کیسی شدت سے تجھے ہم نے سراہا ، آہا
تیری پرچھائیں کو بھی ٹُوٹ کے چاہا ، آہا
آخری سانس کی لذت کوئی اُس سے پوچھے
مرتے مرتے بھی جو بیمار کراہا ، ’’ آہا ‘‘
شعر کہنا ہے تو یُوں کہہ کہ ترا دُشمن بھی
دُشمنی بھول کے چِلا اُٹھے ’’ آہا ، آہا ‘‘
تیری آنکھوں میں کھٹکتا ہے مرے جیسا فقیر
کیسا اعلٰی ترا معیار ہے ، شاہا !! آہا
کل مرے حق میں تھا اور آج مخالف ُہوا تُو
کیسے بدلا ہے بیاں تُو نے ، گواہا ! آہا
No comments:
Post a Comment