’’تمہارے فوٹوز دیکھنے کے لئے میں بیقرار ہوں ‘اپنے تمام رشتہ داروں اور دوستوں کو ای میل کروں گی‘ جل جائیں گے سارے لوگ‘میری ڈاکٹر بیٹی کو دیکھ کے۔‘‘راحلہ بیڈ کے پاس آئی۔ ’’کیا ہوا ماہا‘ڈریس تو چینج کر لو‘تھک گئی ہو کیا میری جان۔‘‘ راحلہ نے اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرا‘ماہا کی جانب سے کوئی جواب نہیں آیا‘راحلہ کو تشویش ہوئی۔ ’’ماہا…ماہا بیٹا اٹھو۔‘‘ راحلہ نے ماہا کو بازو سے پکڑ کے اپنی طرف کیا۔ ماہا کے منہ سے جھاگ بہہ کے بستر پہ پھیل گیا‘زہر کی بوتل اس کے ہاتھ میں تھی۔ ’’Oh my God‘‘ راحلہ کی آنکھیں حیرت سے پھٹ گئیں‘ اور پھر فوری طور پر انہوں نے راحلہ کو ہاسپٹل لے جانے کے لئے گاڑی نکلوائی۔ …٭٭٭… یہ آئی سی یو کے باہر کا منظر تھا‘ اس کی اکلوتی بیٹی شیشے کی دیوار کے اس پار زندگی اور موت کی لکیر کے درمیان جھول رہی تھی‘ اور وہ بے بسی کی انتہا پر تھی‘کچھ بھی کرنے سے قاصر تھی ‘تمام رات وہ اپنے پروردگار کے سامنے روتی اور گڑ گڑاتی رہی‘ٹھیک اسی طرح جس طرح ماہا کی پیدائش سے قبل اللہ کے حضور اولاد کے لئے گڑ گڑاتی تھیں ‘ کون سی ایسی درگاہ تھی‘ جہاں وہ ننگے پائوں چل کے نہ گئی ہو‘کون سا ایسا پیر فقیر تھا‘ جس سے دعا کی ا لتماس نہ کیا ہو؟اور کون سے ایسے فرض نفل اور سنتیں تھیں‘ جو راحلہ نے قضا کیے ہوں‘ اور ان تمام سجدوں کا پھل اس ماہا کی ولادت کی صورت میں ملاتھا۔ ماہا جو اس کی اکلوتی اولاد تھی اور آج فقط ایک عام سی ضد کے باعث اس کی اکلوتی اولاد اپنی جان لینے کی کوشش کر چکی تھی‘اس جان کی اہمیت ماہا کو بے شک نہ ہو‘ لیکن اس کی ماں کو ضرور تھی‘کیونکہ اس کی ماں نے رو رو کے گڑ گڑا کے یہ بھیک اپنے رب سے مانگی تھی‘ اور جس دن ماہا نے اپنی ماں کی کوکھ میں پہلی حرکت کی تھی‘ اسی دن راحلہ حقیقی طور پر زندہ ہوئی تھی۔ اور آج اسی بیٹی نے صرف اپنی خوشی ہی تو مانگی تھی‘ اور وہ بھی تم اسے دے نہ پائیں‘اس نے محبت ہی تو کی تھی‘کوئی اور غلط قدم تو نہیں اٹھایا تھا ناں‘کوئی اور نامناسب چیز تو سرزد نہیں ہوئی تھی ناں اس سے‘محبت کوئی جرم تو نہیں جس کی پاداش میں ماہا اپنی قیمتی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتی۔ تمام رات راحلہ خود کو کوستی رہی ‘تڑپتی رہی‘اولاد سے بڑی آزمائش سچ میں اور کوئی نہیں‘اس کا اندازہ آج صحیح طور پر راحلہ کو ہو گیا تھا۔ صبح صادق کا وقت تھا وہ بد ستور جائے نماز بچھائے اپنے رب کے حضور گڑ گڑا تی رہی کہ جب آئی سی یو سے ڈاکٹر باہر آیا تھا۔ ’’مسز حسن۔‘‘ ڈاکٹر کی آواز پہ گویا راحلہ ہوش میں آئی اور جائے نماز سے اٹھ کے ڈاکٹر کے پاس آئی۔ ’’ڈاکٹر صاحب میری بچی ٹھیک ہے ناں؟‘‘ ’’میں نے ماہا کا معدہ واش کیا ہے‘وہ خطرے سے باہر ہے‘ لیکن اسے بے حد شدید کیئر کی ضرورت ہے‘وہ ذہنی طور پر بہت صدمے کی کیفیت میں ہے‘بے ہوشی میں کسی ذلفی صاحب ک و پکار رہی ہے‘بہتر ہو گا کہ آپ ذلفی صاحب کو بلا لیں‘ اور ان کا بہت زیادہ خیال رکھیں‘اکثر مریض پہلی بار کے بعد دوبارہ پہلے سے زیادہ بھر پور کوشش کرتے ہیں مرنے کی اور ہر بار ناکامی پر ان کی جرأت اور بڑھ جاتی ہے۔’’ڈاکٹر یہ کہہ کے چلا گیا۔ راحلہ نے شیشے کی دیوار کے اس پار سے اپنی بے ہوش بیٹی کو دیکھا اور تہیہ کر لیا کہ اگر وہ ذوالفقار سے شادی کرنا چاہتی ہو تو اس کی ماں اس کی راہ میں حائل نہیں ہو گی‘وہ اپنی بیٹی کو ضرور اس کی محبت سے ملائے گی۔ …٭٭٭… مسیحا سوچ لے اب بھی نگاہِ ناز نے تیری‘مجھے پتھر بنا ڈالا بظاہر دیوتا ہوں میں مگر ہوں بے نوااب بھی تکلم میں نہیں رکھتا تصرف میںنہیں رکھتا ابھی تک نا مکمل ہوں میری تکمیل تم سے ہے مسیحا سوچ لے اب بھی میرا بے رنگ سا چہرہ میری بے نور سی آنکھیں تجھے آواز دیتی ہیں بڑھا دست سوال اپنا کہ اس پتھر کی رگ رگ میں رواں ہوں خون کی لہریں مسیحا سوچ لے اب بھی مجھے تیری ضرورت ہے صبح کے اس پہر روزانہ جب ذلفی ہاتھ میں چائے کا کپ اٹھائے بالکنی میں آتے تھے ‘تو ماضی کے موسم ہر روز ان کو ستاتے اور ویران کر جاتے تھے‘کافی کے مگ سے اٹھتا دھواںانہیں فائزہ کی محبت کی حلاوت کی یاد دلادیتا تھا اور آج بھی ایسا ہی ہوا تھا‘صبح کی ٹھنڈی دلفریب ہوا اور ہاتھ میں پکڑے چائے کے مگ سے اٹھتا دھواں آج بھی ماضی کے ایک دریچے کو کھول گیا تھا۔ فائزہ اس دن سبز رنگ کی شفون کی ساڑھی میں ملبوس تھی‘فائزہ ذوالفقار کے لئے کپ میں چائے ڈال رہی تھی اور اس کی شفون کی ساڑھی کا خوشبودار‘پلو ذلفی کے چہرے سے ٹکرارہا تھا اور پلو کی یہ چھیڑ چھاڑ ذلفی کو بہت پسند آرہی تھی‘ذلفی نے اپنی آنکھیںموندلی تھیں۔ ’’یہ لیجئے چائے اور اگر نیند آرہی ہے تو دوبارہ جا کے بستر پہ سو جائیں۔‘‘فائزہ نے چائے کا کپ اس کے سامنے رکھا۔ ’’ہم تو آپ کے ملبوس سے پھوٹتی خوشبو کے دیوانے ہو چکے ہیں ‘ اور ہم ایک شرط پہ بستر میں جانے کے لئے تیار ہوں گے کہ اگر آپ۔‘‘ ’’بس بس رہنے دیجئے۔‘‘فائزہ نے اس کی بات کاٹ دی‘جانتی تھی وہ اکثر شریر جملے بول جاتے ہیں۔ ’’جیسے جیسے عمر بڑھ رہی ہے آپ کی شرارت کچھ زیادہ ہی بڑھتی جا رہی ہے۔‘‘وہ شرما کے بولی۔ ’’اور جیسے جیسے آپ کی عمر بڑھ رہی ہے‘آپ پہلے سے زیادہ خوبصورت ہوتی جا رہی ہیں۔‘‘وہ مسکرا کے بولے۔ ’’ڈاکٹر ز ذوالفقار‘ہم آپ ہی کے تو دیوانے ہیں۔‘‘ وہ اسے اور چھیڑ نے کے موڈ میں تھے‘فائزہ کے چہرے پر بکھرتے شرم کے یہ عکس انہیں بہت بھلے لگتے تھے‘ اور وہ دیوانے سے ہونے لگتے تھے۔ وہ پل کہ جب وہ فائزہ کے ہمراہ دل کھول کے مسکرائے تھے‘آج انہیں رُلا جاتے تھے۔ ’’صاحب آپ سے کوئی خاتون ملنے کے لئے آئی ہیں۔‘‘ فرخندہ بی کی آواز نے ذلفی کے تخیل کے سارے شیشے کرچی کرچی کر دیئے۔ ’’ہاں۔‘‘انہوں نے واقعی ٹھیک نہیں سنا تھا۔ ’’کوئی خاتون آپ سے ملنے آئی ہیں صاحب ‘میں نے ان کو ڈرائنگ روم میں بٹھا دیا ہے۔‘‘ ’’اچھا میں آتا ہوں۔‘‘ وہ یہ بولے۔ ڈرائنگ روم میں راحلہ حسن ان کی منتظر تھی۔ …٭٭٭… زندگی کی دعائیں نہیں دیجیے ضد نہیں کیجیے، ڈوبنے دیجیے اپنی تشنہ لبی کا تقاضا تھا یہ پانیوں کے سفر پر چلیں جس گھڑی ساحلوں پہ کوئی بھی ہمارا نہ ہو اجنبی دیس کی ملکجی شام کے آسمانوں پہ کوئی ستارہ نہ ہو آخری دم تلکِ کشتی، عمر کو بادبانوں کا کوئی سہارا نہ ہو اب ہمارا تعاقب نہیں کیجیے ڈوبنے دیجیے! ماہا نے زندگی کی طرف آنے اور ڈوبنے کے بعد بچ جانے کی منزل پہ پائوں رکھا تھا۔ وہ زندگی سے بہت دور جاکر واپس پلٹ آئی تھی ، اس نے اپنی آنکھیں کھولیں اور کئی بار بند کرنے اور جھپکنے کے بعد اس اردگرد کے ماحول کو پہچاننے کی سعی کی، اس کی پتلیاں روشنی کی عادی نہیں تھیں اور روشنی کی دوچار زور دار شعاعوں نے اس کی آنکھوں کو دوبارہ اپنا عادی بنایا‘ اور وہ آنکھیں کھولے رکھنے کے قابل ہوگئی، مگر آنکھیں کھولنے کے بعد بھی اس کا ذہن مائوف و منتشر تھا، اسے سمجھ نہیں آرہا کہ وہ کون ہے؟ کہاں ہے؟ اور کیوں ہے؟ زندگی کی طرف اس کا لوٹ آنا دوبارہ پیدا ہو نے کے مترادف تھا کہ جب بچہ خود اپنے ہی وجود سے بیگانہ ہوتا ہے۔ ’’ماہا… ماہا بیٹا۔‘‘ راحلہ نے اس کے بستر کے پاس آکے اس کی پیشانی پہ ہاتھ رکھ کر اسے پکارا تھا، ماں کا چہرہ اسے جیسے گزشتہ زندگی کی یاد دلا گیا تھا، اسے یاد آگیا وہ ماہا حسن ہے، راحلہ علی حسن کی اکلوتی اولاد اور وہ یہاں پہ اس لئے ہے کیونکہ اس نے زندگی سے منہ موڑ لیا تھا ، ہاں اس نے زندگی کو ٹھکرانے کی اس سے جان چھڑانے کی کوشش کی تھی‘ لیکن کیوں؟ اسے ابھی تک یاد نہیں آرہا تھا، وہ اپنے بجھے اور سوئے ذہن پہ زور ڈالنے کی مکمل کوشش کر رہی تھی۔ ’’دیکھو ماہا، میرے ساتھ کون ہیں، ڈاکٹر ذوالفقارتمہارے سر۔‘‘ راحلہ نے اسے مزید متوجہ کیااور یکایک ماہا کے ذہن نے قبول کیا، ڈاکٹر ذلفی کے نام کا ہتھوڑا دو چار بار زور سے ماہا کے دماغ کی نسوں سے ٹکرایا اور اس کے مائوف ذہن میں ایک زور دار ارتعاش پیدا ہوا۔ اسے یاد آگیا اس ظالم کا نام، اس کا ظلم ، اس کی ناقدری اور اسے یاد آگیا کہ اس نے اپنی بیش بہا قیمتی زندگی اسی کے لئے ٹھکرائی تھی‘ اسی کے لئے ختم کرنے کی کوشش کی تھی، کچھ لمحوں بعد ڈاکٹر ذلفی کا چہرہ عین اس کی آنکھوں کے سامنے تھا، اپنے ازلی سحر اور کشش کے ہمراہ۔ مانا کہ تو یوسف سا حسیں ہے لیکن یہ میرا دل ہے کوئی مصر کا بازار نہیں
زندگیاں غلط فہمیوں کی نذرکر دیتے ہیں‘ اور ایک عمر گزار دینے کے بعد ہم خود سے کہتے ہیں کہ دراصل ہمیں اس شخص سے محبت تھی ہی نہیں اور تمہاری عمر کی محبت بھی ایسی ہی ہے، ہوا میں معلق کسی بلبلے کی مانند۔‘‘ ذلفی نے واضح طور پر کہا۔ ’’یہ فیصلہ آپ کو نہیں مجھے کرنا ہے سر! کہ میری محبت غلط فہمی ہے، یا کشش ہے آپ اسے کوئی بھی نام دے دیں میرے لئے یہ محبت ہی رہے گی۔‘‘ وہ حتمی طور پر کہتی بہت اطمینان سے بالکنی سے چلی آئی تھی، ڈاکٹر ذوالفقار کو سوچتا ہوا چھوڑ کر۔ …٭٭٭… فاطمہ کو عادل کے گھر سے بنا اطلاع کے آئے ایک ماہ ہوچکا تھا ا ور عادل کااسے تلاش کر کرکے برا حال تھا، نجانے ایسا کیا رشتہ تھا اس لڑکی کے ساتھ اور اس کے دونوں معصوم فرشتوں کے ساتھ کہ ان کے بغیر دنیا بے معنی سی لگتی تھی، آج بھی وہ تھکا ہارا گھرلوٹا تھا۔ ہاتھ میں ایک رجسٹری تھی‘ جو کسی نامعلوم جگہ سے آئی تھی، وہ بہت بوجھل قدموں سے سیڑھیاں چڑھتا اوپر آیا، لائونج کی بادامی رنگ کی دیوار پہ ایک تصویر لگی تھی، عدنان ، فاطمہ اور اس کے دونوں بچوں کی تصویر، جو کہ مسکراتے خوشنما دنوں کی ایک خوبصورت یاد تھی۔ عادل کی نظر بے اختیاری میں ہی اس خوبصورت تصویر پہ پڑگئی‘ اور اس کی آنکھوں میں نمی آگئی۔ ’’نجانے کس کی نظر لگ گئی اس معصوم خاندان کو؟ نجانے کیوں بکھر گیا یہ چھوٹا سا گھر؟‘‘ وہ گویا خود سے ہی سوال کر رہا تھا۔ اتنا خوبصورت گھریوں بکھر جانے کو تو نہ تھا، نجانے پروردگار کی بے نیاز ذات کیونکر ایسے فیصلے‘ ایسے سفاک فیصلے تحریر کرتی ہے، نجانے وہ ایسی ادھوری کہانیاں کیوں تحریر کرتا ہے کہ جو مٹتی ہیں اور نہ بھولتی ہیں، فقط اک طویل کرب اپنے پیچھے چھوڑ کے چلی جاتی ہیں نجانے ہاتھوں میں ایسی لکیریں وہ کیوں بناتا ہے جو فقط گڈ مڈ ہوجاتی ہیں‘ مٹ بھی نہیں پاتیں۔ ہاتھ میں پکڑے رجسٹرڈ خط کو عادل نے کھولا اور آنکھوں کی نمی صاف کی، ہاتھ میں ایک بینک ڈرافت تھا‘ اور ایک خط ، خط کی تحریر جانی پہچانی تھی، اس نے پڑھنا شروع کیا۔ ’’بہت اچھے عادل! مجھے نہیں پتہ کہ میں نے تمہیں کتنا بڑا دکھ دیا ہے‘ اس طرح بنا بتائے تمہارے گھر سے آکر اور تمہاری دسترس سے دور ہو کر۔‘‘ مجھے بس یہ پتہ ہے کہ میں نے جو بھی کچھ کیا، وہ ایک مصلحت کے تحت کیا‘ مجھے اپنے لئے اب کسی بھی شے کی طلب نہیں، میری زندگی کا محور و مقصد فقط حرا اور اذین ہیں، لیکن میں تمہیں بھی ہر گز ہرگز دکھی اور مضطرب نہیں دیکھ سکتی، میں جانتی ہوں تم مجھے اور میرے بچوں کو بے حد چاہتے ہو‘ اور یہ رشتہ میرے مرحوم شوہر کی وجہ سے زیادہ گہرا اور اٹوٹ ہے‘ جو کہ شاید کبھی ٹوٹ نہیں سکتا، لیکن دوسری طرف یہ بھی اک سچائی ہے کہ میں تمہاری زندگی میں رہ کر تمہارے لئے مسائل ہی پیدا کرتی اور کچھ نہیں۔ میں نہیں چاہتی کہ تم شانزے سے الگ ہو جائو، مجھے پتہ ہے تم اس سے بے پناہ محبت کرتے ہو‘ اور میں دیکھ رہی تھی کہ میں اس سے تمہیں دور کر رہی تھی، گو کہ نادانستہ تھا، لیکن تھا تو صحیح ناں؟ میں نے اور عدنان نے تمہیں ہمیشہ بستا ہوا دیکھنا چاہا تھا‘ اور آج بھی یہی خواہش ہے، پلیز تم شانزے سے شادی کر لو، یہ میری اور عدنان کی خواہش بھی تھی، اس کا مان رکھ لو۔ یہ بینک ڈرافٹ وعدے کے مطابق وہ رینٹ ہے‘ جو تمہارے گھر میں رہنے کا میں نے ادا کیا ہے، میں جہاں ہوں بحفاظت ہوں، مطمئن ہوں، بچے بھی پرسکون ہیں، مجھے تلاش مت کرنا عادل! اور ہو سکے تو مجھے معاف کر دینا۔ صرف فاطمہ عدنان عادل نے خط کے اختتام پر وہ بینک ڈرافٹ مروڑ توڑ کے دور پھینک دیا‘ اور پہلے سے کہیں زیادہ ڈسٹرب ہوگیا تھا۔ ’’نجانے کہاں چلی گئی ہے وہ ؟ دو معصوم سے بچوں کو لے کے کہاں سے ڈھونڈوں میں اب اسے پھوپھو؟ نجانے کہاں سے اتنی ضد اور انا بھر گئی ہے فاطمہ میں۔ ‘‘ وہ سامنے پڑے ٹیبل کو غصے میں لات مار کے بولا۔ ’’انااور ضد نہیں ہے بیٹا! اس کی سمجھداری اور خودداری ہے۔‘‘ پھوپھو نے بہت اطمینان سے کہا۔ ’’کیا خاک سمجھداری ہے پھوپھو؟ اور آپ بھی اس کی حمایت کریں کہ وہ مجھ سے دور رہے اور بچوں کو بھی مجھ سے دور رکھے، کیونکہ دراصل آپ وہ پہلی شخصیت تھیں‘ جس نے اسے مشورہ دیا تھا کہ یہاں سے چلی جائے۔‘‘ عادل نے اب اپنے حملے کا رخ پھوپھو کی جانب موڑ لیا۔ ’’میں نے تو صرف دنیا والوں کی بات کی تھی، کہ وہ نجانے کیاکچھ…‘‘ ’’لعنت بھیجتا ہوں میں دنیا والوں پر پھوپھو، بھاڑ میں جائے دنیا‘ اگر فاطمہ کو کچھ ہوگیا تو کیا کرے گی آپ کی دنیا؟ اگر اس کے بچے بے سہارا رہ گئے تو کس کو سنبھالے گی یہ دنیا؟ ‘‘ غصہ اس کے اندر سے ابل ابل کے باہر آرہا تھا، پھوپھو خاموش ہوگئیں۔ ’’شانزے کا تو ہے ہی الٹا دماغ، نفرت اور خود پسندی کی آگ میں جھلس رہی ہے وہ‘ لیکن کم از کم میں آپ سے یہ توقع نہیں رکھتا تھا پھوپھو، آپ تو … آپ تو میری اپنی ہیں ناں۔ ‘‘ عادل کا دل کر رہا تھا وہ سسکیاں لے لے کر روئے‘ وہ بے بسی کی انتہا پہ تھا۔ پھوپھو وہاں سے اٹھ کر چلی گئیں‘ اور کچھ دیر بعد پانی کے ٹھنڈے گلاس کے ہمراہ آئیں‘ اور پانی اس کی طرف بڑھایا، اس نے پانی کا گلاس لے کرپی لیا، اب واقعی وہ کافی حد تک ٹھنڈا ہوگیا تھا، پھوپھو اب اس کے سامنے والے کائوچ پہ بیٹھ گئیں۔ ’’اس طرح سے غصے میں بلبلاتے پھرنا، یوں دفتر سے چھٹی کر کے، سب کچھ چھوڑ چھاڑ کے بیٹھ جانا‘ اس سے کیا ہوگا عادل۔‘‘ وہ بولیں۔ ’’میرا دل نہیں کرتا پھوپھو! میرا بالکل دل نہیں کرتا کہیں جانے کو‘ کسی سے ملنے کو، کام کرنے کو، میں پاگل ہوجائوں گا اس طرح سے۔‘‘ وہ بولا۔ ’’ اب اگر ملے تو فاطمہ کو بتا دینا۔‘‘ پھوپھو نے نہایت اطمینان سے کہا۔ ’’کیا بتا دوں ؟‘‘ ’’یہی کہ تم اس سے بے حد محبت کرتے ہو‘ اور اس کے علاوہ کسی اور سے شادی نہیں کرو گے۔‘‘ بہت مطمئن لہجے میں پھوپھو نے بات کہی تھی‘ اور عادل کے سر پہ گویا اک ہتھوڑا پڑا تھا۔ ’’محبت۔‘‘ دما غ اس ایک لفظ پہ رک گیا تھا، پھوپھو نے آگے کچھ نہیں کہا‘ اور وہ اٹھ گئیں اور عادل اپنا دل تھامے بیٹھا رہا ‘دل سے ایک ہی آواز آرہی تھی۔ محبت محبت محبت، پہلی محبت… آخری محبت… شدید محبت… بے انتہا محبت… اندھی محبت… گونگی محبت… بہری محبت…گہری محبت… محبت محبت محبت ، دل پنڈولم کی طرح اس ایک لفظ کے ارد گرد جھول رہا تھا۔ …٭٭٭… ایک ڈیڑھ ہفتے کی چھٹی کے بعد وہ آج آفس آیا تھا، گو کہ وہ گزشتہ پوری رات سو نہیں سکا تھا، نیند نے اس کو اپنی پناہ میں چھپا لینے سے انکار کر دیا تھا، لیکن خود کو مصروف رکھنے کا سوائے اس کے کوئی حل نہیں تھا کہ وہ آفس آئے، اسے اب اپنے آپ سے بھاگنا تھا، اپنے دل سے چھپنا تھا‘ اور وہ اب اپنی آنکھیں بھی اپنے آپ سے ملانا نہیں چاہتا تھا۔ اپنے کیبن میں پہنچا تو وہاں کوئی اور بیٹھا تھا‘ اور دروازے پر اس کے نام کی جگہ کسی ’’رضوان انور‘‘ کے نام کی تختی لگی تھی، وہ حیرت زدہ رہ گیا‘ اور سیدھا شانزے کے دفتر کی طرف آیا، شانزے کے پی اے نے اسے دروازے پر ہی روک لیا۔ ’’ایکسکیوز می سر! آپ اندر نہیں جاسکتے۔‘‘ وہ بولی۔ ’’کیوں…؟ کیوں نہیں جاسکتا؟‘‘ ’’کیونکہ میم کسی ضروری میٹنگ میں بزی ہیں‘ اورانہوں نے کسی سے بھی ملنے سے انکار کر دیا ہے۔‘‘ پستہ قد سیکرٹری نے کہا۔ ’’کیا تمہیں علم نہیں ہے کہ میں کون ہوں؟‘‘ وہ حیرت زدہ ہی تو ہو گیا تھا۔ ’’جی علم ہے… لیکن۔‘‘ وہ عادل کے جارحانہ انداز پہ شرمندہ سی ہوگئی تھی، عادل نے اب اسے کچھ کہے بغیر ہی شانزے کے کیبن کا دروازہ کھولا اور اندر چلا گیا‘ اور یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ وہ ایک اور ایچ آر مینجر کے ساتھ قریب انتہائی قریب بیٹھی تھی‘ اور اس نے شانزے کا ہاتھ پکڑ رکھا تھا۔ عادل کے لئے یہ منظر بہت اذیتناک تھا‘ بہر طور یہ وہ لڑکی تھی‘ جس کے ساتھ اس نے زند گی گزارنے کا ارادہ کیا تھا‘ اور اسے اپنی عزت بنانے پہ خود کو آمادہ کیا تھا‘ اور آج اس کی عزت ۔ شانزے کو اسے دیکھ کے غصہ آیا‘ اور وہ اپنی جگہ سے اٹھی، گزشتہ ایک ماہ سے اس کا شانزے سے کوئی رابطہ نہیں ہوا تھا۔ ’’How dare you coming in my office بغیر اجازت کے تم اندر کیسے آئے؟‘‘ ’’کیونکہ میں آج تک تم سے اجازت لے کر اندر نہیں آیا۔‘‘ وہ بولا۔ ’’ہاں کیونکہ اس وقت تم اس دفتر کے امپلائی تھے اب میں نے تمہیں یہاں سے فارغ کر دیا ہے‘ تمہارا اس دفتر سے کوئی تعلق نہیں۔‘‘ وہ غصے میں بولی۔ ’’واٹ؟ تم نے مجھے فارغ کر دیا ؟ مگر کیوں؟‘‘ وہ حیران ہوا۔ ’’تمہاری کرپشن کی وجہ سے ، کیا تم نے وہ ای میل نہیں پڑھی جو ادارے نے تمہیں کی تھی؟‘‘ ’’مجھے کوئی ای میل نہیں ملی۔‘‘ وہ بہت غصے میں آگیا تھا، وہ اوّل دن سے ہی عادل سے جلتا تھا‘ اور یہ منظر اس کے لئے پر لطف تھا۔ ’’ٹھیک ہے، میںجولی سے کہتی ہوں کہ تمہیں شوکارڈ دے دے اور ساتھ ہی میری انگیجمنٹ کا کارڈ بھی اس اتوار میری اور جاوید کی منگنی ہے۔‘‘ شانزے نے بہت اطمینان سے اس شخص کا نام لیا‘ جو پاس ہی بیٹھا تھا، عادل کے تن بدن میں گویا آگ لگ گئی، وہ بنا کچھ کہے شانزے کے دفتر سے نکل آیا‘ اور شانزے کے دل میں ڈیڑھ ماہ سے چھپا بوجھ اتر گیا، وہ بہت مطمئن ہو کر مسکرا رہی تھی، آج اس کا دل ٹھنڈا ہو گیا تھا۔ …٭٭٭… ’’ میں نے زندگی میں اتنی نفرت کبھی کسی سے نہیں کی پھوپھو‘ جتنی کہ شانزے سے کرتا ہوں، اس جیسی عورت میں نے زندگی میں نہیں دیکھی۔‘‘ وہ غصے میں کلبلا رہا تھا۔ ’’عورت کی میں بہت عزت کرتا ہوں، میرے لئے وہ ہر روپ میں محترم رہی ہے لیکن یہ عورت ہر طرح سے میرے لئے قابل نفرت ہے، کیونکہ اس نے مجھے Terminate کر کے میری بے عزتی ہی نہیں کی‘ بلکہ اپنی اصلیت دکھائی ہے۔‘‘ وہ لائونج میں دائیں سے بائیں چکر کاٹ رہا تھا۔ پھوپھو جائے نماز پہ بیٹھی تسبیح پڑھنے میں مصروف تھیں‘ اور خاموشی سے اسے سن رہی تھی۔ ’’مجھے آج خود پہ حیرت ہو رہی ہے کہ میں نے اس لڑکی کو چاہا‘ اور اس کے لئے محبت جیسے مقدس جذبے کو اپنے اندر پالا؟ کیسے… کیسے کر سکتا ہے کوئی بھی شریف انسان اس سے محبت؟ وہ محبت کے قابل ہی نہیں، وہ تو انتہا کی انا پرست، خود غرض اور انتہا کی سیلفش ہے، وہ نہیں ہے چاہے جانے کے قابل۔‘‘ وہ بولا اور نیچے فرش پر پھوپھو کے عین سامنے بیٹھ گیا۔ ’’خدا کا لاکھ شکر ہے کہ اس نے مجھے ایک طویل اذیت سے بچا لیا‘ اور میں نے اس فضول عورت کے ہاتھ اپنی زندگی نہیں سونپ دی‘ میری محبت یکطرفہ تھی‘ جو کہ اس کی خود غرضی اور خود پرستی دیکھ کر اپنی موت آپ مر گئی، غلط تھامیں، بہت غلط تھا۔‘‘ وہ مسلسل نفی میں گردن ہلا رہا تھا، پھوپھو نے جائے نماز کا کونا الٹایا اور تسبیح جائے نماز کے اوپر رکھ دی۔ ’’اپنے خدا کا جتنا احسان مانوں اتنا کم ہے، بے شک وہ انسان کے چہرے کے اندر چھپے بہروپ بہتر طور پہ جانتا ہے، بے شک اس کے فیصلے ہمارے فیصلوں سے زیادہ بہتر ہوتے ہیں۔‘‘ وہ ندامت کی انتہا پر تھا‘ دل کی بھڑاس لفظوں میں نکال کے اس نے اک مطمئن سی سانس لی۔ ’’بڑوں کو کہتے سنا ہے بیٹا! کہ جوہوتا ہے بہتری کے لئے ہوتا ہے‘ اوراب کے فیصلوں کو رب خود ہی جانتا ہے، اچھا ہی ہوا کہ یہ ٹوٹا پھوٹا یکطرفہ رشتہ جڑنے سے پہلے ہی ٹوٹ گیا، سوچو اگر تمہاری ضد یہ رشتہ جوڑ لیتی تو بعد میں کیا انجام ہوتا۔‘‘ پھوپھو نے کہا۔ اب وہ گردن جھکائے خاموش تھا۔ ’’اصل میں فاطمہ کی محبت اور شانزے کی نفرت دونوں اکٹھی تمہاری زندگی میں آئی ہیں‘ اور تم خود ان دونوں کا سامنا کر پانے کی ہمت اپنے اندر جمع کر رہے ہو، محبت کا الٹ نفرت ہوتی ہے‘ اور نفرت کا الٹ محبت، جب د و مختلف سمتیں ایک ہی انسان کی زندگی میں بیک وقت آئیں تو انسان تمہاری ہی طرح پریشان ہوجاتا ہے عادل۔‘‘ پھوپھو اپنا فلسفہ بیان کر رہی تھیں‘ اور وہ محبت کا نام سن کر ایک بار پھر خود سے بھاگنے لگا، پھوپھو کے پاس سے خاموشی سے اٹھ آیا اور باغ کے ایک کونے میں آکے پناہ لی‘ جہاں نیم کے پیڑ کو چاند کی کرنیں روشن کر رہی تھیں اور چاند کی روشنی میں ستارے لکن چھپائی کھیل رہے تھے۔ عادل کو لگا ‘جیسے ستاروں نے آسمان پر لفظ محبت لکھ ڈالا ہو، نیم کی روشن پتیوں نے اپنے وجود سے اس محبت کے لفظ کا قالب اوڑھ لیا ہو‘ دور تک آسمان کی وسعتیں لفظ محبت محبت کا ورد کر رہی تھیں۔ ’’محبت اور فاطمہ سے؟ کیسے کرسکتا ہوں میں۔‘‘ اس کا دماغ بولا۔ ’’کیوں… کیوں نہیں کرسکتے؟کیا وہ چاہے جانے کے قابل نہیں؟ وہ تو پور پور محبت ہے، محبت کرنے والی، محبت دینے والی، ممتا اور اپنائیت سے بھرپور عورت۔‘‘ اس کے دل سے آواز آئی۔ ’’لیکن وہ میرے مرحوم دوست کی بیوی ہے‘ اس کی محبت ہے، ان دونوں کی لازوال محبت میں کیسے بھلا سکتا ہوں؟ ‘‘ دماغ نے اک اور ہتھوڑا مارا۔ ’’اسے میری ضرورت ہے، میرے سہارے کی ضرورت ہے، اسے اپنانا ہی تو دراصل اپنے دوست کی روح سے انصاف ہوگا، اس کویوں اکیلا اس کے حال پہ چھوڑنا کہاں کی دوستی ہے۔‘‘ دل نے اک اور دلیل دی۔ ’’لیکن وہ نہیں مانے گی، نہیں مانے گی، کبھی نہیں مانے گی۔‘‘ دماغ مصرتھا۔ ’’وہ مان جائے گی، وہ خود ٹوٹی ہوئی ہے، محبت اس کو جوڑ دے گی، اس کا سہارا بنے گی، اسے سنبھالے گی۔‘‘ دل کی دلیلیں جیت گئیں اور وہ ہار گیا، دل ہمیشہ ہی ہرا دیتا ہے، کیونکہ وہ صادق ہوتا ہے۔ …٭٭٭… ’’باجی! ایک بات کہنا چاہتی ہوں بہت دنوں سے لیکن ہمت نہیں پڑتی۔‘‘ کام کرنے والی ماسی نازیہ نے روشین کو فارغ بیٹھے دیکھا تو پاس آگئی۔ ’’کہو کیا کہنا ہے؟‘‘ روشین نے کہا۔ ’’باجی آپ برا تو نہیں منائو گی ناں؟ مجھے آپ کے غصے سے بڑا ڈرلگتا ہے جی۔‘‘ وہ بولی۔ ’’ہمت کی ہے بتانے کی تو پھر چھپانا کیسا؟ اور پھر مجھ سے تمہیں کیسا ڈر۔‘‘ ’’باجی… میں ناں… ایک واری فیر امید سے ہوں اور… اور مجھے اس بچے کی کوئی ضرورت نہیں، میں اسے ضائع کرانا چاہتی ہوں۔‘‘ نازیہ کی عام سے لہجے میں کہی بات نے روشین کو خاموش کرڈالا۔ وہ جو پچھلے دو ماہ سے بچہ ناں ہونے کے غم میں گھلی جارہی تھی، اس کے سامنے بیٹھی عام سی عورت کہ جس سے وہ اس کی مزدوری خریدتی تھی، آج اس غم میں گھل رہی تھی کہ اس کے پاس وہ نعمت ایک بار پھر آئی ہے‘ جس سے روشین ہمیشہ کے لئے محروم رہ گئی ہے۔ ’’اگر آپ میری مدد کریں باجی! تو مجھے اس سے نجات مل سکتی ہے۔‘‘ نازیہ نے التجا کی۔ ’’تم نے نجات کا لفظ استعمال کیا؟ تمہیں معلوم نہیں کہ یہ تمہاری اپنی اولاد ہے، باقی اولادوں کی طرح؟‘‘ روشین کا لہجہ نادانستہ طور پر کرخت ہوگیا۔ ’’جانتی ہوں باجی … لیکن اس کو اس دنیا میں کیوں لے کر آئوں نہ اسے کھلا سکوں گی، نہ اس کا تن ڈھانپ سکوں گی، پچھلوں کو کیا دے دیا ہے‘ جو اس کو دوں گی؟ بھوک سے، بیماری سے گرمی سے مررہے ہیں وہ… پھر اس آنے والے کو آنے سے پہلے کیوں نہ ماردوں۔‘‘ نازیہ کی آنکھوں میں نمی کے موتی جھلملائے تھے۔ ’’اگر پہلے نہیں پالے اور سنبھالے جاتے تو اگلے کو جان کا تحفہ دیا ہی کیوں ؟ قتل کرنے سے بہتر ہے کہ تم نئی جانوں کو آنے ہی نہ دو۔‘‘ روشین نے سختی سے کہا۔ ’’ چار دن سے بخار میں تپ رہا ہے میرا چھوٹا بیٹا! اس کے باپ کے پاس نشہ کرنے کے پیسے تو ہیں، دوا لانے کے پیسے نہیں، میر ی بیٹی جوان ہوگئی ہے، میں اسے گھر سے باہر نکالنا نہیں چاہتی، لیکن مجبوری ہے اسے بھی میری طرح کوٹھیوں پہ کام کرنا پڑتا ہے، پچھلے گھر سے میں نے کام چھڑوا دیا، صاحب کی نظریں ٹھیک نہیں تھیں، کیا کریںباجی! زندگی کو گھسیٹنا مجبوری ہی تو ہے۔‘‘ نازیہ کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گرنے لگے تھے۔ ’’اولاد کو صرف پیدا کرنا ہی تو نہیں ہوتا ناں، کھانا پلانا، ان کا تن ڈھانپنا، سردی گرمی سے بچانا، تعلیم دلانا، سر کو چھپانے کی چھت نہ ہوتو پھر قتل نہ کریں تو اور کیا کریں؟‘‘ نازیہ نے کہا۔ روشین اس کی باتیں سنتے سنتے کہیں کھو گئی تھی‘ اور اپنے پروردگار سے ہمکلام ہوگئی تھی۔ ’’واہ میرے مالک ! تو واقعی بے نیاز ہے، وہاں سے چھینتا ہے جہا ں پہ شدید طلب ہو‘ اور وہاں عطا کرتا ہے جہاں پہ طلب ہی نہ ہو، تیری بانٹ واقعی نرالی ہے میرے مالک!‘‘ روشین کی آنکھ میں بھی نمی کا اک قطرہ چمکا، کافی صدیاں ان دونوں کے بیچ سے گزر گئیں، نازیہ اٹھ کر جانے لگی ، روشین نے پاس رکھے اپنے پرس کو کھولا۔ ’’رکو۔‘‘ اس کے روکنے پر نازیہ کے قدم ٹھہر گئے، روشین نے ہزار ہزار روپے کے دو نوٹ نکال کر اسے دیئے۔ ’’یہ لو، اپنے بیٹے کا علاج کرائو اور کل تیار رہنا میں ڈاکٹر سے اپائنٹمنٹ لے لوں گی۔‘‘ روشین کے ہاتھ سے نازیہ نے پیسے لئے اور دعائوں کے لئے اپنے لبوں کو آزاد کر لیا۔ صبح اس نے راحیل کو بازار جانے کا بہانہ بنا دیا تھا، ثانیہ سے فون پہ وقت لے لیا تھا، دس بجے تک نازیہ آئی تو اس نے نازیہ کو گاڑی میں بیٹھ جانے کو کہا اور خود اپنا پرس اور پیسے لینے کے لئے الماری کی طرف گئی۔ ابھی الماری کا پٹ کھولا ہی تھا کہ ایک پیکٹ اس کے اوپر آکے گرا، اس نے پیکٹ اٹھایا اور کھولا، ننھے ننھے کپڑے موزے اور ٹوپیاں تھیں‘ جو اس نے اپنے بچے کے لئے بنائی تھیں، انہیں دیکھ کے دل جیسے کسی نے مٹھی میںجکڑ لیا، آنکھیں آنسوئوں سے لبالب بھر گئیں، کتنی خواہش اور کتنی چاہت سے بنائے تھے اس نے یہ کپڑے‘ اور پھر اس سے آگے وہ کچھ اور نہ سوچ پائی، ایک اور عجیب و غریب خیال نجانے کہا ں سے اس کے ذہین میں آیا، وہ خود حیران رہ گئی، اس خیال کو بھی وہ کوئی حتمی شکل نہیں دے پائی اور اپنا آپ گھسیٹتی گھسیٹتی گاڑی تک آئی۔ راستہ بھر وہ خاموش تھی، ذہن عجیب قسم کی سوچوں اور سوالات میں الجھا تھا‘ راستہ بھر اس نے نازیہ سے کوئی بات نہ کی، نہ ہی کسی کا فون اٹینڈ کیا، ہاسپٹل پہنچی تو جیسے مرے مرے قدموں سے نیچے اتری، گو کہ وہ اس وقت تک فیصلہ کر چکی تھی، اب فقط اس فیصلے کو عملی جامہ ہی پہنانا تھا، اندر آتے ہی اس نے ثانیہ کے سامنے اپنی دل کی بات کہہ دی۔ ’’اس بچے کو قتل ہونے سے بچالو ثانیہ! اسے میں پالوں گی، میں اس کی ماں بنوں گی۔ ‘‘ اس کی بات پہ ثانیہ سے زیادہ نازیہ کو حیرت کا جھٹکا لگا۔ ’’کیا کہہ رہی ہیں باجی جی؟ ’’میں ٹھیک کہہ رہی ہوں نازیہ ! یہ بچہ میرا بچہ ہے، میرے لئے ہے، ہاں صرف اس کی جنم دینے والی ماں تم ہوگی، اسے میں پالوں گی ، میں اس کی ماں بنوں گی۔‘‘ اس نے بڑے یقین سے وہ الفاظ دہرائے ، نازیہ حیرت زدہ ہوگئی۔ ’’ثانیہ پلیز اسے سمجھائو جو اس کے پاس ہے وہ میرے پاس نہیں ہے، میں ماں نہیں ہوں تو میں خود کو مکمل نہیں سمجھتی، اس کابچہ مجھے مکمل کر سکتا ہے، میں اسے کھلائوں گی، پہنائوں گی، پڑھائوں گی، میں اسے دنیا کی ہر مشکل سے بچائوں گی۔‘‘ وہ نم آنکھوں سے بولی۔ ’’کیا راحیل بھائی مان جائیں گے روشین؟‘‘ ثانیہ نے پوچھا۔ ’’اسے ماننا پڑے گا ثانیہ! اسے میری خوشی کے لئے ماننا پڑے گا، یہ کوئی گناہ یا غلط کام تو نہیں، یہ تو نیکی ہے، ثواب ہے، گناہ تو وہ تھا‘ جو ابھی ہم کرنے جارہے تھے۔‘‘ وہ روتے روتے گردن اثبات میں ہلانے لگی، ثانیہ اور نازیہ خاموش ہی تو رہ گئی تھیں۔ …٭٭٭… ’’میرا کام مکمل ہوگیا ہے مسز حسن! اب مجھے اجازت دیجئے میں جارہا ہوں۔‘‘ ڈاکٹر ذوالفقار نے راحلہ سے کہا۔ ’’لیکن ڈاکٹر ماہا کو میں کیا کہوں گی؟ وہ تو آپ ہی سے اتنی اٹیچ ہے‘ اورپھر اس کی طبیعت ابھی…‘‘ ’’ٹھیک ہے اس کی طبیعت ۔‘‘ ذلفی نے درمیان سے اس کی بات کاٹی۔ ’’وہ جو ضد کر رہی ہے وہ کبھی پوری نہیں ہو سکتی، بچگانہ پن اور جذباتیت کوٹ کوٹ کر بھری ہے آپ کی بیٹی میں، ناممکن کو ممکن بنانا چاہتی ہے اورمیں اس کے پاگل پن کے لئے اپنا کام دھندہ چھوڑ چھاڑ کے بیٹھ نہیں سکتا ۔‘‘ وہ بولا۔ ’’وہ میری اکلوتی اولاد ہے ڈاکٹر ذوالفقار اور میں اسے ہر گز تڑپتا روتا نہیں دیکھ سکتی۔‘‘راحلہ کے لہجے میں ماہا کے لیے پیارتھا۔ ’’آپ اس کی جلدسے جلد شادی کر دیں ۔ مسز حسن! شاید وہ ذہنی طور پر کچھ میچور ہوجائے، وہ بہت جذباتی اور بے انتہا ضدی ہے۔ ‘‘ ڈاکٹر ذلفی کی اس بات پہ ماہا فوراً باہر آگئی اب اور وہ کچھ سننا نہیں چاہتی تھی اپنے خلاف۔ ’’ہاں میں ہوں ضدی، ہوں میں جذباتی ، میں نے آپ سے بے انتہا اور شدید محبت کی ہے سر اور آپ کے بنا زندگی کا تصور بھی نہیں کر سکتی‘ آپ کو دکھائوں کہ اگر آپ مجھے نہیں ملے تو میں اپنی جان دے دوں گی اور اس سے مجھے آپ بھی نہیں روک سکیں گے۔ ‘‘ وہ شدتِ جذبات سے بولی۔ ’’تمہیں اگر اپنی زندگی پیاری نہیںتو کم از کم اپنی ماں کا خیال ہی کر لو۔‘‘ ذلفی نے کہا۔ ’’آپ کو بھی اگر اپنی زندگی کی پروا نہیں تو کم از کم میری زندگی کی پروا ہی کر لیں۔‘‘ وہ عین اس کے سامنے آکھڑی ہوئی تھی۔ ’’بے وقوف ہو تم اور حد سے زیادہ پاگل۔‘‘ وہ جو بہت کم غصہ کرتے تھے فوراً غصے میں آگئے۔ ’’اور آپ بہت بے حس اور حد سے زیادہ اڑیل۔‘‘ وہ بھی عین انہی کے انداز میں بولی، نادانستہ طور پر ذلفی کا ہاتھ اٹھا اور ماہا کے گال پر طمانچے کا ایک زور دار وار ہوا ، وہ کھڑے کھڑے لرز ہی تو گئی تھی، اس نے کبھی اس تھپڑ کی توقع بھی نہیں کی تھی، یہ حملہ اس کے رخسار پہ نہیں عین اس کے دل پہ تھا‘ وہ حیرت زدہ ہو کے دیکھتی رہ گئی تھی، آنکھیں پانیوں سے لبالب بھر گئی تھیں ، ذلفی پھر رکے نہیں لمبے لمبے ڈگ بھرتے ان کے گھر سے چلے گئے‘ اور وہ راحلہ کے سینے سے لگ گئی تھی، ذلفی کی اس حرکت نے راحلہ کو بھی دکھ پہنچایا تھا، وہ خودشاک میں تھیں،انہوں نے کبھی ماہا پہ ہاتھ نہیں اٹھایا تھا‘ اور خود کشی کی اس ایک کوشش کے بعد وہ پہلے سے زیادہ ان کو عزیز ہوگئی تھی، وہ دیر تک راحلہ کی گود میں لیٹی آنسو بہاتی رہی۔ ’’کیوں کیاانہوں نے ایسا میرے ساتھ ممی کیوں؟‘‘ ’’وہ تمہاری محبت کو نہیں سمجھ سکتا ماہا! عمروں کا اتنا تضاد ہے تم دونوں کے بیچ، وہ کبھی نہیں مانے گا۔‘‘ راحلہ نے اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔ ’’میں ان کے بغیر مر جائوں گی، میں نہیں جی پائوں گی ، نہیں… نہیں۔‘‘ وہ دیر تک روتی اور صرف یہی الفاظ دوہراتی رہی ، روتے روتے اس کی حالت خراب ہوگئی، حتیٰ کہ جسم بخار سے پھنکنے لگا، راحلہ سے بیٹی کی حالت دیکھی نہیں جارہی تھی۔ ساحر کی اچانک آمد نے راحلہ کو حیران اور کچھ پریشان کر دیا تھا، دراصل ان گزشتہ کچھ ہفتوں میں اس گھر میں جو بھی کچھ ہوا تھا ساحر اس سے بے خبر تھا۔ اس نے ماہا کو بہت فون کیے‘ لیکن اس کا موبائل مسلسل آف تھا، اب تو اس کا اور ماہا کاایک بھرپور رشتہ تھا اور اس رشتے کے تحت ہی وہ ماہا کی خیر خبر لے سکتا تھا‘ اس سے مل سکتا تھا ۔ ’’السلام علیکم آنٹی!‘‘ وہ بولا۔ ’’وعلیکم السلام کیسے ہو بیٹا! گھرپہ سب خیر یت ؟ بیٹھو۔‘‘ ’’گھر پہ تو سب خیریت ہے آنٹی، لیکن آپ لوگوں کی طرف سے کوئی خیر خبر نہیں تھی، ماہا نے بھی کوئی رابطہ نہیں کیا تھا‘ اور اس کا فون بھی بند تھا‘ مجھے تھوڑی تشویش ہوئی تھی۔‘‘ ساحر نے کہا۔ ’’بس بیٹا! ماہا کی ذرا طبیعت بہتر نہیں تھی اس وجہ سے وہ رابطہ نہیں کرپائی۔‘‘ راحلہ نے فوراً کہا۔ ’’اوہو، کیا ہوا ماہا کی طبیعت کو ؟‘‘ ’’بس بخار تھا اور فلو ۔‘‘ ’’کیا میں مل سکتا ہوں اس سے ؟‘‘ وہ بولا ’’نہیں مل سکتے ، کیونکہ میں تم سے ملنا نہیں چاہتی۔‘‘ نجانے نے کہاں سے ماہا کسی طوفان کی طرح اُمڈ آئی تھی۔ بے انتہا غصے میںبھری ہوئی ساحر سے زیادہ راحلہ حیران رہ گئیں، وہ آج کل کی ماہا کی ذہنی حالت سے اچھی طرح واقف تھیں۔ اس لئے اس سے کچھ بھی توقع کی جاسکتی تھی۔ ’’ماہا بیٹا!‘‘ انہوں نے اسے روکنے کی کوشش کی۔ ’’پلیز امی، مجھے کوئی لیکچر مت دیجئے گا اور ان موصوف کو بھی بہلانے اور ان سے جھوٹ بولنے کی ضرورت نہیں، صاف لفظوں میں انہیں کہہ دیں مجھے ان سے شادی نہیں کرنی‘ اور جو منگنی تھی وہ ڈرامہ تھا‘ کیونکہ اس میں میری کوئی مرضی اوررضا شامل نہیں تھی۔‘‘ وہ بہت روانی میں بولی، اب کے شارق گردیزی کو زور کا جھٹکا لگا تھا۔ ’’کیا … کیا کہا؟ منگنی تمہاری مرضی سے نہیں ہوئی تھی؟‘‘ ’’سنائی نہیں دیتا تمہیں ، نہیں ہوئی تھی میری مرضی سے منگنی ، نجانے کیوں میں نے مہر لگالی تھی اپنی زبان کے اوپر ، لیکن اب اور نہیں لگائوں گی، مجھے اپنی زندگی برباد نہیں کرنی کسی سمجھوتے کے تحت چلے جائو میری زندگی سے اور ہمیشہ ہمیشہ کے لئے چلے جائو۔‘‘ ماہا یہ کہتی تیزی سے واپس اپنے کمرے کی طرف چلی گئی اور شارق حیران و پریشان کھڑا دیکھتا رہ گیا۔ راحلہ بھی کچھ بولنے کی پوزیشن میں نہیں تھی، وہ بھی خاموشی سے ماہا کے کمرے کی طرف چلی گئی، شارق پھر مزید رکا نہیں بلکہ واپسی کے لئے چلا گیا۔ ’’تمہیں ساحر کے ساتھ اس لہجے میں ہرگز بات نہیں کرنی چاہیے تھی۔‘‘ راحلہ کا لہجہ نادانستہ طور پر سخت ہوگیا تھا۔ ’’کیوں آیا تھا وہ یہاں؟ مجھے وہ بالکل پسند نہیں ہے‘ اور میںاس کے ساتھ کوئی رشتہ رکھنا نہیں چاہتی۔‘‘ وہ رو رو کے بے حال ہو رہی تھی۔ راحلہ نے اسے او ر کچھ نہیں کہا، وہ چلی گئیں اور ماہا نے اپنا کمرہ لاک کر لیا۔ ’’ماہا دروازہ کھولو ، ماہا بیٹا!‘‘ راحلہ مسلسل اس کے کمرے کا دروازہ کھٹکھٹا رہی تھی، دوروز سے اس نے کچھ نہیں کھایا تھا‘ اور حد درجہ کمزوری ہو رہی تھی‘ اوپر سے صبح سے اس نے کمرے کا دروازہ مسلسل لاکڈ رکھا تھا، راحلہ کا پریشانی میں بہت برا عالم ہو رہا تھا، تقریباً ایک ڈیڑھ گھنٹہ انہوں نے دروازے پر کھڑے ہوکے گویا بیٹی کی منتیں کیں تب جاکے اس نے دروازہ کھولا۔ ’’ماہا… ماہا بیٹا! ایسا مت کرو، تمہاری ماں کے دل پہ کیا گزر رہی ہے تمہیں کس طرح سمجھائوں؟ تم اٹھو سنبھلو اپنے کالج جائو تم پہلے کی طرح ہوجائو۔‘‘ راحلہ کی آنکھوں میں بے بہا آنسو تھے۔ ’’ممی میں کچھ نہیں کر پارہی‘ میں نہیں سنبھل پار ہی، مجھے ذوالفقار کی محبت جینے نہیں دے رہی، میں ان کے بغیر مر جائوں گی، یا تو مجھے مرجانے دیں،میں اس دل ، دماغ اور روح کو کاٹ کے پھینک دینا چاہتی ہوں‘ جس میں اس سفاک اور خود غرض شخص کی محبت بس گئی ہے، مجھے اس کی ذات سے کوئی دلچسپی نہیں ہے، وہ میری محبت کے لائق ہی نہیں… نہیں۔‘‘ وہ روتے روتے فرش پر بری طرح گری تھی اور بے ہوش ہوگئی تھی، مسلسل بھوک اور نقاہت نے اس کا حال برا کر ڈالاتھا، راحلہ ایک بار پھر بہت پریشان ہوگئی تھیں اورانہوں نے فیصلہ کیا تھا کہ وہ ذوالفقار کے آگے اپنی اکلوتی بیٹی کی زندگی کے لئے گڑ گڑائیں گی، ان سے بھیک مانگیں گی، جب وہ خدا کی ذات کے آگے اپنی بیٹی کی زندگی کے لئے گڑ گڑ ا سکتی تھی تو پھر ذوالفقار احمد کیا چیز تھے؟ وہ ہر گز بھی کوئی مشکل نہیں تھے کہ جنہیں راضی نہ کیا جاسکے یا منایانہ جاسکے، بہر طور وہ ایک آدمی ہی تھے۔ …٭٭٭… اجنبی ہے تو میرے ذہن میں رہتا کیوں ہے وہ جو پتھر ہے تو شیشوں کا مسیحا کیوں ہے وہ ہوا ہے تو گزر جائے ہوائوں کی طرح وہ سمندر ہے تو بہتا رہے ٹھہرا کیوں ہے میرے آنگن میں نہیں کوئی امیدوں کا گلاب پھر یہ موسم میرے آنگن میں اترتا کیوں ہے جس کے چہرے پہ سبھی جھوٹ کی تحریریں ہیں دل اسی شخص کے وعدوں سے بہلتا کیوں ہے یہ میرا دل یہ معصوم سا انجان سا دل پھر نجانے تیرے نام سے دھڑکتا کیوں ہے ماہا کے لئے یہ بات اک خواب کی حیثیت ہی تو رکھتی تھی کہ آج رات اس کی شادی تھی ڈاکٹر ذوالفقار احمد کے ساتھ، نہ یہ کوئی خواب تھا‘ اور نہ کوئی تخیل کا لرزتا پیکر، یہ حقیقت تھی، کہ آج وہ سرخ جوڑے میں اپنا نازک و نفیس کمسن وجود چھپائے بیٹھی تھی‘ تو وہ ذلفی کی دلہن بن بیٹھی تھی، یہ اس کے شدت بھری ضد اور اکھڑ عشق ہی کا نتیجہ تھاکہ آج وہ اپنی منزل‘ اپنی چاہت پارہی تھی، اس عشق کے علاوہ اگر کسی نے زور لگایا تو وہ اس کی ماں تھی، جو اپنی بچی کی ایسی حالت دیکھ نہیں پائی تھی‘ اور اس نے ذلفی کے آگے بہت منتیں کیں جس طرح اسے مناسکتی تھی اس نے منایا اور اس ضمن میں فرخندہ نے بھی اس کا بہت ساتھ دیا، طے یہ ہوا تھا کہ ٹھیک ہے شادی ہوگی‘ لیکن بہت سادگی سے اور شادی کے بعد ماہا ذلفی سے کسی قسم کی کوئی توقعات نہیں رکھے گی‘ اورنہ اس کی زندگی میں کسی قسم کی کوئی مداخلت کرے گی، ماہا نے تمام کی تمام شرائط آنکھیں بند کرکے مان لی تھیں اور نتیجتاً وہ آج ذلفی کی ہونے جارہی تھی۔ ماہر بیوٹیشن کے کام نے اور ڈیزائنر کے لہنگے نے اسے پہلے سے زیادہ خوبصورت بناڈالا تھا‘ لیکن اس سے بھی زیادہ خوبصورتی اس کے چہرے پر وہ قدرتی رونق تھی‘ جو اسے اس کے عشق نے عطا کی تھی، عشق کے حاصل ہونے کی چاہت نے عطاکی تھی، نکاح کے وقت اسے اپنی سماعتوں پر یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ حقیقتاً اس سے ذلفی کو بطور شوہر قبول کرنے کا پوچھا جارہا ہے؟ اور اس کے ہاتھوں کے فقط ایک دستخط نے اس رشتے پہ پہلے سے بڑھ کر مضبوط مہر لگا دی، اس ایک دستخط نے اسے کچھ نہیں سے اٹھا کر سب کچھ بنا ڈالاتھا ، اس کی سہیلیاں رشتہ دار ہم عمر لڑکیاں اسے مسلسل چھیڑ رہی تھیں‘ اور وہ ان کی چھیڑ چھاڑ سے لطف اندوز ہو رہی تھی ، ایک دھیمی دھیمی مسکراہٹ مسلسل اس کے ہونٹوں پہ لرز رہی تھی۔ ذولفقار احمد کے لئے نکاح کا یہ وقت اور ہی طرح کے احساسات لے کر آیا تھا، کانٹوں کی طرح چبھ رہے تھے اسے یہ لمحات، وہ سدا کا تخیل کی دنیا میں زندہ رہنے والا انسان ، آج اندر ہی اندر تڑپ رہاتھا، سٹپٹا رہا تھا‘ سلگ رہا تھا ، باربار آنکھوں کے آگے وہ پہلے نکاح کے لمحات آجاتے تھے کہ جس دن اس نے فائزہ کو اپنی زندگی کا حصہ بنایا تھا اور وہ اپنے دل اوراپنی روح کی پوری کائنات اسے سونپ آیا تھا، وہ دن اسے کتنا خوبصورت اور دلفریب لگ رہا تھا اورآج کا دن اس کے لئے کتنا اذیت ناک تھا، اس نے کبھی نہیں سوچا تھاکہ وہ اس طرح شادی کرے گا مجبوراً بے دلی سے کسی کی خاطر قربانی کے طور پہ۔ رشتے بے دلی سے نہیں جوڑے جاتے، دلوں کو باندھنے کے لئے کسی ظاہری قوت اور کسی نقلی طاقت کی ضرورت نہیںہوتی، دل تو دل ہوتے ہیں، جو بنا کہے بنا سنے ، بنا زور زبردستی کے آپس میں جڑ جایا کرتے ہیں، دھمکایا جاتا ہے، محبت نہیں کروائی جاسکتی۔ ’’دلہن آگئی، دلہن آگئی۔‘‘ کے شور نے اس کادھیان اپنی طرف متوجہ کیااور وہ فائزہ کے چھلاوے کے سحر سے باہر آیا۔ سامنے زرتار عروسی لہنگے کو تھامے آتا مسکراتا ملکوتی حسن سے بھر پور وجود ہولے ہولے اس کی طرف بڑھ رہا تھا، اس کی باربار چھلک پڑنے والی مسکراہٹ اور چہرے کی چمک اس کی فتح کی گواہ تھی اور اس کی یہ مسکراہٹ ذلفی کے تن بدن کو اور سلگا رہی تھی۔ اچانک ذلفی کی آنکھیں دھند لائیں اور ماہا کا وجود فائزہ کے چہرے میں بدل گیا، یہ کیا سامنے سے آتی سرخ لہنگے میں فائزہ تھی‘ جس کے چہرے پہ اپنی ازلی چمک اور مسکراہٹ تھی، فخر تھا، اسے اپنانے کا غرور تھا، وہ مبہوت وحیران سا اسے دیکھتا رہا، حتیٰ کہ وہ عین اس کے پہلو میں آ گئی کزن نے ماہا کا ہاتھ اٹھا کے ذوالفقار کے ہاتھ میں دے دیا اور ماہا کے انگ انگ میں گویا اک برقی لہر دوڑ گئی، اک نئی احساس نے اس کے تن بدن کو جکڑ لیا اور ذولفقار احمد نے آج برسوں بعد فائزہ کو اپنی آنکھوں کے سامنے زندہ و سالم دیکھا تھا۔ نجانے یہ کیا کہانی تھی ایک نے عشق میں اپنا آپ کھویا تھا دوسرے نے عشق میں اپنے محبوب کو پایا تھا ایک جیت کر بھی ہارا تھا دوسرا ہار کر بھی جیتا تھا عشق دراصل ہار اور جیت سے ماوری ہوتا ہے، عشق دراصل یا تو دونوں کی جیت ہوتا ہے یا پھر دونوں ہی کی ہار۔ …٭٭٭… گاڑی ذوالفقار احمد کے گھر کے کارپورچ میں رکی تھی‘ اوروہ بنا کچھ کہے، بناکچھ سنے گاڑی سے اتر کر مرے مرے قدموں سے اندر چلے گئے تھے، ماہا جو کہ عروسی لباس میں دلہن بنی آگے بیٹھی تھی اور حیران سی دیکھتی رہی، راستہ بھر بھی وہ گاڑی اس طرح چلاتے رہے تھے‘ جیسے کہ وہ اکیلے ہوں اور وہاں کوئی اور موجود ہی نہ ہو سرے سے اور ماہا کے لئے یہ سب بہت دکھی کردینے والا اور اذیت ناک تھا، اب جو وہ اسے اکیلا یوں گاڑی میں چھوڑ گئے تھے تو یہ اسے تضحیک آمیز لگا، وہ نئی نویلی نوبیاہتا دلہن تھی ، اوّل تو اس کابہترین استقبال ہونا چاہیے تھا‘ اس کی راہ میں پھول بچھنے چاہئیں تھے‘ لیکن اگر وہ سب نہیںتھا‘ تو کم از کم اس کا ہاتھ تھام کے ذلفی خود تو اسے اندر لے جاسکتے تھے، اتنا تو کسی اجنبی کے ساتھ بھی کیا جاتا ہے وہ تو پھر ان کی بیوی تھی، نئی نویلی بیوی۔ ذلفی کی اس پہلی بے اعتنائی نے آنکھوں کو بے شمار آنسو دے ڈالے تھے‘ اور وہ جو رخصتی کے وقت بھی نہیں روئی تھی، زار و قطار رونے لگی، نجانے کتنی صدیاں اسے اس طرح روتے ہوئے بیت گئیں اور پھر اس نے دروازہ کھلنے کی آواز سنی وہ فرخندہ بی تھیں‘ جنہوں نے اس کی طرف کا دروازہ کھولا تھا۔ ’’دلہن بی بی آئیں اندر آئیں۔‘‘ اس نے سنا۔ ’’روئیں نہیں دلہن بی بی! آئیں آپ اپنے ہی گھر لکھ بسم اللہ سو سوواری بسم اللہ۔‘‘ فرخندہ بی نے اس کو پکڑ کے گاڑی سے اتار اس کے آنسو تھم گئے اور پھر فرخندہ بی اسے پکڑ کرگھر کے دروازے تک لے آئی۔ ’’اب ایک منٹ رکیں دلہن بی بی، میں ابھی آئی۔‘‘ فرخندہ بی کچھ دیر بعد آئی تو ہاتھ میں قرآن پاک تھا۔ ’’اب آپ اندر آئیں اس کی چھائوں میں ۔‘‘ اس وقت ایک ملازمہ کی اپنائیت بھی بے مثال محسوس ہو رہی تھی ، وہ اندر آگئی، قرآن پاک کی عظیم چھائوں میں۔ ’’دودوں نہائو پوتوں پھلو، سدا سہاگن تے بھاگ بھری رہو دلہن بی بی۔‘‘ فرخندہ بی کے ہونٹوں سے دعائیں ہی دعائیں نکل رہی تھیں اور پھر وہ ہولے ہولے قدموں سے فرخندہ بی کے ساتھ چلتی ہوئی اوپر ذلفی کے کمرے میں آئی وہی کمرہ جو اس کے لئے مانوس تھا اور جس کی بے رنگی پہ اس نے ایک تفصیلی نظر ڈالی تھی، فرخندہ نے اسے اسی بے رنگ بستر پہ بٹھایا۔ ’’آپ نے کچھ کھایا ہے دلہن بی بی؟ یا کھانا لے آئوں؟‘‘ ’’نہیں مجھے بھوک نہیں بس پانی لادیجئے۔‘‘ وہ بولی فرخندہ بی چلی گئیں، واش روم سے مسلسل شاور چلنے کی آواز آرہی تھی اور پھر وہ آواز معدوم ہوئی اورذلفی کچھ دیر بعد باہر آئے، وہ گردن جھکا کے اپنے آپ میں سمٹ کے بیٹھ گئی، ذلفی اس کے پاس آنے کے بجائے باہر گئے، باہر سے ان کی سفاک آواز آئی۔ ’’فرخندہ بی آپ کو بولا تھا ناں کہ محترمہ کو گیسٹ روم دیجئے گا یا اسٹڈی روم انہیں‘ پکڑ کے آپ نے میرے بیڈ پہ بٹھا دیا۔‘‘ اس ایک جملے کی سفاکی نے ماہا کودیر تک رلایا۔ رات بھر نہ کمرے میں ذلفی آئے اور نہ ماہا کو نیند آئی، وہ یہاں سے وہاں، وہاں سے یہاں کروٹ بدلتی اور روتی رہی۔ خزائوں کی اداسی ہے جواب تک دل پہ چھائی ہے بہاروں کا حسیں موسم کہیں سے ساتھ لانا تم یہ مانا اور بھی تم کو جہاں میں ہیں بہت سے غم مگر دنیا کے میلوں میں ہمیں مت بھول جانا تم اگرتم سے کبھی کوئی میرے بارے میں پوچھے تو فقط اتنی سی خواہش ہے مجھے اپنا بتانا تم صبح وہ اٹھی، اس نے اپنے عروسی دوپٹے کو اپنے وجود سے نوچ کے پھینک دیا اور نہا دھو کے ایک ہلکا پھکا سا لان کا سوٹ پہن لیا، صبح کے دس بج رہے تھے، وہ کمرے سے نکلی اور سیڑھیاں اترتی کچن کی جانب آنے لگی گو کہ اس کادل بہت بوجھل تھا‘ لیکن ساتھ ہی مطمئن تھا کہ اس نے وہ سب پالیا ہے جو کہ چاہا تھا یا جس کی تمنا کی تھی‘ اور اسے یقین تھا کہ اس کی محبت، چاہت اور بے انتہا وفا ذوالفقار کو تبدیل کر لے گی‘ اور وہ اپنے شوہر کے دل کو تسخیر کر لے گی، مرد تو یوں بھی مرد ہوتا ہے اور نکاح کے دستخط میں بہت طاقت ہوتی ہے، جہاں یہ عورت کو زندگی بھر کے لئے محبت کے حصار میں جکڑ لیتا ہے، وہیں پہ مرد کے دل میں بھی بیو ی کے لئے بے انتہا محبت ڈال دیتا ہے ، سو ماہا خوفزدہ، ہراساںاور پریشان نہ تھی، بلکہ مطمئن تھی، کچن میں آئی تو فرخندہ بی کو ناشتہ بناتے دیکھا۔ ’’سلام دلہن بی بی!‘‘ فرخندہ نے مسکرا کے سلام کیا۔ ’’وعلیکم السلام فرخندہ بی! کیسی ہیں آپ۔کیسی ہیں آپ۔‘‘ ماہا نے بھر پور انداز میں مسکرا کے جواب دیا۔ ’’میں ٹھیک، آپ کے لئے ناشتہ بنا دوں؟‘‘ ’’میں ذلفی کے ساتھ ناشتہ کروں گی، وہ کس وقت کرتے ہیں۔‘‘ ماہا نے کہا۔ ’’صاحب تو صبح ہی ناشتہ کرکے چلے گئے تھے۔‘‘ فرخندہ کے جواب سے ماہا کا چہرہ بجھ سا گیا۔ ’’کہاں گئے ہیں؟‘‘ اس نے خود پہ ضبط کر کے پوچھا۔ ’’یونیورسٹی گئے ہیں۔‘‘ فرخندہ نے عام سے لہجے میں جواب دیا۔ ’’تو آپ ایک دن بھی اپنے نئی نویلی دلہن کے ساتھ گزارنہ سکے۔‘‘ دل میں ایک ٹیس سی اٹھی، کئی لمحے وہ اپنے آنسو اپنے ہی اندر بہاتی رہی، لیکن بہر طور خود کو سنبھالنا تو تھا ہی۔ ’’ یہ کس کا ناشتہ بنا رہی ہیں آپ؟‘‘ اس نے موضوع گفتگو بدلنے کی کوشش کی۔ ’’یہ ارسلان بابا کا ناشتہ ہے۔‘‘ فرخندہ نے ٹوسٹر سے ابھر کے اٹھے ٹوسٹ پلیٹ میں ڈالے اور آملیٹ اتارا۔ ’’مجھے دیں فرخندہ بی میں ناشتہ لے جاتی ہوں ارسلان کے کمرے میں۔‘‘ ماہا نے ٹرے پکڑی۔ ’’لیکن دلہن بی بی … ارسلان بابا… غصے کے … ذرا سے تیز ہیں۔ ‘‘ فرخندہ نے ٹھہر ٹھہر کے کہا، ماہا نے اک ٹھنڈی آہ بھری۔ ’’کوئی بات نہیں فرخندہ بی مجھے عادی ہونا پڑے گاان تمام باتوں کا، آگ میں کودنے کی شرط میری اپنی تھی، کسی نے مجھے زبردستی نہیں پھینکا تھا۔‘‘ وہ خود اذیتی کے مراحل سے گزر رہی تھی۔ فرخندہ اس کے معصوم چہرے کی طرف دیکھتی رہی، جس پہ کرب اور تکلیف کے شدید آثار تھے، ایک ہی رات نے اس انیس برس کی لڑکی کو بوڑھا بنا ڈالا تھا، آنکھوں کا درد، چہرے کی اذیت اور بے پناہ تفکر اسے پچپن ساٹھ برس کی بڑھیا دکھا رہے تھے۔ ’’میرا ناشتہ بھی اوپر ہی لے آئیے فرخندہ بی۔‘‘ وہ صرف اتنا کہہ کر ارسلان کے ناشتے کی ٹرے اٹھا کر کچن سے باہر چلی گئی اور کئی لمحوں تک فرخندہ اس بھولی سی بچی کو دیکھتی رہی، جو اپنی تمام کی تمام کشتیاں جلا کر اس ان دیکھی کانٹوں بھری دلدل میں کود پڑی تھی۔ پھر وہ دروازے کو ہلکا سا دھکا دے کر اندر آگئی، ارسلان بیڈ پہ بیٹھا تھا اور سامنے ٹی وی چل رہا تھا، ارسلان ابھی تک شب خوابی کے لباس میں ملبوس تھا‘ اور شاید منہ دھوئے اور برش کئے بغیر ہی بیٹھا ٹی وی دیکھ رہا تھا، بیڈ کے سائیڈ ٹیبل پہ پیپسی کا کین رکھا تھا، یعنی کہ وہ نہار منہ پیپسی کا مزہ لے چکا تھا۔ وہ اندر آگئی۔ ارسلان نے ایک اچٹتی غیر دلچسپی بھری نگاہ اس پہ ڈالی اور دوبارہ ٹی وی کی طرف متوجہ ہو گیا۔ ’’السلام علیکم! میں ماہا ہوں ہماری پہلی ملاقات گزشتہ رات ہال میں ہوچکی ہے۔‘‘ اس نے بیڈ پہ ناشتے کی ٹرے رکھی اور اپنا ہاتھ بڑھا کے مسکراکے بولی، ارسلان نے کوئی جواب نہیں دیا گویا اس نے کچھ سنا ہی نہ ہو، ماہا نے اپنا ہاتھ پیچھے کر لیا۔ ’’میں آپ کے لئے ناشتہ لے کر آئی ہوں، مزیدار آملیٹ اور ٹوسٹ۔‘‘ ماہا نے اس کی بے رخی کو نظر انداز کیا۔ ’’کیوں فرخندہ بی مر گئی تھی کیا؟‘‘ ارسلان نے کاٹ دار لہجے میں کہا ماہا لرز سی گئی۔ ’’میں نے خود فرخندہ بی سے کہا کہ مجھے ارسلان کے ساتھ ناشتہ کرنا ہے۔‘‘ اس نے اپنا نرم لہجہ برقرار رکھتے ہوئے کہا۔ ’’آپ میرے باپ کے لئے آئی ہیں یہاں، بڑھاپے میں اپنے لئے نوجوان گڑیا لے کر آئے ہیں، شرم بھی نہیں آئی انہیں، آپ کا رشتہ انہی سے ہے اور انہی سے رشتہ بنائے رکھنے کی فکر کریںآپ، آئی بات سمجھ میں۔‘‘ وہ انتہائی بدتمیزی سے بولا، ماہا کے دل پہ ایک کے بعد ایک وار ہو رہا تھا۔ ’’اسی رشتے کے توسط سے ہی سہی، میرا تم سے بھی تو رشتہ بنتا ہے اور اس رشتے کے اعتبار سے میں تمہاری ماں ہوئی ناں۔‘‘ ماہا نے کہا۔ ’’Mind you میری ماں مر چکی ہے اور میرا تم سے کوئی رشتہ نہیں ہے‘ شکل اور باتوں سے تو بہت چالاک لگتی ہو، شاید اسی لئے بوڑھے کو پھنسا لیا ہے۔‘‘ اب کے ارسلان کا وار عین ماہا کے دل پہ لگا‘ اور پل میں اس کی آنکھیں چھلک پڑیں، یہ لہجہ اور یہ رویہ اس نے پہلے نہ تو کبھی سنا تھا اور نہ برداشت کیا تھا۔ ’’کچھ بھی کہنے سے پہلے سوچ لو، میں تم سے یا تمہارے والد سے کچھ چھیننے نہیں آئی، تم لوگوں کا، تمہارے گھر کا حصہ بننے آئی ہوں اور ماں کا لفظ اتنا تحقیر آمیز نہیں ہوتا کہ تم یوں مجھے ذلیل کرو، بیٹا ہی کہا ناں تمہیں کچھ اور تو نہیں کہا ناں، مجھے نہیں پتہ تھا محبتوں کی یہ سزا ملے گی مجھے۔‘‘ وہ روتی ہوئی کہنے لگی اور پھر اٹھ کے چلی گئی۔ ارسلان نے ناشتے کی ٹرے کو زور کا پائوں مارا، آملیٹ اور ٹوسٹ دور قالین پہ جاکے گرے تھے اور پھر وہ دیر تک منہ ہی منہ کچھ بڑبڑاتا رہ گیا تھا۔ …٭٭٭… ’’کہاں چلی گئی ہوتم… کہاں… مجھے اس بھری دنیا میں اکیلا چھوڑ کر۔‘‘ وہ اپنے گھر کے پائیں باغ کے عین درمیان میں کھڑا تھا‘ اور شدت سے اسے فاطمہ اور بچوں کی یاد آرہی تھی۔ اسے پتہ ہی نہیں چلا کہ اس کے دوست کی موت نے ایک نئے احساس کو اس کے دل میں جگہ دی تھی‘ اور اس احساس نے اسے اندر سے اتنا تبدیل کر لیا تھا‘ اس کی زندگی کو اس قدر بدل دیا تھا‘ کھلتے پھولوں‘ چمکتے ستاروں، مہکتی صبحوں شاموں کا رنگ و روپ ہی بدل دیا تھا۔ محبت نے دل پہ اک دستک دی تھی اور اس ایک دستک نے زندگی کی معنی بدل دیئے تھے۔ نجانے کیا ہے یہ محبت؟ کبھی کبھی کسی سے ہم محبت کے دعوے کرتے نہیں تھکتے، اسے باربار کہتے اور لکھتے رہتے ہیں کہ مجھے تم سے محبت ہے… محبت ہے … محبت ہے…اور پھر یکایک ہمارے سامنے محبت اک نئے معنی لے کر ایک نیا بہروپ اوڑھ کر اور اک نیا احساس لے کر دل کے اندر زبردستی آکے بیٹھ جاتی ہے۔ ہم اسے پہچاننے سے انکار کر دیتے ہیں۔ اسے تسلیم کرنے سے منکر ہو جاتے ہیں، وہ چیخ چلا کے کہتی ہے کہ میں محبت ہوں…میں محبت ہوں… جو پہلے تھا وہ بہروپ تھا… دھوکہ تھا… چھلاوا تھا… تمہارے احساس کی بھول تھی… وہ محبت نہیں تھی… میں ہوں محبت۔ ہم مزاحمت کرتے ہیں ، انکار کرتے ہیں، دلیلیں، دعوے ، نظریات ، آرگیومینٹس ، نہیں محبت تو نہیں، محبت باربار نہیں ہوتی، یہ ایک ہی بار پڑھا جانے والا سبق ہے، ایک ہی بارجسم کے اندر داخل ہونے والا لہو ہے، یہ زندگی کی قیمت نہیں کہ جس کی قسط بار بار ادا کرنی پڑے۔ ہمارے انکار کا، ہماری دلیلوں کا، ہمارے دعوئوں کا بھی اس پہ کوئی اثر نہیں ہوتا اور یہ ایندھن بن کے ہماری رگ رگ کوسلگاتی رہتی ہے ہم جتنی ٹھوکر مارتے ہیں یہ اتنی ہی شدت سے ہم سے لپٹ جاتی ہے چمٹ جاتی ہے اور بالآخر یہ جیت جاتی ہے، اس کی شدت کسی آسیب کی طرح ہم سے چمٹ جاتی ہے اور دل کی دنیا کو ویران کھنڈروں میں تبدیل کر دیتی ہے۔ بھوک ، پیاس ، محفل کی رونقیں، مسکراہٹیں، ہنسی، شوخی، شرارت ، ہم سے روٹھ جاتی ہے ہونٹوں پہ گیت ہوتے ہیں تو درد کے ، لبوں پہ ہنسی آتی ہے تو تمسخرانہ، دل میں خیال آتے ہیں تو باغیانہ، زندگی بدل جاتی ہے ، زندگی کے معنی بدل جاتے ہیں ، دل کی دنیا بدل جاتی ہے، دل کی دنیا کے دستور بدل جاتے ہیں، آنکھ جھپکے میںاپنے بنائے سب اصول ٹوٹ جاتے ہیں، سمندر کنارے جوڑے کچے گھر وندوں کی خاطر ہم اپنے پکے گھر، محل گلیاں محلے اور گھر کے لوگ تک چھوڑنے کو تیار ہوجاتے ہیں، نجانے کیسا کھیل ہے یہ محبت‘ نجانے کیسی بازی ہے، ہارو بھی تو بازی مات نہیں اور جیت گئے تو کیا کہنے؟ اور پھر شارق گردیزی یہ بازی ہار گیا تھا۔ وہ ماہا حسن کو حاصل کرتے کرتے کھو بیٹھا تھا، جس طرح ایک سفاک صبح اس کے گھر انگوٹھی اور منگنی کا شگن لوٹایا گیا تھا اسی طرح دوسری سفاک صبح اس کے گھر ماہا کی شادی کا کارڈ بھی آ گیاتھا، وہ کتنی دیر کاغذ کے اس بے درد ٹکڑے کو لے کر کھڑا ہا، مائوف ذہن کے ساتھ اسے دیکھتا رہا‘ کئی بار اسے ذوالفقار احمد کے نام کی جگہ شارق گردیزی لکھا نظر آیا، لیکن یہ فقط اس کی آنکھوں کا فریب تھا، منگنی کے کارڈ میں اس کا نام ضرور تھا لیکن شادی وہ کسی اور سے کر رہی تھی۔ بہت خوش نصیب تھا وہ جو اس پری پیکر کے عشق کا حقدار ٹھہرا تھا، وہ دیر تک خلا میں آنکھیںٹکائے ذوالفقار احمد کو رقابت کے جذبات کے ساتھ سوچتا رہا تھا اور شادی کے روز بھی وہ صرف اسی رقیبہ کا دیدار کرنے گیا تھا، ماہاکو، راحلہ کو، خود اس کے والد کو توقع نہ تھی کہ وہ اس شادی میںجائے گا، لیکن وہ بہت بہادری کا مظاہرہ کرتا اس شادی میںگیا اور محفل میں اپنی مسکراہٹیں نچھاور کرتا رہا اور ذوالفقار احمد کو دیکھ کے رقابت کا جذبہ ہوا کے بلبلے کی مانند تحلیل ہو گیا، وہ اس کے والد کی عمر کا شخص کس طرح سے اس کا رقیب ہو سکتا تھا‘ اور پھر اس کا چہرہ گواہ تھا کہ وہ ہرگز اس شادی سے خوش نہیں زہر کے گھونٹ کو زم زم سمجھ کے برداشت کررہا ہے ، دراصل اندر ہی اندر گھل رہا، ختم ہو رہا ہے اور اس کے برعکس ماہا بہت خوش تھی کیونکہ وہ کمسن اور کم عمر تھی اور بے خبری اور انجانے پن کی چادر میں لپٹی فقط اچھے دنوں کی تمنائی تھی اسے لگتا تھا کہ محبت ایک جادو کی چھڑی ہے جو پھیر دینے سے پتھر کا دیوتا محبت کے فرشتے میں تبدیل ہو جائے گا لیکن یہ ممکن نہیں تھا۔ کوئی جادو کی چھڑی کبھی کسی پتھر کے بت کو محبت کا فرشتہ بنا نہیں پائی، محبت تو محبت ہے جو کہ سفلی علم ہرگز نہیں‘ بلکہ آب حیات ہے، جو کسی کسی کے ہی نصیب میں آتا ہے‘ اور کوئی کوئی ہی اس کا جام نوش کر سکتا ہے، کسی کسی کو ہی زندگی مل سکتی ہے۔ ماہا نے کمسنی میں بے خبری میں ایک کھیل کھیلا تھا‘ اور یہ وہ عمر ہوتی ہے کہ جب حقیقتاً ہار یا جیت کی کوئی پروا نہیں ہوتی، بس کھیل کھیلا جاتا ہے۔ آج بہت دنوں بعد شارق گردیزی کان میں آئی پوڈ کے پلگ لگائے ساحل سمندر آیا تھا‘ اور راحت فتح علی کی خوبصورت دھنوں پہ رقص کرتی لہروں کو دیکھ رہا تھا دیرتک سفید جھاگ اڑاتی لہریں’’تو سے نیناں لاگے پیاسا نورے‘‘ کی دھن پہ جھومتی ، لہراتی اور پتھروں سے سر ٹکراتی رہیں وہ موسیقی اور فطرت کے اس فرضی سنگم سے لطف اندوز ہو رہا تھا، کہ جب اس کے پاس سے جانی پہچانی مہک کا گزر ہوا اور ایک فیروزی دوپٹہ اس کے پاس ہی سے لہرا کے سیڑھیاں اترنے لگا۔ یہ ماہا حسن تھی، وہ یقینا دھوکہ نہیں کھا رہا تھا، وہ دھوکہ کھا بھی کیسے سکتا تھا، اس خوشبو نے اسے لمحوں میں اپنا دیوانہ بنا ڈالا تھا‘ اور وہ پل اس مہک کے آگے اپنا سب کچھ ہار بیٹھا تھا۔ ہاں یقینا یہ ماہا حسن ہی تھی، جواب ساحل کی سیڑھیاں اتر کے لہروں کی طرف اداس اور دھیمے قدم اٹھائے جارہی تھی، اس کا دوپٹہ لہرا کے فضا سے باتیں کر رہا تھا، شارق کے لئے یہ کھیل اب اور بھی دلفریب ہوگیا تھا، موسیقی ، سمندر کی لہریں اور ماہا کا آنچل ، ایک ہی لے پہ رقص کرنے لگے اور ساری فضا ’’دھاگے توڑ لائو چاندنی سے نور کے‘‘ کی بیٹ پہ رقص کرنے لگی، وہ ختم ہوا تو ’’جان رے جان لے حال دل‘‘ کی دھن کا آغاز ہوا اور پھر یہ دلفریب کھیل دیر تک کھیلا جاتا رہا، وہ مسکرا کے اس کھیل سے لطف اندوز ہوتا رہا ، حتیٰ کہ ماہا ساحل پہ بنی سیڑھیوں پہ اداسی کی چادر لپیٹے بیٹھ گئی اور وہ بھی چند قدم چل کے عین اس کے پاس بیٹھ گیا، وہ پل بھر چونکی ، پھر شناسا چہرہ دیکھ کر مطمئن ہوگی۔ ’’شارق گردیزی کہتے ہیں مجھے ، امید ہے کچھ کچھ یاد ہوگا؟‘‘ وہ اوّل دن کی طرح کی مسکراہٹ سجائے ہوئے بولا ، وہ حیران ہوئی کیونکہ وہ اس کے ساتھ اتنا کچھ کر چکی تھی کہ اس کے بعد یہ اپنائیت اور یہ برتائو کیسے ممکن ہوسکتا ہے۔ ’’کیسے ہیں آپ شارق؟‘‘ وہ اپنی خجالت اور افسوس چھپاتے ہوئے بولی‘ کیونکہ وہ جو بھی کچھ کر چکی تھی، آج وہ اس کے لئے شرمندگی اور افسوس کا باعث تھا۔ ’’ہمیشہ کی طرح ویسا ہی ، ہنستا ، کھلکھلاتا، مستیاں کرتا ، روز صبح شام بیچ پہ آتا ہوں اور لہروں سے ڈھیر ساری باتیں کرتا ہوں، اس طرح میرے پھیپھڑے کچھ تازہ ہوا میں سانسیں بھی لے لیتے ہیں‘ اور میں بھی آسمان او رسمندر کی وسعتیں دیکھ کر ’’اور تم اللہ کی کون کون سی نعمت کو جھٹلائو گے ‘‘ کا ورد کرتا ہوں ۔ وہ بہت زندہ دلی سے گویا ہوا، ماہا کو اس کی خوشدلی پہ، اس کی مسکراہٹوں پہ رشک آیا، ان چند مہینوں میں وہ تو اپنی ہنسی تک کھو چکی تھی۔ ’’ اور کیسے ہیں آپ کے ڈاکٹر ہز بینڈ ؟‘‘شارق نے پوچھا۔ ’’بالکل ٹھیک ٹھاک پرفیکٹ ۔‘‘ اس نے پھیکی سی ہنسی ہنسنے کی کوشش کی اور اسی ہنسی نے اس کی چغلی کھائی۔ ’’لگتا ہے بہت مصروف ہیں، آپ کے لئے وقت نہیں ان کے پاس کلینک، ہاسپٹل، یونیورسٹی ، ڈاکٹرز تو کام کرنے کی مشین ہوتے ہیں۔‘‘ شارق کی بات پہ اس نے ایک ٹھنڈی آہ بھری۔ ’’نہیں ہمارا کیس الگ ہے، میں ان سے زیادہ مصروف ہوتی ہوں کیونکہ میں میڈیکل کی اسٹوڈنٹ ہوں، ویسے بھی وہ آج کل ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کی میٹنگ کے لئے ملائیشیا گئے ہیں اگر وہ یہاں ہوتے تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ میںاکیلی یہاں آتی۔‘‘ ماہا کو اپنے جھوٹ پہ خود ہی ہنسی آئی۔ ’’حیرت ہے اور خوشی بھی کہ آج کل تو ہم عمر لوگ بھی Mental compatability نہیں رکھ پاتے، اگر آپ کے اور ڈاکٹر صاحب کے درمیان اتنی انڈر اسٹینڈنگ ہے تو واقعی بہت اچھا ہے۔‘‘ شارق نے کہا۔ ’’محبت اورانڈر اسٹینڈنگ کے لئے عمروں کی کوئی شرط نہیں ہوتی ۔‘‘ اس نے وہی جملہ دوہرایا‘ جو گئے دنوں میں وہ خود سے کہہ کر خود کو بہلایا کرتی تھی۔ ’’چلتی ہوں میں گھر اکیلا ہے۔‘‘ وہ یہ کہہ کر اٹھی اور انہی ہولے اور اداس قدموں سے چلتی چلتی چھوٹی سی آلٹو کی طرف گئی اور اسے خود ڈرائیو کر کے آگے بڑھ گئی۔ ’’بہت جھوٹ بولتی ہو ماہا حسن، بہت… خود فریبی کی انتہا پر ہو، تم نے میری محبت کو ٹھکرایا ہے اور تم محبت تلاشتی تلاشتی میرے ہی پاس آئو گی۔‘‘ وہ کمال یقین سے بولا اور دوبارہ I-pod کے پلگ لگا کے چٹکیوں پہ گنگناتا آگے بڑھنے لگا۔ جانی وا کر کی خالی بوتل کونے میں ڈگمگا رہی تھی اور ڈاکٹر ذلفی اسے پوری طرح اپنے اندر اتار چکا تھا، سامنے فائزہ کی قد آدم تصویر تھی‘ اور آج بھی وہ روز کی طرح اس انتظار میں تھا کہ فائزہ کے بے جان پتلے میںجان آئے گی‘ اور وہ تصویر کی سیڑھیوں سے اتر کے اپنی سرخ ساڑھی کے ہمراہ اس کے عین سامنے آکے بیٹھے گی، پھر وہ رات بھر پیار کی باتیں کریں گے، ہنسیں گے ، بولیں گے اور صبح کی روشنی ہونے سے پہلے ہی وہ پھر ایک پورے دن کے لئے ایک دوسرے سے الگ ہوں گے۔ وہ ڈبڈبائی، لرزتی، بند ہوتی آنکھیں تصویر پہ گاڑے ہوئے تھے کہ جب ماہا ان کے کمرے میں داخل ہوئی، وہ بھی سرخ رنگ ہی کے لباس میں ملبوس تھی اور چہرے پر اپنے شوہر کے لئے بے پناہ پیار تھا وہ ان کے سامنے جاکے بیٹھ گئی۔ ’’کیوں آئی ہو تم یہاں؟‘‘ وہ لڑکھڑاتی زبان سے سوال کرنے لگے۔ ’’میں آپ کی بیوی ہوں اور میں آپ کو اس طرح اکیلا یہ زہر پینے کے لئے نہیں چھوڑ سکتی۔‘‘ وہ بولی۔ ’’نہیں ہوتم میری بیوی … فائزہ… وہ… وہ ہے میری بیوی میری محبت… اور تم اس کے اور میرے بیچ میںنہیں آسکتیں۔‘‘ وہ اسے اپنے آگے سے ہٹانے لگے۔ ’’میں نہیں آئی ان کے اور آپ کے بیچ، مجھے نہیں چھیننا ان کو آپ سے میں صرف یہ کہنے آئی ہوں کہ مردہ انسان کے پیچھے آپ کسی زندہ انسان کی زندگی تو نہ برباد کریں۔ وہ ملتجی تھی، اس نے ذوالفقار کی بانہوں میں اپنا وجود گرا دیا، ذلفی نے پٹخ کے اسے زمین پہ پھینک دیا، اس کا سر دیوار سے ٹکرایا اور اک گہرا نشان چھوڑ گیا، وہ وہیں کونے میں پڑی سسکتی رہی۔ کتنی صدیاں درمیان سے گزر گئیں، درد قطرہ قطرہ سر کے بعد پورے جسم اور پھر دل اور پھر روح میں منتقل ہونے لگا، اس وقت اسے اپنا ہر خواب، ہر خواہش اور محبت کا تمام طلسم جھوٹا لگا، بے بنیاد اور فریب لگا، محبت نام کی کوئی شے اس دنیا میں نہیں ہوتی، جو ہوتا ہے وہ دھوکہ ہوتا ہے… چھل… پامالی ہوتی ہے۔ ہر انسان اپنی خواہشوں کو پورا کرنے کے لئے ایک بیکار جذبہ پالتا ہے اور اسے محبت کا نام دیتا ہے، تم نے بھی یہی کیا ماہا حسن، تم نے بھی فقط اک حادثے کو عشق کا نام دیا، اک دلچسپی کو محبت ٹھہرایا، اک پسندیدگی کو زندگی کا حاصل، محبت کوئی ضد نہیں ہوتی، جسے بندوق کی نوک پہ منوایا جائے، کوئی زبردستی، کوئی زیادتی نہیں ہوتی، کوئی خوف، کسی ڈر کی گولی نہیں ہوتی، نہیں ہوتی تو نہیں ہوتی، ہوتی ہے تو پھر حقیقتاً ہوتی ہے۔ وہ دیر تک سسکتی، بلکتی اور تڑپتی رہی، پھر اس نے ذلفی کو اپنے قریب آتے دیکھا، وہ اپنے دونوں ہاتھ اس کے کندھے پہ رکھ کے اسے اٹھا رہے تھے، ماہا کے دل میں خوشی کی اک رمق پھوٹی، کوئی ہمارے ساتھ برا کرے تو اس کے برا کرنے کا جتنا دکھ ہوتا ہے، اس سے بڑھ کر خوشی تب ہوتی ہے کہ جب اسے احساس ہوجائے کہ اس نے ہمارے ساتھ برا کیا ہے اور وہ نادم ہو، ماہا کوبھی اسی خوشی نے کچھ دیر گھیرے رکھا، پھر ذوالفقار نے کوئی نام پکارا… ’’فائزہ‘‘ اور اس نام نے اس موہوم سے خوشی کے احساس کو اک بے نام کرب میں بدل دیا، ذلفی اس کے بعد بے خبر رہے۔ ان کے سامنے پھر وہ نہیں فائزہ تھی، اس کے بعد انہوں نے جو کچھ کیا وہ فائزہ کے ساتھ کیا اور حقیقتاً اس رات ماہا کے جسم کا ناتا اس کی روح سے ٹوٹ گیا تھا۔ وہ تہی داماں ہوگئی تھی، پامال ہوگئی تھی، وصال رت کی یہ پہلی دستک ہی سرزنش ہے کہ ہجر موسم نے رستے رستے سفر کا آغاز کر لیا ہے، تمہارے ہاتھوں کالمس جب بھی میری وفا کی ہتھیلیوں پرحنا بنے گا تو سوچ لوں گی، رفاقتوں کا سنہرا سورج غروب کے امتحان میں ہے، ہمارے باغوں سے گر کبھی تتلیوں کی خوشبو گزر نہ پائے، تو یہ نہ کہنا کہ تتلیوں نے گلاب رستے بدل لئے ہیں، تمہاری خواہش کی مٹھّیاں بے دھیانیوں میں کبھی کھلیں تو یقین کرنا کہ میری چاہت کے جگنوئوں نے تمہارے ہاتھوں کا لمس تازہ کی خواہشوں میں بڑے گھنیرے اندھیرے کاٹے، مگر یہ خدشے یہ وسوسے تو تکلفاً ہیں‘ جو بے ارادہ سفر پہ نکلیں تو یہ تو ہوتا ہے یہ تو ہوگا، ہم اپنے جذبوں کو منجمد رائیگانیوں کے سپرد کر کے یہ سوچ لیں گے کہ ہجر موسم تو وصل کی پہلی شام سے ہی سفر کا آغاز کر چکا ہے۔ …٭٭٭… روشین کی زندگی کوگویا اک سہارا مل گیا تھا، اس نے نازیہ کے بچے کوگود لینے کا سوچا تھا تو جیسے زندگی کو اک نئی سمت مل گئی تھی، اس سے پہلے اپنا بچہ کھو کر جس ادھورے پن نے اسے گھیر لیا تھا، اب وہ ادھورا پن مٹ گیا تھا، اس سے قبل اس نے باغبانی میں مصوری میں اور طرح طرح کے مشغلوں میں خود کو مصروف رکھنے کی بھر پور کوشش کی، لیکن کوئی بھی مشغلہ اسے مطمئن نہیں کرپایا‘ اور یہ ایک نیا مقصد گویا زندگی کا حاصل بن گیا تھا۔ وہ نازیہ کا خیال رکھ رہی تھی ، اسے دودھ پلانا، دوائیاں کھلانا، اس کے وزن کا، بچے کی صحت کا خیال رکھنا، اس کاریگولر چیک اپ، گھر پہ اس نے دوسری ملازمہ وقتی طور پر رکھ لی تھی‘ اور نازیہ کو اس نے اپنے ہی گھر کے کوارٹر میں وقتی طور پر ٹھہرا دیا تھا، گو کہ یہ سب کچھ تھا تو بہت عجیب‘ لیکن اس کے لئے بہت مطمئن کر دینے والا تھا، راحیل ابھی تک اس حقیقت کو تسلیم نہیں کر پا رہا تھا۔ ’’یہ کیسی بیوقوفی ہے روشین؟ یہ کس قسم کا پاگل پن ہے؟ تم کیا کر رہی ہو؟‘‘ راحیل اس کی حرکتوں سے گویا زچ آگیا تھا۔ ’’کیا مطلب کیا کر رہی ہوں؟ میں تمہیں بتا چکی ہوں راحیل کہ میں نازیہ کا بچہ اڈاپٹ کر رہی ہوں۔‘‘ وہ بولی۔ ’’بے وقوفی ہے یا دماغ خراب ہوگیا ہے تمہارا کیا کہیں گے لوگ ہم نوکروں سے بچے گود لیتے ہیں۔‘‘ وہ بھڑکا۔ ’’تو کیانوکر انسان نہیں ہوتے؟یانوکروں کے بچے مالکوں کے قابل نہیں ہوتے؟ کیا اللہ پاک اولاد عطا کرتے ہوئے پوچھتا ہے کہ یہ میں مالک کے گھر بھیجوں یا نوکر کے؟ جب اس نے کوئی اصول نہیں بنائے تو ہم نے کیونکر بنا رکھے ہیں یہ اصول؟‘‘ وہ بولی۔ ’’روشین سمجھنے کی کوشش کرو، میں نے سہیل بھائی سے بات کر لی ہے، وہ فارن کنٹری سے کوئی پیارا سا بچہ اڈاپٹ کر لیں گے۔‘‘ راحیل نے اسے سمجھایا۔ ’’تو تم غیر مسلم بچہ میری گود میں دینا چاہتے ہو جس کے جائز ہونے پر بھی شک ہو۔‘‘ وہ بھڑکی۔ ’’خدا کا واسطہ ہے تمہیں روشین، امی جان کبھی نہیں مانیں گی کہ ہم اپنی کام والی کا بچہ گود لیں۔‘‘ وہ بولا۔ ’’امی جان غیر مسلم مشکوک بچہ اڈاپٹ کرنے پر مان جائیں گی، اس بچے کے لئے نہیں مانیں گی‘ جو ہماری آنکھوں کے سامنے پیدا ہو۔‘‘ روشین کا سوال جائز تھا۔ ’’امی میری دوسری شادی کروانا چاہتی ہیں۔‘‘ اس کے منہ سے بالآخر وہ کچھ نکل ہی گیا جو دل میں تھا، روشین حیرت زدہ سی کھڑی اس شخص کو دیکھتی رہی‘ جو اس سے بے پناہ محبت کا دعویٰ کرتا تھا‘ آج فقط اولاد کا بہانہ بنا کر دوسری شادی کرنے کو تیار تھا۔ ’’اور تم… تم کیا چاہتے ہو راحیل؟‘‘ وہ خود پہ مسلسل ضبط کر رہی تھی۔ ’’برا ہی کیا ہے اس میں؟‘‘ راحیل کے دل کا چور بولا۔ روشین کئی لمحے اس کی چور آنکھوں کو دیکھتی رہی، چہرے پر اک تمسخر بھری مسکراہٹ آگئی۔ ’’بہانہ ملا نہیں کہ بیوی کو چھوڑنے کو بھی تیار ہوگئے؟ کتنی گہری محبت تھی تمہیں مجھ سے راحیل … واہ۔‘‘ وہ طنز سے بولی۔ ’’تمہیں چھوڑنے کی بات تو نہیں کی میں نے روشین، تم میری بیوی ہو، میری پہلی محبت ہو اور رہوگی۔‘‘ وہ بولا۔ ’’تو تھینکس مجھے اس شخص پہ کوئی اعتبار نہیں جو کسی بھی معمولی بات کو جواز بنا کر اتنی پرانی محبت کانعم البدل ڈھونڈ لے‘ مجھے نہیں رہنا تمہارے ساتھ اگر تم دوسری شادی کر رہے ہو۔ ‘‘ وہ غصے میں گویا ہوئی۔ ’’بیوقوف مت بنو، میرا بچہ تمہارا بھی بچہ ہو گا، میرا خون ہوگا اور میں اسے تمہاری گود میں رکھ دوں گا تمہی اسے پالنا، بڑا کرنا۔‘‘ وہ گویا اسے بہلانے لگا۔ ’’ہاں تاکہ تم اپنی نئی بیوی کے ساتھ زندگی انجوائے کر سکو۔‘‘ روشین کا وار برابر تھا، وہ بوکھلا ہی تو گیا تھا۔ ’’اب تو نازیہ کے بچے کو اڈاپٹ کرنے کا ارادہ پہلے سے زیادہ مضبوط ہوگیا ہے، میں اسے گود لوں گی اور اسے پال پوس کر بڑا کروں گی۔‘‘ وہ یقین سے بولی اور کمرے کا دروازہ عبور کر کے باہر چلی گئی، راحیل ششدر سا اسے کھڑا دیکھتا رہ گیا۔ گھر میں روشین کی نند آئیزہ اور ساس آگئے تھے‘ اور راحیل کی شادی کی تیاریاں شروع ہوگئیں۔ یہ سب گو کہ روشین کے لئے بہت تکلیف دہ تھا‘ لیکن یہ بھی اس کے لئے اللہ پاک کی طرف سے ایک امتحان تھا‘ اور اس کو صابر و شاکر رہنا تھا‘ اور اس امتحان میں سرخرو ٹھہرنا تھا، دل گو کہ کرب کے عالم میں تھا‘ اور یہ اذیت سہنی بہت بھاری پڑ رہی تھی، لیکن وہ جانتی تھی کہ تمام مشکلیں او ر تکلیفیں اللہ ہی کی طرف سے ہیں‘ اور سوائے اس کے کسی میں طاقت نہیں کچھ بدلنے کی‘ اور وہ امتحان فقط اپنے چہیتے بندوں سے ہی لیتا ہے، لہٰذا اگر وہ چہیتی تھی‘ تو خوش نصیب تھی‘ اسی لئے اس نے اس امتحان کو بھی سرآنکھوں پر لیا تھا، وہ بس دن گن رہی تھی کہ کب نازیہ کا بچہ اس دنیا میں آتا ہے‘ او ر اب وہ دن زیادہ دور نہیں تھا، آخری ہفتے رہ گئے تھے اور ثانیہ نے نازیہ کا بھرپور خیال رکھنے کا کہا تھا، گو کہ اب حالات پہلے جیسے نہیں تھے، اب اس کا اپنا گھر بھی اس کے لئے پرایا بن گیا تھا‘ اور اپنا شوہر بھی۔ وہ راحیل کو شادی کی تیاریاں کرتے دیکھ رہی تھی‘ تو حیران ہو رہی تھی کہ مرد کی ذات کتنی جلدی بدلتی ہے‘ اور کس انداز سے بدلتی ہے‘ یہ وہی شخص تھا‘ جس کی محبت کو اس نے بارہ طویل سال دیئے تھے اور اب وہی تھا‘ جو پہچانا نہیں جاتا تھا، اس نے آنکھیں ایسی پھیریں کہ پچھلا کچھ بھی یاد نہ رہا، گزرے تمام برس گویا ریت کے بگولوں کی طرح اڑ کر کھوگئے اور وہ پہلے کی طرح ہوگیا ‘جیسے کہ وہ بارہ برس کبھی اس کی زندگی میں آئے ہی نہ تھے۔ وہ راحیل کے نکاح کی رات تھی، گھر میں ڈھول‘ باجے شہنائیاں گونج رہی تھیں‘ اور وہ اپنا کمرہ بند کیے اس رات کی یادوں میں کھوئی تھی کہ جب وہ راحیل کی بنی تھی‘ اور زندگی بھر کے ساتھ کا دعویٰ کرنے والا راحیل آج وہی دعوے اور وہی وعدے دوہرا رہا تھا‘ کسی اور کے ساتھ کو جو روشین کا حصہ تھے، اولاد نہ ہونے کاجواز کیا ملا‘ اس نے اپنا سب سے اچھا دوست اور ساتھی ہی کھو دیا تھا۔ وہ دیوار پہ ٹنگی شادی کی تصویر کو دیکھ کر اسی دن اور اسی شام کی یادوں میں کھوئی تھی‘ کہ جب اس کے سیل پہ بیل ہونے لگی، یہ نمبر نازیہ کا تھا‘ جو اس نے اسے بوقت ایمرجنسی فون کرنے کے لئے دیا تھا، اس نے فون اٹھایا، اسے پتہ چلا کہ ہسپتال جانے کا وقت آگیا ہے وہ اٹھی، اپنی حالت درست کی اور پچھلے راستے کی سیڑھیاں اتر کے سرونٹ کوارٹر میں آئی‘ اور کسی طرح سے نازیہ کو گاڑی میں بٹھایا اور گاڑی نکالی، اب اس کے ذہن میں اور کچھ نہیں تھا سوائے اس کے کہ اس کے بچے کا عنقریب جنم ہونے والا ہے، وہ ماں بننے والی ہے‘ اور پھر نازیہ کو لیبر روم میں پہنچا کے وہ خود وہیں کاریڈور میں جائے نماز بچھائے اپنے پروردگار کے حضور سجدہ ریز ہوگئی‘ اورزار و قطار آنسو بہانے لگی۔ ’’میرا شوہر تو مجھ سے چھن گیا پروردگار لیکن یہ بچہ مجھے دے دینا، آج تک تو نے مجھے جن حالات کے سامنے رکھا میں سہہ گئی‘ میرے مالک ، تیری آزمائش سمجھ کے قبول کرتی گئی‘ لیکن آج اگر کچھ چھینا تو سہہ نہیں پائوں گی، آج میں ٹوٹ کر بکھر جائوں گی، آج میں ریزہ ریزہ ہوجائوں گی، تو … تو بن مانگے دیتا ہے پروردگار، میں تو تجھ سے ہاتھ پھیلا کے بھیک مانگ رہی ہوں پھر کیسے ممکن ہے کہ تو مجھے عطا نہ کرے ، مانگنا میرا فرض ہے‘ اور عطا کرنا تیرا، مجھے عطا کردے میرے رب، مجھے عطا کر دے۔‘‘ وہ رو رو کے گڑگڑا کے دعائیں مانگتی رہی اور نجانے وہ رات کا کون سا پہر تھا کہ جب ثانیہ نے اس کے ہاتھوں میں اک نومولود پھول سا بچہ رکھا وہ حیرت زدہ رہ گئی۔ ’’مبارک ہو یہ چاند سا بیٹا تمہارا ہے۔‘‘ ثانیہ کے الفاظ اسے حیران کر گئے، وہ نومولود ہولے ہولے حرکت کرتے ہوئے ننھے سے وجود کو دیکھنے لگی، گلابی رنگت ، کالی آنکھیں ، بھنوئوں کی پتلی سی لکیر، ننھے ننھے ہاتھ پائوں ، یہ ہو بہو ویسا ہی تھا‘ جیسا اس نے تصور کیا تھا، جیسا اس نے مانگا تھا، وہ جائے نماز پہ بیٹھی تھی‘ اور اسے اس کے پروردگار نے اس انعام سے دعا کی اس تکمیل سے نوازا تھا، اک طویل کر بناک سفر کے بعد اسے منزل ملی تھی، اک اذیتناک ادھورے پن کے بعد اس نے اپنا مکمل حصہ پالیا تھا‘ آج وہ ماں بن گئی تھی۔ …٭٭٭… رات کا نجانے کون سا پہر تھا، کہ جب وہ گھر لوٹی تھی‘ اس کے ہاتھ میں ننھا نو مولود تھا‘ جسے اس نے سفید کمبل میں لپیٹ رکھا تھا پورے گھر پہ کئی دنوں کے بعد اک سکوت چھایا تھا، ہنسنے بولنے گیت گانے کی آوازیں کئی روز کے بعد اب معدوم ہوئی تھیں‘ شادی ہوچکی تھی، وہ اسی گھر میں اجنبیوں کی طرح دھیمے دھیمے قدم اٹھاتی آگے بڑھ رہی تھی‘ جس گھر کو اس نے خود اپنے ہاتھوں سے سجایا‘ اور بنایا تھا‘ جس کی ایک ایک اینٹ اس نے اپنے خوابوں پہ سجائی تھی‘ اور اس نے اپنے اندر کی ہر اچھائی سے، ہرسچائی سے اس گھر کو سجانا چاہاتھا، لیکن پل میں کیا سے کیا ہوگیا تھا۔ وقت کی اک ظالم سفاک لہر آئی اور صدیوں کی بوئی کھیتیاں بنجر کر کے چلی گئی، ایسا ہی ہوتا ہے کوئی ایک لمحہ سالوں کی محنت پہ پانی پھیر جایا کرتا ہے‘ برسوں کی مشقت پل میں دھری کی دھری رہ جاتی ہے۔ وہ مرے مرے قدموں سے اوپر کی منزل پہ آئی‘ اس کے کمرے کے عین برابر وہ کمرہ تھا‘ جہاں پہ راحیل اپنی نئی دلہن کے ساتھ تھا‘ اور اس دروازے کے عین باہر روشین حسرت و یاس کی تصویر بنی کھڑی تھی۔ راحیل نے جو کیا وہ اس کے اپنے لئے درست تھا، لیکن روشین جس مقام پہ کھڑی تھی وہ اس اذیت سے خود بخوبی واقف تھی۔ اس کمرے کے دروازے کے ایک طرف اک کر بناک حال اور دور تک ایک تاریک مستقبل تھا۔ فقط زندگی کی ایک موہوم سی امید روشین کے ہاتھوں میں کسی چراغ کی مدہم روشنی کی طرح ٹمٹمارہی تھی، یہ آنکھیں موندے لیٹا ننھا سا بچہ اس کے لئے جینے کا واحدسہارا تھا۔ رات بھر اپنے کمرے میں کھڑکی سے نظر آتے آسمان پہ آنکھیں ٹکائے وہ فقط یہی سوچتی رہی کہ ساتھ والے کمرے میں راحیل کسی طرح سے اپنی نئی نویلی دلہن کی تعریفیں کر رہا ہوگا۔ عین اسی طرح سے جس طرح سے اس کے عارض و لب ورخسار کی تعریفیں کرتا‘ اور انہیں اپنا کہتا تھا۔ وہ تمسخر بھری ہنسی ہونٹوں پہ سجائے سوچتی رہی، مرد کتنی آسانی سے اپنے دل کے فریم کی تصویر بدل دیا کرتا ہے‘ اور کتنی آسانی سے گزشتہ دنوں کو بھول جاتا ہے‘ عورت بے شک کسی کی بھی کیوں نہ ہو جائے‘ اگر اس کی زندگی میں پہلے کوئی محبت تھی‘ تو اس کی یادیں سانپ بچھو بن کر تابہ ابد اس کو ڈستی رہتی ہیں‘ خوشی کا ہر لمحہ اسے دکھی کر دیتا ہے‘ اور ماضی کا کوئی سفاک دروازہ کھل جاتا ہے اور گزشتہ لمحے اس کے جسم میں سوئیوں کی طرح چبھتے ہیں۔ کیا راحیل کے دل میں آج کی رات کوئی سوئی نہیں چبھی ہوگی، کیا ماضی کے کسی دروازے نے اس کے اندر کوئی دستک نہیں دی ہوگی، کیا یادوں کا کوئی بچھو کوئی سانپ اس کی شریانوں کو اس کی شہہ رگ کو ڈسنے نہیں آیا ہوگا؟ کیاآج کی رات اس کے لئے بے حد خوشنما و خوبصورت ہو گی؟ وہ رات بھر اسی طرح کے سوالوں کی غلام گردشوں میں بھٹکتی رہی اور صبح تک آنسو بہاتے بہاتے اس کی آنکھیں شل ہوچکی تھیں‘ اور ذہن ایک عجیب فیصلہ کر چکا تھا۔ صبح ہی صبح اس نے اپنا مختصر سا سامان باندھا‘ اور ننھے بچے کو گود میں اٹھایا اور کمرے سے باہر آئی اور بنا کچھ کہے دبے پائوں راحیل کی زندگی اور اس گھر سے چلی آئی، جس کو وہ اتنے برس تک فقط اپنا سمجھتی رہی ‘اور جو کہ حقیقتاً اس کا تھا ہی نہیں۔ اس کے بعد راحیل نے اس سے رابطے کی بہت کوشش کی‘ لیکن وہ نہیں گئی، ماں باپ بھائی بہنوں نے بھی بہت کہا کہ اکثر مرد دوسری شادی کرلیتے ہیں‘ یہ کوئی انوکھی بات نہیں، وہ تمہیں بھی اس کے ساتھ رکھنے کو تیار ہے‘ لیکن وہ اپنی محبت ہر گز بھی بانٹنے کو تیار نہ تھی‘ اس کے لئے اس کابیٹا ’’ابیل‘‘ ہی کافی تھا۔ اس کے پاس جو تھوڑا سا زیور اور رقم موجود تھی‘ اس سے اس نے ایک عمارت خریدی اور وہیں پہ ایک پرائیویٹ اسکول کھول لیا‘ جو کچھ مہینوںکی مشقت اور محنت کے بعد چل پڑا‘ اور بہت بہتر آمدنی ہونے لگی، روشین نے اپنے علاوہ تین اور ٹیچرز اپوائنٹ کر لیں، نازیہ بھی وہیں کام کرنے لگی۔ اور آہستہ آہستہ یہ عمارت یہ ادارہ ایک اچھے ادارے کی شکل اختیار کرتا چلا گیا، ابیل بھی بڑا ہو کر اسی اسکول میں پڑھنے لگا اور روشین کی زندگی نے ایک نئی سمت لے لی۔ وہ جان گئی تھی کہ اکائی کی طاقت بہت ہوتی ہے اور کچھ انسانوں کے اندر اللہ کی یہ صفت بھی ہوتی ہے کہ وہ اکیلے اپنی دنیا بنائیں اور اسے بنانے سنوارنے کی ہر ذمہ داری اپنے سر لے لیں‘ اور کن فیکون کہہ کر اپنا جہان بناتے جائیں، بناتے جائیں تو آج روشین کم از کم اپنی اور اپنے پروردگار کی آنکھوں میں سرخرو تھی۔ …٭٭٭… یہ کسی مصروف سڑک کا ٹریفک سگنل تھا۔ عادل اپنے نئے دفتر سے واپس گھر کی طرف جا رہا تھا۔ اچانک اس کی طرف کا سگنل ریڈ ہوا اور تمام ٹریفک رک گئی، سڑک کے ایک طرف رکنے والی اس کی گاڑی پہلی تھی، باقی کا ٹریفک اسی کے پیچھے رکا تھا، دوسری طرف کا ٹریفک کھل گیا تھا‘ اورگاڑیاں اپنی رفتار سے جانے لگیں، انہیں گاڑیوں کی بھیڑ میں عادل کو فاطمہ کا چہرہ نظر آیا۔ وہ دور دوسری جانب بس اسٹاپ پر دونوں بچوں کے ہمراہ کھڑی تھی، نظر پڑتے ہی وہ اپنی گاڑی سے اترا انجن بند کیا اور گزرتے ٹریفک کے کچھ کم ہونے کا انتظار کیا۔ ’’فاطمہ… فاطمہ… ذین۔‘‘ وہ دور سے ہی انہیں آوازیں دینے لگا۔ حیرت انگیز طور پر فاطمہ کی نظر بھی اس پہ پڑگئی، درمیان سے گزرتی گاڑیاں تھم نہیں رہی تھیں۔ وہ اس تک جلد سے جلد پہنچنا چاہ رہا تھا، فاطمہ نے اسی اثناء میں دونوں بچوں کے ہاتھوں کو تھاما اور تیزی سے آگے بڑھنے لگی، وہ ہولے ہولے قدموں سڑک کے کچھ درمیان میں آچکا تھا۔ ایک تیز رفتار گاڑی نے عین اس کے پاس آکے بریک لگائی، شدید چرچراہٹ کی آواز ہوئی، باوردی ٹریفک کانسٹیبل نے سیٹیاں بجائیں اور اسے ہٹ جانے کو کہا، لیکن وہ فاطمہ تک پہنچنا چاہ رہا تھا، جبکہ فاطمہ اس سے بھاگ جانا‘ چھپ جانا چاہتی تھی۔ اسی جنگ میں ایک بس سڑک کی دوسری طرف رکی اور فاطمہ اس کی نظروں سے اوجھل ہوگئی، وہ دوڑا دوڑا سڑک پار کرکے آیا‘ لیکن تب تک وہ بس میں بیٹھ چکی تھی، بس آگے بڑھ گئی تھی، وہ بس کے پیچھے دوڑنے لگا۔ ’’رکو فاطمہ، میری بات سنو، ایک بار میری بات سن لو، مجھے موقع دے دو۔‘‘ وہ دوڑ دوڑ کے کہہ رہا تھا، اس کا سانس بھی پھولنے لگ گیا تھا، آنکھوں میں آنسو آگئے وہ اسے روک نہیںپایا، وہ پھر دنیا کی بھیڑ میں کھو گئی۔ مرے مرے قدموں سے وہ واپس گاڑی تک آیا، ٹریفک کانسٹیبل گاڑی کا چالان کر چکا تھا، اس نے کوئی مزاحمت نہیںکی‘ چالان کی رقم ادا کی اورگاڑی میں بیٹھ گیا، ایک ویران سڑک پہ آکے اس نے گاڑی روکی اور اسٹیئرنگ وہیل پہ گردن جھکا کے رونے لگ گیا۔ ’’کیوں کر رہی ہو تم ایسا میرے ساتھ؟ کس جرم کی سزا دے رہی ہو مجھے؟ میرے جرم محبت کی ؟ کیاتم نے میری آنکھوں میں اپنے لئے محبت دیکھی ہے؟ اپنے لیے وہ خاص مقام دیکھا ہے؟ کیا تمہیں معلوم ہے کہ تم میرے لئے کیا ہو؟ کہاں تلاش کروں تمہیں؟ کہاں ڈھونڈوں؟ کس پتھر کو کھود کے نہریں نکالوں؟ کس بستی میں قیس کی طرح کپڑے پھاڑ کے پھروں؟ کس گائوں میں مہینوال بن کے آئوں؟ بتائو مجھے کوئی اور سزا تجویز کرو میرے لئے، جدائی کی یہ سزا مجھے مت دو۔‘‘ وہ مضبوط باہمت مرد آج ایک کمزور سی لڑکی کے لئے آنسو بہا رہا تھا آج اس کے لئے ٹوٹ رہا تھا، ملتجی تھا کہ ’’میری آنکھیں خریدو گے؟ مجھے اک خواب کا تاوان بھرنا ہے۔‘‘ …٭٭٭… ان گزشتہ چند مہینوں میں ارسلان نے ماہا کے اپنے تئیں محبت اور سچائی بہتر طور پہ محسوس کی تھی، وہ جس طرح اس کے لئے صبح اٹھتی، خود ناشتہ بناتی، کپڑے استری کرتی، اس کے ہر کام کا خیال رکھتی تھی، رات کو سونے سے قبل دودھ کا گلاس بلاناغہ اس کے کمرے میں پہنچاتی تھی، ارسلان نے اس محبت اور اپنائیت میںممتا کا روپ محسوس کیا تھا اور بیک وقت اس نے ذوالفقار کا رویہ بھی ماہا کے لئے بخوبی محسوس کیا تھا اور وہ بہتر طور پہ جان گیا تھا کہ ماہا بھی اسی کی طرح اس گھر میں ایک Unwanted چیز ہے‘ جس کی وقت اور جس کی ضرورت شایدکسی کو نہیں اور یہی وجہ تھی کہ وہ ماہا کے قریب آگیا تھا‘ اوراس سے دوستی کر لی تھی۔ گو کہ یہ رشتہ اوّل روز سے ایک ماں بیٹے کا ہی رشتہ تھا‘ لیکن پھر بھی اس رشتے نے ایک مقدس دوستی اور اٹوٹ بندھن کا روپ دھار لیا تھا‘ اور یہ دونوں کے لئے ہی اطمینان بخش تھا۔ ماں بیٹے کایہ عجیب سا رشتہ تھا‘ جسے ذوالفقار نے بھی بخوبی محسوس کیا، وہ دونوں ساتھ کالج آتے، ساتھ کھانا کھاتے، ماہا کی ہائوس جاب والے سال میں ارسلان نے میڈیکل کالج انٹر کیا او ر میڈیسن کے پہلے سال میں داخل ہوا، ذلفی کوتو توقع ہی نہ تھی کہ اس کا بیٹا کبھی میڈیکل میں داخل ہو بھی سکے گا‘ لیکن یہ ماہا ہی کی توجہ اور محبت تھی جس نے یہ سب کر دکھایا۔ ان گزرتے سالوں نے ماہا کو شارق کا بہترین دوست بنا ڈالا تھا، گو کہ شارق نے شادی کر لی تھی‘ اور شارق کی بیوی صنم، ارسلان ، ماہا اور شارق ان چاروں کی دوستی ایک مثالی دوستی بن گئی تھی۔ ان چاروں نے ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں ایک دوسرے کا ساتھ دیا تھا ایک دوسرے کو دوستی اور محبت کا ایک بھر پور احساس دیا تھا اور ان تمام رشتوں میں جکڑی ماہا کو اس بات کا غم ہی نہ تھا کہ ذوالفقار اس کے نہ ہوسکے تھے‘ اور ابھی تک اسی تخیل کی دنیا کے سہارے زندہ تھے۔ ماہا نے ان کی زندگی سے چلے جانے کی کبھی کوشش نہیں کی‘ کیونکہ اب اس کا بیٹا اس کا بہترین دوست ارسلان اس کی زندگی کاسرمایہ تھا‘ اور وہ اس کو بن ماں کے چھوڑ نہیں سکتی تھی، ارسلان کی تعلیم، تربیت اور پرورش ہی ماہا کی زندگی کا نصب العین تھا۔ علاوہ ازیں ماہا نے بطور چائلڈز اسپیشلسٹ اپنی پریکٹس کا آغاز کر لیا تھا‘ اور وہ شہر کی مشہور ڈاکٹر بن گئی تھی، ننھے بچوں سے اس کی محبت اس وقت زیادہ مطمئن ہوتی‘ جب کوئی ننھا فرشتہ اس کے ہاتھ سے شفا پاتا اور صحت یاب ہوتا اس نے بچوں کے لئے ایک ہاسپٹل بھی بنایا‘ جسے اس نے عین اپنی سوچ کے مطابق ڈھالا، یہ چھوٹا سا پرائیویٹ ہاسپٹل بچوں کے اسکول اور نرسری کی طرح لگتا تھا‘ جہاں آنے والے مریض بچے طرح طرح کے کھیل کھلونوں سے حرف و ہندسوں سے کھیلتے تھے، انجکشن لگانے والی نرسیں بچوں کو دوا کے ساتھ ٹافی اور چاکلیٹس دیتیں، ہر کمرے میں بچوں کے دیکھنے کے لئے ٹی وی اور کارٹون موویز ہوتیں‘ اور یہاں غریبوں اور یتیموں کامفت علاج کیاجاتا، شہر کے تمام اسپیشلسٹ ڈاکٹر یہاں سرجری اور دیگر چیزوں کے علاج کے لئے بلوائے جاتے تھے‘ اور اس طرح ماہا نے اپنی محرومیوں کوشکست دے کر زندگی کی زرد چادر کو خوبصورت رنگوں سے بنا تھا، آج وہ بالکل تہی داماں نہ تھی‘ بلکہ وہ ایک بھرپور زندگی جی رہی تھی، اپنے لئے اوراپنے آپ سے جڑے کئی ہزاروں لاکھوں زندگیوں کے لئے۔ …٭٭٭… یہاں ہر شخص ہرپل حادثہ ہونے سے ڈرتا ہے کھلونا ہے جو مٹی کافنا ہونے سے ڈرتا ہے میرے دل کے کسی کونے میں اک معصوم سا بچہ بڑوں کی دیکھ کر دنیا بڑا ہونے سے ڈرتا ہے عجب ہے زندگی کی قید میں دنیا کا ہرانسان رہائی مانگتا ہے اور رہا ہونے سے ڈرتا ہے ہولے ہولے اذین عدنان اپنی گاڑی آج شہید فائونڈیشن کی اس عمارت کی طرف بڑھا رہا تھا‘ جس کی مینیجنگ ڈائریکٹر اس کی اپنی ماں مسز فاطمہ عادل تھی‘ اور ہیڈ اس کے بابا عادل تھے، وہ خود اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد یو کے میں سیٹل ہوگیاتھا‘ اور وہیں اچھی پوسٹ پہ کام کرتا تھا۔ حرا کی شادی ہوچکی تھی‘ اوروہ شادی کے بعد اسلام آباد شفٹ ہوگئی تھی۔ ان گزشتہ پچیس سالہ اپنی زندگی میں اس نے بہت کچھ دیکھا تھا۔ ننھی سی آٹھ سالہ آنکھوں نے والد کی شہادت دیکھی‘ پھر اس کے بعد اس کی والدہ ان دونوں بھائی بہن کو لے کر ایک ورکنگ ویمن ہاسٹل میں شفٹ ہوگئی‘ اور اس کے پیارے بابا سے تمام ناطے توڑ ڈالے، نجانے کن مشکلات سے گزر کے عادل نے ایک سال بعد انہیں ڈھونڈ نکالا‘ اوراس طرح انہوں نے عادل کو دوبارہ پالیا، اس کی چٹان سی مضبوط ماں نے اسی انسان کا سہارا قبول کر لیا کہ جس نے اس کے لئے دنیا چھوڑ دی تھی، کیونکہ وہ جانتی تھی کہ صرف وہی انسان اس کے مرحوم شوہر سے ویسی محبت کر سکتا ہے‘ جیسی وہ خود کرتی ہے‘ اورایسا ہی ہوا، وہ اپنے شہید شوہر سے ہمیشہ جڑی رہی، عادل نے اس کے بچوں کو اڈاپٹ تو کیا پر کبھی باپ کے خانے میں اپنا نام نہیں لکھا اور وہ حرا عدنان اور اذین عدنان کاسرپرست بنا رہا، دونوں کو اعلیٰ تعلیم دلوائی، بہترین زندگی اور بھر پور محبت دی۔ فاطمہ اور عادل نے مل کر شہید فائونڈیشن نامی ادارے کی بنیاد رکھی، جہاں تمام شہیدوں کی بیوائوں کو روز گار ملا، یتیموں کو تعلیم، خوراک اور کپڑے ملے ، فاطمہ اور عادل نے ہر شہید کے خاندان کا سرپرست ہونے کا ذمہ اپنے سر لیا‘ اور اس اللہ کے امر کی پیروی کر کے ان لوگوں نے دلی سکون اور اطمینان پالیا۔ اذین عدنان آج سالوں بعد سفید رنگ کی اس بلند وبالا عمارت کے اندر آیا تھا‘ دور سے ہی اس کے بیسٹ فرینڈ بابا کی مسکراہٹ اسے نظر آگئی، وہ گاڑی سے اترا، اس کی باوقار خوبصورت ماں نیلے رنگ کی کاٹن کی ساڑھی میں ملبوس مطمئن اور خوش تھی۔ ساتھ ہی بنے پلے گرائونڈ میںکئی سارے بچے کھیل رہے تھے‘ اور اذین اپنی کھلی آنکھوں سے اپنے ہی جیسے بچوں کو دیکھ رہا تھا، فاطمہ اور عادل نے جس طرح کی شفقت انہیں دی، اسی طرح کی شفقت وہ ان تمام یتیموں کے نام کر رہے تھے، تاکہ کل ان میں سے کوئی محرومی اور بھوک سے بھاگ کر دہشت گرد نہ بنے‘ اور کسی اور بچے کو یتیم نہ کرے‘ اور آگہی پھیلانے کا، زندگی کی زرد چادر کو خوشنما بنانے کا شاید یہی طریقہ تھا۔ اذین عدنان بہت اطمینان اور سرشاری سے مسکرایا تھا‘ اور اپنی ماں کے قدموں تک اپنا ہاتھ لے گیا تھا، جواب میں سر پر شفقت سے آنے والا ماں کا ہاتھ اس کی متاعِ حیات تھا۔ …٭٭٭… ’’اور اب یونیورسٹی کے ٹاپ اسکورر کو اسٹیج پہ بلاتا ہوں کہ وہ آئیں اور اپنی ڈگری کے ہمراہ گولڈ میڈل حاصل کریں‘ اور وہ ہیں ڈاکٹر ارسلان احمد۔‘‘ اسٹیج پہ نام انائونس ہوتے ہی تالیوں کی گونج اور شور میں ارسلان اپنی کرسی سے اٹھا‘ اور انتہائی فخر مند چال چلتا ہوا اسٹیج تک آیا‘ اور میڈل پہننے اور ڈگری لینے کے بعد وہ بہت فخر سے مائیک پہ گویا ہوا۔ یہ کامیابیاں عزت یہ نام تم سے ہے اے میری ماں یہ سارا مقام تم سے ہے ’’آج میں جو کچھ ہوں جہاں ہوں‘ صرف ایک ہستی کی وجہ سے ہوں۔ اگر وہ نہ ہوتیں تو ارسلان احمد آج اپنی ہی محرومیوں تلے دب گیا ہوتا، آج ارسلان احمد یا تو خودکشی کر کے مرچکا ہوتا‘ یا پھر کسی کونے میں نشہ کر کے پڑا ہوتا۔ انہوں نے میری مردہ ممی میں روح پھونکی۔ انہوں نے ہی میرے اندر میرے ہونے کا ادارک دیا۔ انہوں نے ہی مجھ میں مجھی کو زندہ کیا۔ آج میں جو ہوں‘ انہی کی وجہ سے ہوں۔ ماں آپ ہی میری زندگی ہیں۔ گو کہ میری پیدائش میںآپ کا کوئی ہاتھ نہیں‘ لیکن میرے ہونے میں آپ کا ہاتھ ضرور ہے، اس میڈل کی حقدار آپ ہیں ماں، صرف آپ، آپ کی تالیوں میں میں بلاتا ہوں ڈاکٹر ماہا ذوالفقار کو، کہ وہ آئیں اور یہ میڈل مجھ سے لیں۔‘‘ ارسلان کی آنکھوں میں نمی تھی‘ اور ماہا کے آنسوئوں پہ بھی کوئی بند نہیں باندھا جارہا تھا‘ صنم نے اسے اٹھنے کو کہا‘ اور وہ اپنی نشست سے اٹھی‘ پورا ہال جذبات سے بھیگا بھیگا تھا اور پھر سبھی کی دھند لاتی آنکھوں نے دیکھا کہ کس طرح ایک تقریباً ہم عمر بیٹے نے ماں کو اعزاز بخشا‘ اور سب سے زیادہ یہ منظر ذوالفقار احمد کے لئے حیرت ناک تھا‘ آج اس کی آنکھوں سے اس کی انا کا خول اترا تھا۔ آج اس نے ماہا کے شدید عشق کو اپنے اندر اپنی روح کے بہت اندر محسوس کیا تھا۔ …٭٭٭… آج وہ بہت عرصے بعد اکیلی ساحل سمندر پر آئی تھی، نہ اس نے صنم کو بتایا تھا‘ او رنہ شارق اور ارسلان کو، اکیلے بیٹھی لہروں کی لڑائی دیکھ رہی تھی کہ جب اسے اپنے پاس کسی کے بیٹھنے کا احساس ہوا، اس نے مڑ کر دیکھا وہ ذوالفقار تھے۔ ’’ارسلان نے بتایا کہ تم یہیں ملو گی، اس لئے یہاں آگیا۔‘‘ وہ بولے۔ ’’کیا کہنے آئے ہیں آپ اور …‘‘ وہ سنجیدگی سے پوچھنے لگی۔ ’’بات بہت لمبی ہے، مختصر لفظوں میں کیسے کہوں؟ پھر بھی تمہارے اطمینان کے لئے صرف اتنا کہوں کہ مجھے معاف کر دو۔ ان تمام گزرے برسوں کے لئے کہ جب تم نے مجھے اپنا سب کچھ دیا‘ اور میں تمہیں کچھ نہیں دے پایا۔‘‘ وہ بولا۔ ’’کیا برسوں کی تلافی لمحوں میں ہوسکتی ہے ذوالفقار۔‘‘ وہ بولی۔ ’’نہیں ہوسکتی اسی لئے تو آئندہ کی پوری زندگی مانگ رہا ہوں تلافی کے لئے‘ جو میرا اور تمہارا رشتہ ہے کم از کم اس کا تو حق بنتا ہے ناں کہ میں تمام عمر تمہارے آگے دوزانو جھکا رہوں‘اور تم سے معافی مانگتا رہوں۔‘‘ ذلفی نے اس کے ہاتھ پہ اپنا ہاتھ رکھا۔ ’’آپ کی جگہ ہمیشہ میرے دل میں تھی اور رہے گی۔‘‘ وہ بولی۔ ’’ تو پھر تیار ہو ایک نئی زندگی کے لئے نئے روز و شب کے لئے۔‘‘ ذلفی کی آنکھوں میں نئی امیدوں کے جگنو چمک رہے تھے۔ ’’میں نے خواہشوں کی تتلیوں کا تعاقب چھوڑ دیا ہے۔‘‘ وہ بولی۔ ’’کبھی کبھی تتلیاں خود ہمارے باغوں کی طرف لوٹ آتی ہیں‘ جو خوشبوئوں کی سفیر ہوتی ہیں‘ کیا ان تتلیوں کو تم اب اپنی مٹھیوں میں پناہ نہیں دو گی؟ کیا مجھے تلافی کاموقع نہیں دو گی ؟‘‘ وہ اپنے دونوں ہاتھ پھیلائے ہوئے تھا۔ ماہا کی آنکھوں سے دواشک گرے اور ذلفی کی ہتھیلیوں پہ ٹھہر گئے‘ اور پھر لمبی تھکن کے بعد ماہا نے اپنا سر ذلفی کے کندھے پہ ٹکا دیا۔ ختم شد |
Nazim's poetry
Saturday, March 17, 2012
Ye Jo Tmhara Mera Rishta hai
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment