Nazim's poetry
Monday, December 19, 2011
جب ذات بٹ گئی تو لگا کچھ نہیں بچا
جب ذات بٹ گئی تو لگا کچھ نہیں بچا
اور دُھند چَھٹ گئی تو لگا کچھ نہیں بچا
ہم صبح کی تلاش میں بیٹھے تھے رات سے
جب رات کٹ گئی تو لگا کچھ نہیں بچا
دل میں اِسی کے دم سے تو رونق بحال تھی
یہ آس ہٹ گئی تو لگا کچھ نہیں بچا
سُورج کے ساتھ پھیلتی جاتی تھی روشنی
اور یہ سِمٹ گئی تو لگا کچھ نہیں بچا
بس اِک نظر کی بات تھی،اُٹھی تو جی اُٹھے
اور جب پلٹ گئی تو لگا کچھ نہیں بچا
آکاس بیل ہجر کی دل کے شجر کے ساتھ
آکر لپٹ گئی تو لگا کچھ نہیں بچا
کرتے بتول کیا کہ خلاف اپنے جس گھڑی
تقدیر ڈٹ گئی تو لگا کچھ نہیں بچا
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment