتے ہوں گے؟‘‘ ماہا نے کہا۔
’’میرا خیال ہے عادی ہو جاتے ہیں‘ ایڈجسٹ کر لیتے ہیں‘ آخر ایک ڈاکٹر کے ہاتھ میں ہزاروں لاکھوں کی صحت اور جان ہوتی ہے‘ مسیحائی تو عین ثواب ہے۔‘‘ ماریہ نے کہا۔
’’اسی لئے میرا پوائنٹ آف ویو یہ ہے کہ ایک ڈاکٹر کو شادی صرف اور صرف ڈاکٹر سے ہی کرنا چاہئے‘ اگر ایک دوسرے کا پروفیشن نہیں سمجھیں گے تو پھر گزارہ مشکل ہو جائے گا۔ اللہ میاں کو کچھ اس طرح کی جوڑیاں بنانی چاہیں کے شاعر کے ساتھ شاعر ہو‘ استاد کے ساتھ استانی اور ڈاکٹر کے ساتھ ایک ڈاکٹر۔‘‘ ماہا کے ذہن میں فقط ذوالفقار کا تصور تھا۔
’’ہمارے لئے تو بھئی‘ وہ ایک عدد کزن ہی بہت ہے‘ جس کے ساتھ دس سال پہلے منگنی ہوئی تھی ‘ اور جس کے چار عدد میڈیکل سٹورز ہیں۔‘‘ ماریہ نے سرد آہ بھر کے کہا۔
’’ہاں ڈاکٹر صاحبہ! اپنے ہاسپٹل کے باہر بھی ایک میڈیکل سٹور پہ بٹھا دینا اسے۔‘‘ ماہا نے اس کا مذاق اڑایا۔
’’کیا کریں جناب! والدین کا فیصلہ تھا‘ گو کہ اگر دس سال پہلے مجھے ذرا سا بھی اندازہ ہوتا کہ میں ڈاکٹر بنوں گی‘ تو کبھی منگنی کے لئے راضی نہ ہوتی‘ اب ایسا عالم ہے کہ نہ ہاں کر سکتی ہوں اور نہ‘نہ کر سکتی ہوں۔‘‘ ماریہ نے بے بسی سے کہا۔
’’محبت نہ ہو تو ایسا ہی ہوتا ہے۔‘‘ ماہا نے فوراً کہا۔
’’تجھے تو محبت ہے ناں سر ذلفی سے؟ پھر توُ کیوں اتنی پاگل پاگل پھرتی ہے۔ دیکھ لے تیرے چیلنج کے فقط دو دن اور رہ گئے ہیں۔ ایک دن یوں ہی ضائع چلا گیا‘ کچھ نہیں کیا تو ہار جائو گی۔‘‘ ماریہ نے اسے چھیڑا۔
’’ہارنے والوں میں سے تو میں بھی نہیں ہوں ماریہ‘ بس کسی بہتر موقع کی تلاش میں ہوں۔‘‘ ماہا نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔ اسے فقط آج شام کا انتظار تھا۔
…٭٭٭…

کئی چاند دھند میں کھو گئے
کئی جاگ جاگ کے سو گئے
مگر اک ستارہ مہرباں
جو گواہ تھا
کسی وصل رنگ سی رات کا
کسی بے کنار سے لطف کا
کسی مشکبار سی رات کا
مرے ساتھ تھا
میرے ساتھ تھا
ساحر مسلسل دو گھنٹے سے ریسٹورنٹ کے اندر اس کا منتظر تھا‘ لیکن وہ آئی ہی نہیں۔ اس دوران اس نے کئی بار اس کے موبائل فون پہ بھی ٹرائی کیا‘ لیکن وہ موبائل بند کر کے پریکٹیکل کرنے کی غرض سے لیبارٹری میں موجود تھی۔ موسم ابر آلود تھا‘ بلکہ ہلکی ہلکی بوندیں پڑنا بھی شروع ہوگئی تھیں۔
’’لگتا ہے بارش میں کہیں پھنس گئی ہے۔‘‘ ساحر نے خود کلامی کی۔
چینی ریسٹورنٹ کی شیشے کی بنی کھڑکی کے منظر پہ غور کرنے لگا‘ بارش کی بوندیں متواتر جگمگاتی سڑک پہ پڑ رہی تھیں۔ گاڑیوں کی سرح اور سنہری جگمگاتی روشنیاں بارش کے باعث اور حسین لگ رہی تھیں‘ اور بارش کی بوندیں ان روشنیوں کے باعث چمکتی‘ جھلکتی اور جگمگاتی محسوس ہو رہی تھیں۔ بارش ہر گزرتے لمحے کے بعد اپنی رفتار بڑھاتی جا رہی تھی‘ ریسٹورنٹ کا شیشہ اور داخلی دروازہ چونکہ شیڈ کے نیچے تھا‘ لہٰذا وہ بارش سے محفوظ تھا۔
’’لگتا ہے آج ماہا نہیںآئے گی‘ پتہ نہیں یہ بارش کی سازش ہے‘ یا پھر میری قسمت کی ستم ظریفی؟‘‘ ساحر نے خود کلامی کی۔
’’زندگی میں پہلی بار کوئی لڑکی پسند آئی ہے‘ اور اسے زندگی بنانے کا ارادہ کیا ہے‘ اور زندگی موقع ہی نہیں دے رہی اسے اپنا بنانے کا۔‘‘ ساحر نے کوٹ کی جیب میں ہاتھ ڈالا اور انگوٹھی کی وہ چھوٹی سی ڈبیا نکالی‘ جو اس نے ایک جیولر سے آتے ہوئے خریدی تھی‘ سونے کے باریک سے جالی نما فریم میں جڑی ننھے سے چمکدار ذرقون والی یہ انگوٹھی ساحر کی محبت کا اظہار تھی‘ جسے وہ ماہا کے سپرد کرنا چاہتا تھا۔ اس نے اس انگوٹھی کو کھول کے ٹیبل پہ سامنے رکھ دیا‘ جہاں سفید ننھے سے گلدان میں سرخ گلاب کا ایک پھول سجا ہوا تھا۔
جگمگاتی انگوٹھی کا ہیرا‘ سرخ گلاب اور بارش کی بوندیں ایک تواتر سے ایک ہی دھن پہ رقص کناں ہو گئیں۔ ایک ہی دل کی صورت دھڑکنے لگیں۔
’’نجانے تم ان مخروطی انگلیوں کی منزل کو پا سکو کہ نہیں کہ جن کی خواہش میں تمہیں تشکیل دیا گیا ہے‘ گو کہ تم خود بھی بہت حسین ہو‘ لیکن ان انگلیوں کے حسن کا شاید تمہیں اندازہ بھی نہ ہو‘ اور اندازہ ہو گا بھی کیسے؟ تم نے تو ان کی نرماہٹ کہ ان کے حسن کو ابھی تک نہ محسوس کیا ہے‘ اور نہ چھوا ہے‘ ہاں اگر تم خوش قسمتی سے ان نگلیوں کی زینت بن گئیں‘ تو شاید جان پائو کہ ان کے لمس میں کیا کشش ہے‘ اس کے سراپے میں اس کی خوشبو میں کیسا سرور ہے‘ اس کے پاس ہونے میں کیسا ہلکا ہلکا نشہ ہے۔ اس کااحساس‘ اس کا تخیل‘ اس کا نام کتنا دلفریب ہے‘ اسی نے مجھے محبت کرنا سکھایا ہے‘ اسی نے ہاں اسی نے تو ورنہ میں ساحر گردیزی کس کام کا تھا؟ مجھے محبت پہ نہ تو اعتبار تھا‘ اور نہ اس کی گہرائی کا‘ میری دنیا تو محبت سے خالی دنیا تھی‘ محبت سے انکاری دنیا تھی‘ مجھے تو اسی نے دیوانہ کیا ہے‘ مجھے تو اسی نے محبت کرنا سکھایا ہے‘ مجھے تو اسی نے یہ راہیں دکھائی ہیں‘ مجھے تو اس نے یہ نئی بولی‘ اس نئی زبان کا ادراک دیا ہے‘ کیا تم ان انگلیوں کی ان مقدس پارسا‘ مخروطی‘ دلنشین انگلیوں کی زینت بننا پسند کرو گی؟‘‘ ساحر دل ہی دل میں بہت دیر تلک انگوٹھی سے ہم کلام ہوتا رہا۔ اس طرح نجانے کتنے پل بیت گئے۔
’’ایکسکیوزمی سر!‘‘ دنیا میں تب پلٹا کہ جب باوردی ویٹر نے اسے آواز دی۔
’’یس یس۔‘‘
’’سر! ریسٹورنٹ بند کرنے کا ٹائم ہو گیا ہے۔‘‘ ویٹر نے اسے کہا۔ اس نے کلائی پہ بندھی گھڑی دیکھی‘ رات کے دو بج رہے تھے‘ ریسٹورنٹ خالی ہو چکا تھا‘ سڑک پہ چلنے والا ٹریفک بھی ختم ہو چکا تھا‘ وہ خاموشی سے اٹھا‘ انگوٹھی کوٹ کی جیب میں ڈالی اور ریسٹورنٹ سے باہر آ گیا۔ پارکنگ میں کھڑی اپنی گاڑی میں بیٹھ گیا۔ بارش متواتر برس رہی تھی۔ اس نے گاڑی کا سی ڈی پلیئر آن کیا‘
انگوٹھی ڈیش بورڈ پہ رکھی
یہ جو ہلکا ہلکا سرور ہے
یہ تیری نظر کا قصور ہے
کہ شراب پینا سکھا دیا

ایک نغمہ فضا میں گونجنے لگا۔
’’وہ نہیں آئی‘ وہ نہیں آئی‘ وہ نہیںآئی۔‘‘ انگوٹھی اس کا مذاق اڑا رہی تھی‘ اور پھر رات بھر بارش سے بھیگی سڑکوں پر ایک دیوانہ پاگلوں کی طرح تنہا بھٹکتا رہا۔
…٭٭٭…

ماہا کے لئے یہ سب ایک خواب ہی کے مترادف تھا کہ وہ ڈاکٹر ذلفی کے گھر میں تھی‘ اور پوری رات اس نے وہیں بسر کی تھی‘ بارش ہونے اور پریکٹیکل میں لیٹ ہونے کے باعث اس نے ڈاکٹر ذلفی سے لفٹ مانگی تھی۔ ماریہ تو اپنے گھر کے سگنل پہ اتر گئی‘ لیکن ماہا کے گھر کی طرف جانے والا راستہ بلاک تھا۔ ٹریفک جام تھا۔ لہٰذا اسے ڈاکٹر ذلفی اپنے گھر لے آئے۔ ممی کو فون کر کے اس نے بتا دیا تھا کہ اسے مجبوراً اپنے پروفیسر کے گھر رکنا پڑے گا۔
اور اس طرح وہ اس گھر میں تھی۔ رات اس نے گیسٹ روم میں بسر کی تھی۔ بارش میں بھیگنے اور ٹھنڈ ہونے کے باعث اسے سردی لگ رہی تھی‘ اور بخار کے ساتھ فلو کا حملہ ہوا تھا‘ وہ بری طرح سے چھینک رہی تھی‘ ناک سرخ تھی اور آنکھوں اور ناک سے مسلسل پانی بہہ رہا تھا۔ رات بھر وہ بخار میں پھنکتی رہی تھی۔ اس وقت وہ جاگی اور کھڑکی کے قریب آکے پردہ کھول دیا‘ دیوار پہ لگی گھڑی صبح کے نو بجا رہی تھی‘ کھڑکی کھلتے ہی دھوپ شیشے کو چیر کے پورے کمرے میں بکھر گئی۔ کھڑکی کی پرلی طرف ایک وسیع و عریض اور سرسبز لان تھا‘ جس کے چاروں طرف خوبصورت پیڑ اور پودے تھے۔ باغ کے ایک کونے پر چھوٹے بڑے مختلف جسامت کے پتھر ایک عجیب سی بے ترتیبی سے رکھے تھے‘ لیکن ان کی بے ترتیبی ہی ان کی ترتیب اور خوبصورتی کا باعث تھی۔ وہ ابھی لان کے منظر سے لطف اندوز ہو رہی تھی کہ کمرے کے دروازے پر دستک ہوئی اور فرخندہ بی چائے کی ٹرالی اور لوازمات سمیت اندر آ گئی۔
’’آپ کے لئے چائے لائی ہوں بی بی جی۔‘‘ وہ بولیں۔
’’مجھے چائے کی سخت طلب ہو رہی تھی‘ اگر میں اپنے گھر میں ہوتی تو شاید پورا گھر سر پہ اٹھا لیتی‘ چلا چلا کے‘ آخر کو بخار اور نزلہ کوئی عام اور معمولی بیماری تو نہیں عجیب شعلہ بار اور جان لیوا قسم کی چیز ہے۔‘‘ ماہا نے کہا اور سامنے رکھی کرسیوں پہ بیٹھ گئی۔
’’لگتا ہے آپ بھی گھر میں لاڈلی ہیں‘ جو لاڈلے ہوتے ہیں‘ وہی اس طرح کے نازک طبع ہوتے ہیں اور بات بات پہ اسی طرح روتے ہیں۔‘‘ فرخندہ نے چائے کا کپ بنا کے اس کی طرف بڑھایا۔
’’لاڈلی بھی ہوں اور اکیلی بھی‘ مما پاپا کی اکلوتی اولاد ہوں۔‘‘ ماہا نے گویا فخر سے بتایا۔
’’ہمارے ارسلان بابا کی طرح وہ بھی ہمارے لاڈلے اور اکلوتے ہیں‘ ان کی آنکھ کا ہلکا سا آنسو ہم سے برداشت نہیں ہوتا۔ آج اگر فائزہ بی بی زندہ ہوتیں تو ارسل بابا کو ہاتھ کے چھالے کی طرح


رکھتیں۔‘‘ فرخندہ بی کے لہجے میں پھر افسردگی آ گئی۔ وہ دن میں سو مرتبہ فائزہ بی بی کے نام کی مالا جپا کرتی تھی۔
’’بہت مس کرتا ہو گا ناں وہ اپنی مما کو؟‘‘ فائزہ نے پوچھا۔
’’پتہ نہیں‘ مجھ سے تو کچھ نہیں کہتا۔‘‘
’’اور ڈاکٹر ذوالفقار سے؟ وہ بھی تو اسے بہت پیار کرتے ہوں گے۔‘‘ ماہا نے کریدا۔
’’کرتے تو ہیں‘ بہت پیار کرتے ہیں صاحب اس سے‘ لیکن کبھی اظہار نہیں کرتے‘ فائزہ بی بی کے بعد تو پتھر کے پتلے بن گئے ہیں‘ جذبات سے عاری بیٹے تک کے لئے بھی اظہار کے محبت کے لفظ نہیں۔‘‘ فرخندہ بی کی باتیں بتا رہی تھیں کہ ارسلان اور اس کے والد کے بیچ کچھ ڈسٹربنس ہے‘ یعنی یہ خوف بھی ماہا کو دل سے نکال لینا چاہئے کہ ارسلان اس کی راہ کی رکاوٹ بن سکتا ہے۔
’’ڈاکٹر ذوالفقار کہاں ہیں؟ کیا وہ ناشتہ نہیں کرتے؟‘‘ ماہا نے پوچھا۔
’’بھئی یہاں ہیں ڈاکٹر ذوالفقار اور وہ بالکل ناشتہ کرتے ہیں‘ بلکہ پورے دن میں صرف ایک ناشتہ ہی تو کرتے ہیں۔‘‘ ڈاکٹر ذوالفقار اپنی خوبصورت اور دیدہ زیب شخصیت کے ہمراہ آن موجود تھے۔ فان کلر کی شرٹ اور برائون پینٹ‘ بروٹ پرفیوم کی مہک نے ان کے پورے وجود کو گھیرے میں لیا ہوا تھا۔
’’گڈ مارننگ سر!‘‘ وہ ادب میں اٹھ کھڑی ہوئی۔
’’گڈ مارننگ ماہا‘ لیکن آپ میرے گھر پہ ہو‘ کلاس روم میں نہیں‘ ایزی ہو کے ناشتہ کرو۔‘‘ ڈاکٹر ذلفی نے کہا۔
’’مجھے اکیلے ناشتہ کرنے کی عادت نہیں ہے‘ آپ پلیز مجھے جوائن کریں۔‘‘ اس نے پیشکش کی۔
’’فرخندہ بی ایسا کریں میرا ناشتہ بھی یہیں لے آئیں‘ میں آج سٹوڈنٹ کے ساتھ ناشتہ کروں گا۔‘‘ ڈاکٹر ذوالفقار نے بھرپور انداز میں کہا۔ فرخندہ بی نے حیرت سے ذوالفقار کی طرف دیکھا۔ انہوں نے ماہا کے ہمراہ ناشتہ کیا‘ پھر ماہا کو فلو اور بخار کی دوائی دی‘ آرام کرنے کا کہا اور خود یونیورسٹی کے لئے نکل گئے۔
…٭٭٭…

کیسا گھر تھا یہ؟ اپنے اندر اس قدر مقناطیست سموئے ہوئے وہ صبح سے دیوانوں کی طرح اس گھر میں پھر رہی تھی۔ ایک ایک چیز کا معائنہ کر رہی تھی‘ کچن‘ گیسٹ روم‘ لائونج‘ ڈرائنگ روم‘ دالان‘ پائیں باغ‘ وہ تقریباً پہلی منزل کے ہر کمرے کا دورہ کر چکی تھی۔
یوں لگتا تھا گویا یہ گھر نہیں‘ کوئی ساکت و جامد تصویر ہو‘ سرد خانے میں رکھی کسی لاش‘ کسی تصویر کی طرح منجمد ہاتھ لگائو تو میلی ہوتی‘ انگلی سے چھونے سے لرزنے لگی‘ کس طرح سے سجا تھا یہ گھر؟ جیسے کہ صدیوں سے اسی طرح ہو‘ کسی نے چھوا نہ ہو‘ کسی نے ہاتھ نہ لگایا ہو۔
’’فرخندہ بی‘ کتنا خوبصورت ہے ناں یہ گھر‘ کس نے اس کا انٹریئر کیا ہے‘ یوں لگتا ہے جیسے کہ یہ گھر نہیں کوئی تصویر ہو‘ اتنا اجلا اور اتنا سفید۔‘‘ کچن میں مٹر چھیلتی فرخندہ بی کے پاس ماہا آئی‘ فرخندہ بی مسکرا دی۔
’’فائزہ بی بی نے سجایا تھا یہ گھر‘ ہوم اکنامکس میں انہوں نے پڑھا تھا‘ بہت شوق تھا ان کو گھر سجانے کا‘ چیزیں بنانے اور لانے کا ‘ ارسلان بابا جب ڈیڑھ سال کے ہوئے تو یہ گھر نیا نیا بنا تھا‘ اور بی بی نے دل و جان لگا کے اس گھر کو سجایا۔ اب صاحب نہیں چاہتے کہ اس گھر میں کوئی تبدیلی آئے‘ وہ اس گھر کو ایسا کا ایسا ہی رکھنا چاہتے ہیں۔‘‘ فرخندہ نے کہا۔
’’میں اوپری منزل میں جا سکتی ہوں فرخندہ بی۔‘‘
’’ہاں ہاں بیٹا ضرور جائو۔‘‘ فرخندہ بی نے مسکرا کر کہا‘ پھر وہ لائونج کی گولائی والی ماربل کی سیڑھیاں چڑھتی اوپر کی منزل پہ آ گئی۔ اوپر کی منزل کا پہلا تاثر سناٹا اور ویرانہ تھا‘ گلاب چنبیلی کی مہک ماحول میں رچی بسی تھی۔ دن کی روشنی ہونے کے باوجود بھی دبیز سبز پردوں کے باعث اندھیرا تھا۔ ایک نادیدہ خوف کی لہر اس کے دل میں جاگی‘ جیسے کہ کسی پرانے قبرستان میں آ گئی ہو‘ وہ چلتی چلتی سبز پردے کی جانب آئی اور کونے میں لٹکی ڈوری پکڑ کے کھینچی تو گویا اوپر کی منزل روشن ہو گئی۔ فروسٹڈ گلاس کی پینٹ شدہ کھڑکی سے دن کی دھوپ چھن کے اندر آئی۔
اوپر کی منزل پہ کمرے تھے‘ کمروں کے باہر پرانے طرز کا پنگھوڑا رسی کی مدد سے لٹکا ہوا تھا‘ جس پر گلابی اور سبز گائو تکیے رکھے تھے۔ اس کے پاس ہی میز پر پیتل کے اعلیٰ طرز کے کشادہ تھال میں گلاب کی سوکھی پتیاں اور گلدان میں ٹیوب روز کی بوسیدہ ٹہنیاں پڑی تھیں‘ اور اس گلدان کے اوپر قد آدم تصویر لگی تھی‘ سر سے پائوں تک لی گئی سرخ رنگ کی ساڑھی والی دوشیزہ کی پورٹریٹ‘ بالوں میں سجا گجرہ‘ شانوں پہ بکھرا ہوا‘ سڈول سراپا‘ ہوشربا حسن عمر بائیس سے چوبیس سال کے درمیان۔ وہ یقینا فائزہ کی تصویر تھی‘ ماہا لمحوں کے سویں حصے میں پہچان گئی۔ ایک لمحے کو ماہا کو اس حسن کی دیوی سے جلن ہوئی‘ اور
 
