خواب سجانے والی آنکهیں
پل بهر میں بنجر ہو جائیں
رستہ تکتے تکتے تهک کر
امیدیں پتهر ہوجائیں
لب پر ٹهہری ہو خاموشی
اور سینے میں حشر بپا ہو
لفظوں کی مالا کا دهاگا
بیج سے جیسے ٹوٹ گیا ہو
بهولی بسری ساری یادیں
میں بهی شاید یاد بنالوں
بهول کے اپنے دکهڑے سارے
ہونٹوں کو مسکان سجالوں
تم ڈهونڈو پهر مجھ میں مجھ کو
اور میں خود میں گم ہوجاؤں
ایسا بهی تو ہو سکتا ہے
میں بهی اک دن تم ہوجاؤں
No comments:
Post a Comment