ساحل
ہم اپنی شام کو جب نذرِجام کرتے ہیں
ادب سے ہم کو ستارے سلام کرتے ہیں
سجائیں کیوں نہ اسے یہ سراۓ ہے دل کی
یہاں حسین مسافر قیام کرتے ہیں
گلے لگاتے ہیں دشمن کو بھی سرور میں ہم
بہت برے ہیں مگر نیک کام کرتے ہیں
وہ جن کو دیکھ کے دل میں خدا کی یاد آئے
ہم اُن بتوں کا بڑا احترام کرتے ہیں
حیات بیچ دیں تھوڑے سے پیار کے بدلے
یہ کاروبار بھی تیرے غلام کرتے ہیں
ہمیں تو بس ایک نظر سے نواز اے ساقی
ہم اپنے ہوش و خرد تیرے نام کرتے ہیں
"قتیل" کتنے سخن ساز ہیں یہ سناٹے
سکوتِ شب میں جو ہم سے کلام کرتے ہیں
No comments:
Post a Comment