اگلے ہی پل اس پہ رشک بھی آیا‘ وہ دیر تک محویت سے اس تصویر کو دیکھتی رہی
نجانے حسن‘ تازگی‘ ماورائی زندگی کی محتاج کیوں ہوتے ہیں؟ ہر چیز گویا زندگی کی بدولت ہو‘ زندگی ختم ہوئی تو قیمتی سے قیمتی چیز لٹ جاتی ہے‘ خوبصورت سے خوبصورت چیز فنا کے گھاٹ اتر جاتی ہے‘ جاندار سے جاندار چیز بے جان ہو جاتی ہے؟ وہ تصویر سے دھیان ہٹا کے دونوں کمروں میں ایک سے ایک کمرے میں آئی‘ وہ کمرہ لاکڈ تھا۔ اس نے بہت کھولنے کی کوشش کی‘ لیکن بیکار‘ پھر وہ دوسرے کمرے کی طرف آئی۔ یہ کمرہ شاید ڈاکٹر ذوالفقار کا کمرہ تھا‘ لیکن یہ کمرہ کتنا خالی‘ اداس اورویران تھا‘ تنہا اور تہی داماں تھا‘ بوجھل اور خالی تھا‘ مایوس اور بے بس تھا۔
سفید رنگ کی دیواریں‘ سفید رنگ کے پردے‘ سفید رنگ کے ماربل کا فرش پرانی برائون لکڑی کا بیڈ‘ پرانا بوسیدہ سا سٹڈی ٹیبل‘ جا بجا بکھرے اخبار‘ رسالے‘ کتابیں عجیب بے ترتیبی اور بے ڈھنگی‘ عجیب بے چینی اور اکتاہٹ۔
دیوار پہ لگی اسی دوشیزہ کی ایک اور تصویر ڈاکٹر ذوالفقار کے ساتھ گود میں نومولود بچہ‘ دوشیزہ اور ذوالفقار کی مسکراتے‘ خوش مطمئن اور بھرپور چہرے‘ آنکھوں میں بے انتہا خواب ہونٹوں پہ محبت کی چاشنی‘ اک چمک‘ اک انبساط۔
اس تصویر کے سوا پورے کمرے میں کہیں کوئی خوبصورتی نہ تھی۔ پورا کا پورا کمرہ بدصورتی‘ اداسی اور بے ترتیبی کا مظہر تھا۔ یہ کمرہ اس پورے اعلیٰ ذوق تزئین و آرائش کا ہرگز بھی حصہ نہ لگتا تھا‘ یوں لگتا تھا کہ جیسے اس کمرے کو کوئی آسیب لگ گیا ہو‘ کوئی چھلاوا اس پہ آ گیا ہو‘ یہ کوئی جیتا جاگتا پررونق کمرہ نہیں‘ بلکہ کوئی کھنڈر تھا‘ پارسیوں کا ٹاور آف سائلنس جس کے اوپر گدھ اور دوسرے جانور منڈلاتے ہیں۔ اس کمرے میں لٹکنے والے پردے سفید جالی دار پردے کسی روح کی آمد کی پیش گوئی کرتے ہوں‘ پگھلی ہوئی شمعوں کا موم شمع دان پہ عجیب عجیب شکلیں بنا رہا تھا۔
ماہا کو لمحوں میں اس کمرے سے خوف آنے لگا‘ نہیں یہ ڈاکٹر ذوالفقار کا کمرہ نہیں ہو سکتا۔ اتنے اچھے رنگوں کے ملبوس پہننے والا شخص اس کھنڈر میں نہیں رہ سکتا‘ نہیں نہیں کمرہ ہر انسان کی ذات کا عکس ہوتا ہے‘ رنگ‘ فرنیچر‘ سجاوٹی اشیائ‘ تصاویر‘ کمرہ انسان کا اندر ہوتا ہے‘ باطن ہوتا ہے‘ جہاں وہ آ کے پرسکون رہتا ہے‘ جہاں وہ خوش و مطمئن ہوتا ہے۔
کونے میں رکھی خالی ’’جانی واکر‘‘ کی بوتلیں اور اخباروں کے ڈھیر کے اوپر رکھے کرسٹل کے ایش ٹرے میں مسلے‘ جلے‘ ٹوٹے ختم کیے ہوئے سگریٹ کے بے پناہ ٹکڑے۔
’’کیا ذلفی ڈرنک بھی کرتے ہیں؟‘‘ اس نے خود سے سوال کیا۔
’’انسان باہر سے کیسا ہوتا ہے؟ اور اندر سے کیسا؟ ظاہر و باطن میں اس قدر تضاد کیوں ہے؟‘‘ وہ خود سے الجھ رہی تھی‘ تبھی فرخندہ بی اس آسیب زدہ کمرے کے اندر آئیں۔
’’بیٹا تمہاری گاڑی تمہیں لینے آئی ہے۔‘‘ انہوں نے کہا اور پھر ماہا ڈاکٹر ذوالفقار کے اس آسیب زدہ گھر ’’فائز محل‘‘ سے واپس آ گئی۔
…٭٭٭…

’’ساحر گردیزی سے تم نے ڈنر کا وعدہ کیا تھا ماہا اور تم گئی نہیں۔‘‘گھر آتے ہی راحلہ بیگم کی آنکھوں کا اسے سامنا کرنا پڑا تھا‘ ماں کی بات سن کے اسے ساحر سے کیا ڈنر کا وعدہ یاد آیا تھا‘ اور اس کی زبان دانتوں تلے آ گئی۔
’’ہاں مما وعدہ تو کیا تھا لیکن…‘‘
’’اگر وعدہ کرنا آتا ہے تو اسے نبھانا بھی سیکھ لیا کرو۔‘‘ راحلہ نے خاصے روڈ انداز میں کہا۔
’’ممی آپ کو پتہ ہے کہ یونیورسٹی ہی میں تھی کہ میں بارش میں پھنس گئی تھی‘ اور پھر مجھے ماریہ کے گھر ٹھہرنا پڑا۔ میں کیسے جاتی ڈنر پہ۔‘‘ وہ صفائی پیش کرنے لگی۔
’’بہت دیر تک ساحر وہاں پہ تمہارا انتظار کرتا رہا‘ آج صبح اس نے مجھے فون کر کے پوچھا کہ تم کیوں نہیں آئی۔ اس کے ڈیڈی نے مجھے بتایا کہ رات بھر بارش میں بھیگنے کے باعث اسے شدید فلو اور بخار ہو گیا ہے۔‘‘ راحلہ نے کہا۔
’’فلو اور بخار تو مجھے بھی ہے ممی اس میں پریشانی کی کیا بات ہے؟‘‘ وہ جھنجھلائی۔
’’بری بات ہے بیٹا یا تو کسی سے آنے کا وعدہ نہیں کرتے‘ یا پھر آ ہی جاتے ہیں‘ اب اگر تم وہاں نہ پہنچ سکی تو چلو اٹھو‘ گھر پہ اس کی عیادت کر آئو‘ اچھا سا پھولوں کا گلدستہ بنوا کے لے آئو‘ چلو اٹھو تم راحلہ حسن کی بیٹی ہو۔‘‘
’’مما پلیز زبردستی تو نہ کریں‘ آپ کو پتہ ہے میں جھوٹے وعدے نہیں کرتی‘ اگر مجھے پتہ ہوتا آسمان برسنے کے پلان کا تو میں ہرگز یونیورسٹی نہیں جاتی‘ لیکن کم از کم اللہ تعالیٰ مجھ سے مشورہ کر کے بارش نہیں برساتے۔‘‘ ماہا نے مسکرا کے کہا۔
’’Come on maha بحث مت کرو‘ کپڑے چینج کرو‘ شکل درست کرو‘ میں گاڑی نکلواتی ہوں‘ تم باسط انکل کے گھر ہو آئو۔‘‘ راحلہ نے زبردستی اسے اٹھا کے کمرے کی طرف دھکیلا۔ وہ بے دلی سے تیار ہونے چلی گئی۔
’’اس لڑکی کو پتہ ہی نہیں اس کے لئے کیا ٹھیک ہے کیا نہیں؟ یا تو بہت معصوم ہے یا پھر بہت بے وقوف۔‘‘ راحلہ اسے دیکھ کے بڑبڑانے لگیں۔
اور پھر وہ گلاب اور ٹیوب روز کے پھولوں کے ایک بڑے گلدستے اور گیٹ ویل کے کارڈ کے ہمراہ باسط گردیزی کے گھر دن کے بارہ بجے تک پہنچ گئی تھی۔ ڈرائیور نے اسے وہاں ڈراپ کر دیا تھا‘ اور ساحر نے جیسے ہی اسے دیکھا‘ وہ پہلی نظر اسے گویا کسی دوسری دنیا میں لے گئی۔ نجانے اس پری چہرے میں ایسا کیا تھا کہ آنکھوں کی دہلیز پہ کروڑوں خواب آکے بکھر جاتے تھے۔
آنکھوں میں جو خواب ہیں ان کو باتیں کرنے دو
ہونٹوں سے وہ لفظ کہو جو کاجل کہتا ہے
موسم جو سندیسہ لایا اس کو پڑھ تو لو
سن تو لو اور راز جو پیاسا ساحل کہتا ہے
آتی جاتی لہروں سے کیا پوچھ رہی ہے ریت
بادل کی دہلیز پہ تارے کیونکہ بیٹھے ہیں
جھرنوں نے اس گیت کا مکھڑا کیسے یاد کیا
جن کے ہر اک بول میں ہم تم باتیں کرتے ہیں
راہ گزر کا موسم کا ناں بارش کا محتاج
وہ دریا جو ہر اک دل کے اندر رہتا ہے
کھا جاتا ہے ہر اک شعلہ وقت کا آتش دان
بس اک نقش ’’محبت‘‘ ہے جو باقی رہتا ہے
آنکھوں میں جو خواب ہیں ان کو باتیں کرنے دو
ہونٹوں سے وہ لفظ کہو جو کاجل کہتا ہے

وہ عجیب دیوانگی اور بے یقینی سے اسے دیکھ رہا تھا‘ جو فیروزی اورنیلے ہمرنگ دوپٹے میں اک بڑا سا گلدستہ اٹھائے اس کے کمرے کے دروازے میں کھڑی تھی۔
’’اندر آ سکتی ہوں۔‘‘ اس نے اجازت طلب کر کے اسے یاد دلایا۔
’’اس طرح اجازت کے لئے شرمندہ تو نہ کریں۔‘‘ وہ بولا۔ ماہا اندر آ گئی اور اس کے سامنے آکے کھڑی ہوگئی۔
’’یہ پھول آپ کے لئے‘ سنا ہے آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں‘ عیادت کرنے آئی ہوں آپ کی۔‘‘ اس نے بھرپور مسکراہٹ کے ساتھ جملہ ادا کیا۔
’’شکر ہے اس بیماری کا کہ جس کے باعث ہمیں آپ سے ملاقات کا موقع مل گیا‘ ورنہ ہم تو طویل رات‘ برستی بارش کے ساتھ انتظار ہی کرتے رہے۔‘‘ ساحر نے پھول وصول کر کے گلا کیا۔
’’معذرت کروں؟ کان پکڑوں یا پھر معافی نامہ لکھوں‘ یہ آپ ہی بتائیں۔ حقیقت میں میری غلطی تھی آپ کو انفارم نہ کرنا‘ لیکن میں یونیورسٹی میں پھنس گئی تھی‘ اور بارش کی وجہ سے آ نہ سکی۔ میرا زکام اور گلا آپ کو بتا ہی رہا ہو گا میرا عالم۔‘‘ اس نے کہا۔ بھاری آواز اور سرخ ناک اس کی طبیعت کی خرابی کے گواہ تھے۔
’’ویسے انتظار اک عجب اور بیقرار سی کشش لئے آتا ہے۔انتظار‘ کبھی طویل‘ کبھی کربناک‘ تو کبھی کٹھور لگنے لگتی ہے ان لمحوں کی زندگی‘ اگر آپ اس دن آ جاتیں تو مجھے اس کیف کا پتہ آخر کس طرح چلتا۔‘‘ ساحر نے شاعرانہ انداز میں کہا۔
’’مطلب اچھا ہی ہوا کہ میں نہیں آئی۔‘‘ وہ بولی۔
’’نہیں میرے مطلب کا غلط رخ نہ موڑیں۔‘‘ وہ بولا۔


