محبت مار دیتی ہے محبت کا سفر کر کے کہ خود کو دربدر کر کے مٹا کر ہر خوشی اپنی اسے پانے کی چاہت میں کہ خوابوں کی مسافت میں بس اتنا جان پائے ہم محبت مار دیتی ہے…! سرجری کی کلاس میں تھیوری پڑھتی ماہا حسن کا دھیان نہ اپنی کتاب میں تھا‘ اور نہ لیکچر پر۔ اس کی آنکھوں کے سامنے ڈاکٹر ذوالفقار احمد تھے‘ اور ان کا چہرہ اسے پوری کائنات پہ چھاتا سا محسوس ہو رہا تھا۔ کلاس روم پچھتر (75) طلباء اور پوری دنیا اس ایک چہرے کے پیچھے سمٹی جا رہی تھی۔ وہ فقط اسی چہرے کو دیکھ رہی تھی‘ سوچ رہی تھی‘ محسوس کر رہی تھی۔ دو سال سے وہ ڈاکٹر ذوالفقار کی سٹوڈنٹ تھی‘ اور دوسال سے ہی وہ ایک عجیب اور یکطرفہ رشتے کی ڈور میں خود کو بندھا ہوا پا رہی تھی۔ اس کی یہ دیوانگی بعض اوقات اس کے دل کا روگ بن جاتی‘ نہ کچھ کہہ پاتی‘ نہ لکھ پاتی‘ نہ اظہار و اقرار کی لذت پا سکتی‘ اور نہ اس آوارہ جذبے سے فرار پا سکتی‘ کچھ عمر کے کچے خوابوں نے اس کی ساری عمر پہ قبضہ کر لیا تھا۔ میڈیکل کی تعلیم جو انتہائی مشکل تھی‘ اسے مکمل کر پانا مشکل سا ہو گیا تھا۔ کلاس میں وہ ذوالفقار کو دیکھتی‘ تو گویا دنیا ختم ہو جاتی اور روح زمین پہ فقط ایک ہی ہستی رہ جاتی‘ ڈاکٹر ذوالفقار احمد‘ وہ بولتے‘ اپنے مخصوص انداز میں بال سنوارتے‘ انگریزی اور اردو کے فقروں کو اپنی من مرضی کا موڑ دیتے‘ وہ بلا کے فنکار آدمی تھے۔ عمر میں اس سے دگنے بڑے تھے‘ لیکن پھر بھی ان کی شخصیت اور ذات میں ہر وہ ساحرانہ خوبی تھی‘ جو اس کا دل مٹھی میں لے لیتی تھی۔ ان کی ذات میں کوئی ایسی Axialrotation تھی‘ کہ ماہا حسن کے دل کا سیارہ فقط اسی کے گرد گھومتا‘ اور وہ ساری دنیا بھلا کے فقط اسی کو سوچتی‘ اسی کو چاہتی‘ اور اس کی ہی بن جانا چاہتی۔ اس کی سب سے قریبی سہیلی ماریہ بھی اس کی اس عادت سے نالاں رہتی۔ ’’یار تمہیں کیا ہو جاتا ہے ڈاکٹر ذوالفقار کی کلاس میں‘ کیوں تم بدھو بنی انہیں دیکھتی رہتی ہو؟ آج بھی جب انہوں نے سوال کیا‘ اور جواب دینے کو کہا ‘ تو تم نے کہا کہ تم نے سوال ہی نہیں سنا‘ واٹ از دس نان سینس۔‘‘ کلاس سے باہر آتے ہی ماریہ اس پہ برس پڑی۔ ’’کیا کروں یار! انہیں دیکھوں تو دل قابو میں نہیں رہتا۔‘‘ وہ اعترافاً بول پڑی۔ ’’جانے دو یار! جانے دو۔ تمہاری ان فیلنگز کی کوئی حیثیت نہیں‘ بے کار ہیں تمہارے یہ جذبے‘ ان کی کوئی حقیقت نہیں۔‘‘ ماریہ نے کہا۔ ’’کیسے کہہ سکتی ہو تم کہ ان جذبوں کی کوئی حقیقت نہیں‘ مجھے محبت ہے ڈاکٹر زلفی سے‘ میں انہیں بہت بہت چاہتی ہوں۔‘‘ وہ دشت جذبات کے زیر اثر بولی۔ ’’لیکن وہ تمہیں نہیں چاہتے میری جان! ان کی اور تمہاری عمر میں کم از کم بیس برس کا فرق ہے۔ ان کا بارہ سال کا بیٹا ہے‘ ان کی بیوی کی Accidental death ہو چکی ہے‘ اور وہ ہمارے پروفیسر ہیں‘ یہ ممکن نہیں ماہا۔‘‘ ماریہ نے اسے سمجھایا۔ ’’ماریہ! مجھے یہ سب باتیں پتہ ہیں‘ آج سے نہیں پچھلے دو سال سے‘ لیکن ان باتوں کو میرا دل نہیں مانتا‘ بالکل نہیں مانتا۔ اگر ہم خدا سے محبت کریں تو کیا نہیں کر سکتے؟ اس لئے کہ وہ خدا ہے‘ ہم اسے دیکھ نہیں سکتے‘ چھو نہیں سکتے یا پھر ہم اسے پیار کرنے کے لائق نہیں‘ گنہگار ہیں‘ خطا کار ہیں‘ ادنیٰ سے انسان ہیں؟ کیا یہ تمام جواز دل کو خدا کی محبت سے دور رکھ سکتے ہیں؟‘‘ وہ کمال سنجیدگی سے بولی۔ ’’وہ خدا نہیں ہے ماہا‘ وہ خدا بالکل نہیں ہے‘ خدا سے محبت کرنے کا حق ہے ہر انسان کو جبکہ انسانوں سے محبت دیکھ بھال کے کرنی پڑتی ہے۔‘‘ ماریہ نے نئی دلیل دی۔ ’’وہ محبت ہی کیا ماریہ‘ جو دیکھ بھال کے کرنی پڑے؟ محبت کرنے کا حق ہر دل کو خدا نے خود دیا ہے۔ میری محبت کسی نے میرے اندر وحی کی طرح نازل کی ‘ قسم لے لو تم میں نے جان بوجھ کر کوئی فیلنگ اپنے دل میں نہیں پا لی‘ کسی قسم کی غلط نیت نہیں ہے میری‘ لیکن پتہ نہیں کیوں میں اس احساس سے نکل نہیں پا رہی۔ سر کی ذات میری زندگی کے اوپر حاوی ہو گئی ہے۔ ان کے بغیر میں کچھ نہیں۔‘‘ وہ سنجیدہ اور شدت پسند لڑکی دل کی گہرائیوں سے کہہ رہی تھی۔ ’’تو پھر بتا دو انہیں‘ چھپائے کیوں بیٹھی ہو‘ کہہ دو ان سے کہ تم انہیں چاہتی ہو‘‘ ماریہ کی دلیلیں ختم ہو گئی تھیں۔ ’’یہی کرنا تو مشکل ہے دوست! یہی کہنا تو بہت مشکل ہے۔‘‘ وہ نفی میں سر ہلانے لگی۔ ’’تو پھر یہ کب تک چلے گا؟ میں تو کہتی ہوں تم کسی طرح اسے بھلانے کی کوشش کرو‘ کچھ تو کرو کہ اس کا خیال تمہارے دل سے نکل جائے‘ ورنہ تم نہ پڑھائی مکمل کر پائو گی‘ اور نہ ہی سکون سے رہ پائو گی۔‘‘ ماریہ نے مشورہ دیا۔ ’’اسے بھلا دوں‘ جس کے علاوہ ساری دنیا بھلا بیٹھی ہوں؟ اس کے سوال کا کوئی جواب ماریہ کے پاس نہ تھا۔ ’’تم پاگل ہو گئی ہو ماہا حسن‘ بالکل پاگل‘ جگہ پہ نہیں ہے تمہارا دماغ‘ توازن کھو بیٹھا ہے اپنا۔‘‘ ماریہ اسے دیر تک ٹوکتی رہی اور وہ فقط مسکراتی رہی۔ اسے اپنی محبت پہ کوئی پچھتاوا نہ تھا۔ اسے اپنی محبت پہ ناز تھا‘ زعم تھا‘ فخر تھا اور یہ فخر اس کی زندگی کا سہارا تھا۔ ٭٭٭… ’’یہ دیکھو راحیل! میں ناموں کی کتاب لے آئی ہوں‘ پوری دنیا میں رکھے جانے والے اسلامی نام۔‘‘ روشین نے ایک موٹی سی کتاب اس کے سامنے رکھی‘ وہ جو ابھی دفتر سے واپس آ کے بیڈ پہ لیٹا تھا‘ متوجہ ہوا۔ ’’اچھا جی تو میری خوبصورت بیوی نے کیا کیا نام سلیکٹ کیے؟‘‘ وہ بولا۔ ’’بہت بہت سے پیارے نام ہیں‘ نئے ہیں‘ جیسے اذان‘ اریز‘ عمار‘ عاشان‘ عالیان وغیرہ وغیرہ۔‘‘ ’’تو کون سا نام فائنل کیا آپ نے؟‘‘ ’’ایسے کیسے فائنل کر سکتی ہوں کوئی نام؟ آپ نے بھی اپنی رائے دینی ہے۔‘‘ وہ بولی۔ ’’ہاں تو پہلے یہ طے کرنا پڑے گا ناں کہ ہمیں کس طرح کا نام چاہئے؟ کس حرف سے ہو؟ اور کس طرح کا ہو؟ چھوٹا ہو‘ بڑا ہو‘ یا پھر درمیانہ؟‘‘ راحیل نے ہمیشہ کی طرح اپنی فلاسفی شروع کی۔ ’’منیجر صاحب! یہ چھوٹا بڑا‘ درمیانہ‘ پلس مائنس اپنے پاس سنبھال کے رکھیں‘ مجھے تو بس ایسا نام چاہئے جس میں آپ کے نام کی گونج ہو۔‘‘ روشین کے پور پور میں شوہر کے لئے پیار تھا۔ ’’تو پھر ایسا کرتے ہیں شرجیل یا عدیل یا شمیل رکھتے ہیں نام بچے گا۔‘‘ ’’کیا آپ نے بھی پرانے اور سڑے ہوئے نام نکال رکھے ہیں‘ میں نے ایک نیا نام سوچا ہے۔‘‘ اس کے چہرے پہ مسکراہٹ تھی۔ ’’اچھا جی وہ کون سا؟‘‘ وہ ہمہ تن گوش تھا۔ ’’اَبیل… اَبیل علی خان جیسے آپ ہیں راحیل علی خان‘ کتنا پیارا لگے گا ناں۔‘‘ اس نام کی گونج روشین اپنے اندر سن رہی تھی۔ ’’واہ نام تو بہت پیارا ہے‘ مطلب کیا ہے اس کا‘ اور یہ لڑکے کا نام ہے یا لڑکی کا؟‘‘ راحیل کو یہ نام حقیقتاً بہت پسند آیا تھا۔ ’’اَبیل کا مطلب ہے جنت کا پھول‘ اور یہ نام لڑکی کا بھی ہو سکتا ہے‘ لڑکے کا بھی‘ دونوں پر سوٹ کرے گا‘ جس طرح فرخ نام کے لڑکے بھی ہوتے ہیں‘ لڑکیاں بھی‘ مصباح نام کے لڑکے بھی ہوتے ہیں‘ لڑکیاں بھی‘ اسی طرح ہماری اَبیل یا ہمارا اَبیل کیا فرق پڑے گا۔‘‘ روشین نے اسے سمجھایا۔ ’’چلو تو پھر ڈن ہے۔ یہ نام بہت پیارا ہے‘ اور مبارک نام ہے‘ اور الگ بھی‘ چلیں جی آج نام بھی فائنل ہو گیا۔ امی کو لاہور فون کر کے بتا دینا تم نے نام سلیکٹ کر لیا ہے‘ اور انہیں کہو کہ کچھ دنوں کے لئے آ جائیں‘ اور تمہاری ان ایکٹی وٹیز میں تمہاری مدد کریں۔ اس حالت میں تمہارا اتنا چلنا پھرنا ٹھیک نہیں۔‘‘ وہ اسے سمجھا رہا تھا۔ ’’امی کو مت بتانا کہ میں نے بچے کے لئے شاپنگ یا نرسری کی ڈیکوریشن شروع کر دی ہے‘ پتہ ہے تمہیں بڑی بوڑھیاں روکتی ہیں قبل از وقت کوئی تیاری کرنے سے واہمے ہوتے ہیں‘ ان کے دل میں بہت‘ ان کا خیال ہوتا ہے کہ بچہ ہو جائے پھر سب آ جاتا ہے۔‘‘ روشین نے بتایا۔ ’’ہاں تو اگر بڑے بوڑھے کہتے ہیں‘ تو ٹھیک ہی کہتے ہوں گے‘ تم فی الحال یہ تیاریاں روک دو روشین۔‘‘ راحیل کے دل میں بھی اک خدشے نے سر اٹھایا۔ ’’راحیل میں اس خوبصورت عرصے کو انجوائے نہ کروں؟ جسے اتنی مشکل سے پایا ہے‘ اس کی آمد کی خوشیاں نہ منائوں؟ اللہ نے مجھے عطا کیا ہے‘ تو وہ اس کی حفاظت بھی کرے گا‘ آپ فکر کیوں کرتے ہیں؟ یہ میری خوشی ہے راحیل‘ یہ میری زندگی کا سب سے خوبصورت تجربہ ہے۔‘‘ اس خوشگوار تجربے کا ہر ہر لمحہ اس کی آنکھوں میں چمک رہا تھا‘ راحیل میں اسے روکنے کی بالکل ہمت نہ تھی۔ ’’اوکے میری زندگی جو آپ چاہو وہ کرو‘ میں آپ کو نہیں روکوں گا۔‘‘ وہ بولا‘ روشین مسکرا دی۔ ’’پوچھ سکتا ہوں‘ کل تمہارے اس طرح چلے آنے کی وجہ کیا تھی؟ فاطمہ اور عدنان نے کتنا گلٹی فیل کیا۔‘‘ اگلے دن وہ آفس پہنچتے ہی سیدھا شانزے کے ڈیپارٹمنٹ میں آ گیا تھا۔ ’’بتایا تو تھا کہ کام تھا کوئی ضروری‘ اس لئے چلی آئی اور یوں بھی میں بہت ان ایزی فیل کر رہی تھی۔‘‘ وہ بہت مطمئن لہجے میں بولی۔ ’’کیا کہا‘ ان ایزی فیل کر رہی تھیں؟ مگر کیوں؟ فاطمہ اور عدنان اتنے اچھے ہیں‘ اتنے محبت کرنے والے اور کیئرنگ۔‘‘ عادل نے گویا اسے یقین دلانا چاہا۔ ’’تو میں نے کب کہا کہ وہ لونگ اور کیئرنگ نہیں‘ بس مجھے ان کی کمپنی پسند نہیں آئی۔‘‘ وہ صاف گوئی سے بولی۔ ’’پوچھ سکتا ہوں کیوں؟‘‘ وہ غصے سے بولا۔ ’’کیونکہ وہ تمہارے دوست ہیں‘ تمہاری ٹائپ کے ہیں‘ تم انہیں برسوں سے جانتے ہو‘ میرا ان سے کبھی کوئی واسطہ نہیں پڑا‘ اور تم میرے اوپر اپنا آرڈر لاگو نہیں کر سکتے کہ میں ان سے ملوں جلوں‘ یا ان سے سلام دعا رکھوں۔‘‘ وہ انتہائی کرخت انداز میں گویا ہوئی‘ وہ تلملا سا گیا تھا۔ ’’میں نے تمہیں فورس نہیں کیا تھا‘ میں تو بس ان کو اپنی پسند دکھانے لے گیا تھا‘ مجھے کیا پتہ تھا کہ میری پسند کو میرے دوست اور ان کی کمپنی ناگوار گزرے گی۔