ان سے ہو روز ملاقات ضروری تو نہیں
ہو ملاقات میں کچھ بات ضروری تو نہیں
جام چھلکاتی ہو برسات ضروری تو نہیں
مے کشی رند خرابات ضروری تو نہیں
یوں تو ہر رات کی قسمت میں ہے سحر لیکن
ہاں مگر ہجر کی اک رات ضروری تو نہیں
ہے کوئی پردہ تخیل کے پیچھے نہاں
حسن پابندِ حجابات ضروری تو نہیں
چشم ساقی کا تلطف ہے مشیت واصف
سب پہ یکساں ہوں عنایات ضروری تو نہیں
اس دم نہیں ہے فرق صبا و سموم میں
احساس کے لطیف سے اک دائرے میں ہوں
رہبر نے کیا فریب دیئے ہیں مجھے نہ پوچھ
منزل پہ ہوں نہ اب میں کسی راستے میں ہوں



No comments:
Post a Comment