 
’’چلیں میں ایک وعدہ کر سکتی ہوں کہ میں آپ کے بلانے پر ہمیشہ اسی طرح نہیں آئوں گی‘ اور آپ اسی طرح انتظار کا کیف چکھتے رہئے گا۔‘‘ اس کی مسکراہٹ طنزیہ تھی۔
’’کیا یہ ظلم نہیں ہو گا؟‘‘
’’یہ آپ کی اپنی خواہش کا پھل ہو گا۔‘‘
’’خواہشیں تو لاتعداد ہیں‘ اور وہ بھی ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے۔‘‘ وہ آج بہت شاعرانہ طرز پہ بہے جا رہا تھا۔
’’میں چلوں بہت دیر ہو رہی ہے۔ صبح یونیورسٹی جانا ہے۔‘‘ اس نے بہتر سمجھا کہ رخصت ہونا چاہئے۔
’’بہت دیر ہی سے تو آئی نہیں‘ اتنی جلدی کیوں جا رہی ہیں۔‘‘ وہ اسے پکڑ کے تا عمر اپنے سامنے بٹھا دینا چاہتا تھا۔
’’اب اس سوال کا کیا جواب دوں؟‘‘ وہ پزل ہوئی۔
’’پھر بلائوں تو آئیں گی؟‘‘ ایک اورسوال۔
’’پلیز ایسے سوال نہ کریں ساحر میں پزل ہو رہی ہوں۔‘‘ اس نے مسکرا کے اعتراف کیا ‘اور رخصت ہونے لگی۔
’’سنیں۔‘‘ اس نے اسے روکنا چاہا۔
’’جی کہیں۔‘‘
’’کچھ نہیں گھر آئوں گا پھر بتائوں گا‘ آپ کی اپنی چھت تلے۔‘‘ اس نے ذومعنی انداز میں کہا۔ وہ مسکرا کے چلی گئی۔
’’تمہاری چھت تلے تمہیں چرا کے لے جائوں گا‘ اور تم انکار بھی نہ کر پائو گی۔‘‘ وہ مسکرا دیا اور پھولوں کو اٹھا کے بغور دیکھنے لگا‘ محبت زندگی میں ترنگ بھر رہی تھی۔
…٭٭٭…

’’آج حرا کی سالگرہ ہے عدنان! کیا بڑی بات ہو گی اگر آج چھٹی کر لیں گے تو۔‘‘ الماری کے سامنے کھڑے عدنان سے فاطمہ نے کہا تھا۔ وہ اپنے لئے شلوار قمیض نکال رہا تھا۔
’’آج جمعہ ہے‘ ہاف ڈے ہے‘ میں نماز جمعہ ادا کر کے جلدی گھر آ جائوں گا‘ اور یوں بھی تم نے ساری تیاری تو مکمل کر ہی لی ہو گی۔‘‘ عدنان نے اس کی طرف بنا دیکھے کہا۔
’’کہاں ساری تیار کی ہے عدنان‘ کیک آرڈر کیا تھا‘ وہ پک کرنا ہے‘ اذین کے لئے ڈریس لینا ہے‘ حرا کے لئے ہم دونوں کی طرف سے گفٹ ہونا چاہئے‘ وہ لینا ہے‘ بہت سے کام ایسے ہیں‘ جو میں اکیلے نہیں کر سکتی۔‘‘ وہ بولی۔
’’تو عادل کو بلا لو‘ وہ تو یوں بھی جمعے کو فارغ ہوتا ہے۔‘‘ سفید رنگ کے واش اینڈ ویئر کا سوٹ اس نے منتخب کیا۔
’’عادل اور آپ میں فرق ہے عدنان‘ حرا کے آپ والد ہیں اور ایک خاص دن تو آپ اس کیلئے موجود ہو سکتے ہیں ناں؟‘‘ فاطمہ نے غصے سے کہا۔
’’تو آ جائوں گا ناں دو بجے کے بعد‘ نماز جمعہ سے فارغ ہو کے۔‘‘ وہ فاطمہ کو سمجھانے لگا۔ وہ منہ بسور کے کھڑکی کی طرف چہرہ کر کے بیٹھ گئی‘ اور کافی دیر بیٹھی رہی۔ اس دوران وہ تیار ہوا‘ کپڑے وغیرہ بدلے‘ کنگھی کی‘ اپنی چیزیں سمیٹ کے اس کے پاس آیا۔
’’جا رہا ہوں میں‘ آج مجھے رخصت نہیں کرو گی؟‘‘ وہ مسکرا کے بولا۔ فاطمہ کا چہرہ بدستور دوسری طرف تھا۔
’’سرکار جانے والوں کو محبت سے رخصت کرتے ہیں‘ اس طرح ان کے سفر آسانی سے کٹ جایا کرتے ہیں۔‘‘ وہ بولا۔ فاطمہ پھر بھی خاموش رہی۔
…٭٭٭…

’’یہ دیکھو آج میں وہی گھڑی پہن کے جا رہا ہوں‘ جو تم نے میری سالگرہ پہ مجھے گفٹ کی تھی‘دیکھو ایک مولانا سٹیزن کی مہنگی واچ پہنے کیسا لگ رہا ہے؟‘‘عدنان سے اس کی ناراضگی بالکل بھی سہی نہ جاتی تھی۔
’’یار اب ختم کرو ناراضگی اور جانے دو مجھے‘کہا ناں آجائوں گا‘ اور پھر ہم بہت انجوائے کریںگے شام کو‘عادل اور اس کی بگ باس کو بھی انوائٹ کر لینا‘ اور بچوں کے فرینڈز کو بھی‘ اور حرا کے لئے گفٹ ہم ایک نہیں بہت سارے لے لیں گے‘اسے بار بی ڈالز پسند ہیں ناں؟ہم بہت ساری ڈالز اسے لے دیں گے‘ اور وہ بڑا والا باربی ہائوس بھی‘ٹھیک ہے ناں؟چلو اب تو دیکھو میری طرف۔’’زبردستی عدنان نے اس کی ٹھوڑی اپنی انگلی سے سامنے رکھی۔ وہ ذرا بھی نہ مسکرائی۔
’’اپنا خیال رکھنا چاند اور میری پھول سے بچوں کا بھی‘جارہاہوں میں ‘الواداع۔‘‘اور اس طرح عدنان نے مسکرا کے اس کے ہاتھ پہ بوسہ ثبت کیا‘ اور اس کی طرف دیکھتا ہوا کمرے سے چلا گیا‘ اور وہ چاہ کر
 
بھی اسے روک نہ پائی۔
…٭٭٭…

’’ہاسپٹل پہنچایا گیا ہے‘آپ پلیز یہاں آجائیں۔‘‘اس سفاک اطلاع کے بعد قیامت کا شور سماعتوں سے کٹ گیا‘ اور ٹیلی فون رکھ دیا گیا‘لیکن فاطمہ کی سانسیں منجمد ہو گئی تھیں ‘بدن اور سوچ‘ذہن ودل گویا سن ہو کر رہ گئے‘ اور آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئی تھیں۔
’’خود کش حملہ…نماز جمعہ…عدنان…!‘‘
فقط اس کی سماعتوں میں گردش کر رہے تھے۔
اس کا جسم مکمل طور پہ سن ہو گیا تھا‘لیکن…لیکن اس نے خود کو ہارنے نہیں دینا تھا‘وہ بوجھل دل اور لڑ کھڑاتے وجود کے بل پہ اٹھی‘ اور اٹھ کے باہر کی طرف جانے لگی‘اسے عادل کا خیال آیا‘وہ مڑی‘کریڈل سے ریسیور اٹھایا نمبر یاد آیا‘آنسو ٹپ ٹپ بہت بے اختیاری میں آنکھوں سے بہنے لگے‘کلیجہ پھٹ رہا تھا‘اس نے بہت کوشش کی کہ نمبر یاد آجائے ‘پھر اس نے موبائل فون اٹھایا‘اس میں پہلا نمبر ہی عادل کا تھا۔ نجانے کس طرح سے‘ کن لفظوں میں ٹوٹے لہجے میں اس نے عادل کو یہ خبر سنائی‘ اور پھر چکراتے سر کرُلاتی آنکھوں‘ اور لڑکھڑاتے پائوں کے ساتھ وہ آگے بڑھنے لگی‘اس نے ماسی کو بچوں کا خیال رکھنے کی تاکیدکی‘ گھر کے باہر سے اس نے رکشہ لیا‘ اور پھر اس نے صدیوں کا سفر طے کیا‘اپنے محبوب شوہر کے لئے۔
میرے بے خبر‘میرے بے نشاں
میں تھا کس نگر توُ رہا کہاں
یہ جو فاصلوں کی صلیب ہے
یہ گڑی ہوئی ہے کہاں کہاں
کہ زمان مکاں کی یہ وسعتیں
تجھے دیکھنے کو ترس گئیں
مرے چار سوہے غبار جاں‘وہ فشار جاں
کہ خبر نہیں میرے ہاتھ کو میرے ہاتھ کی
مرے خواب سے ترے بام تک
تری رہگزر کا ذکر تو کیا
نہیں ضوفشاں ترا نام تک
ہیں دھواں دھواں میرے استخواں
میرے نقش گر‘میرے نقش جاں
اسی ریگ دشت فراق میں رہے منتظر ‘تیرے منتظر
 میرے خواب جن کے فشار میں
رہی میرے حال سے بے خبر‘تیری ربگذر
میری آرزو کہ ہے بے کراں‘میری زندگی کہ ہے مختصر
میرے بے خبر‘میرے بے نشاں
عباسی شہید ہاسپٹل اس وقت قیامت کے دن کی نشاندہی کر رہا تھا‘ کسی کو کسی کا ہوش نہ تھا‘ہر کوئی اپنی افراتفری میں دوڑ رہا تھا‘ہر کسی کو اپنوں کی پڑی تھی‘ایمبولینس بھر بھر کے زخمیوں کو لا رہی‘ منتقل کر رہی تھیں ‘اٹھائو‘رکھو‘پکڑو‘تھا‘مدد کروآہ وفغاں تھی‘ایسا شور اور ایسی چیخ وپکار کہ کسی کو کسی کی خبر نہ تھی‘کوئی کسی کے آنسوئوں پہ دھیان نہیں دے رہا تھا۔







No comments:

Post a Comment

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...