‘‘ وہ بولا۔ ’’میں نے تو اس طرح کے دوست کہیں نہیں دیکھے‘ بلاوجہ ہنسنا‘ بلاوجہ تالیاں مارنا‘ سوری ٹو سے عادل‘ لیکن مجھے یہ بالکل پسند نہیں کہ تم اس کی وائف سے اس طرح فرینک ہو‘ لوئر کلاس کے لوگوں کو یوں بھی تعلقات بڑھانے اور غیر ضروری رابطے بڑھانے کا شوق ہوتا ہے۔‘‘ شانزے نے ذومعنی انداز میں کہا۔ ’’کیا مطلب ہے تمہارا؟ کس کی بات کر رہی ہو تم؟‘‘ ’’اسی مس فاطمہ کی‘ بہت شوق ہے ناں اسے اپنے ہزبینڈ کے فرینڈ سے تعلقات بڑھانے کا‘ بے وجہ اس کے پاس بیٹھ کر اس کی پلیٹ میں کیچپ ڈال کے سینڈوچ کھانے کا۔‘‘ شانزے کے لفظ لفظ میں طنز کی کاٹ تھی۔ وہ تلملا گیا تھا۔ اپنے اوپر مشکل سے کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ ’’مائنڈ یوئر لینگوئج شانزے! فاطمہ ایسی نہیں ہے۔ میں اسے پچھلے دس برس سے جانتا ہوں۔ ہم نے ساتھ کھایا ہے‘ پیا ہے‘ وہ مجھے دوست اور بھائی کی حیثیت سے محبت کرتی ہے اور کچھ نہیں۔‘‘ وہ بولا۔ ’’اب بھی مجھ سے اس کی وجہ سے جھگڑ رہے ہو‘ عادل ہوش میں رہ کے مجھ سے بات کرو‘ اور اپنا لہجہ درست رکھو‘ آج تک میرے اپنے فادر نے بھی اس لہجے میں مجھ سے بات نہیں کی۔‘‘ غصہ شانزے کی آنکھوں میں بھی چھلک رہا تھا۔ ’’اگر تمہارے فادر تم سے کبھی اس لہجے میں بات کر کے تمہیں سمجھا دیتے ناں تو شاید آج تم کسی اور سے اس لہجے میں بات نہ کرتیں۔ کسی پہ تہمت لگانے سے پہلے سوچ لیا کرو کہ اس کا کیا اثر پڑ سکتا ہے‘ کیونکہ اگر مجھے اپنا کچھ سمجھتی ہو گی ناں تو یقینا میرے مزاج کا اثر تم پہ بھی پڑے گا‘ اور میرے دل کی بری حالت تم اپنے دل پہ بھی جھیلو گی۔‘‘ انگلی سے تنبیہ کرتا ہوا وہ شانزے کے آفس سے باہر نکل گیا‘ دیر تک شیشے کا دروازہ ہلتا رہا۔ شانزے کو کوئی پشیمانی نہیں تھی‘ کیونکہ پشیمان ہونا اس نے سیکھا ہی نہیں تھا۔ …٭٭٭… چپ کے عالم میں وہ تصویر سی صورت اس کی بولتی ہے تو بدل جاتی ہے‘ رنگت اس کی سیڑھیاں چڑھتے اچانک وہ ملی تھی مجھ کو اس کی آواز میں موجود تھی حیرت اس کی کسی ٹھہری ہوئی ساعت کی طرح مہر بہ لب مجھ سے دیکھی نہیں جاتی ہے اذیت اس کی آنکھ رکھتے ہو تو اس کی آنکھ کی تحریر پڑھو منہ سے اقرار نہ کرنا تو ہے عادت اس کی خود وہ آحوش کشادہ ہے جزیرے کی طرح ’’مبارک ہو‘ آپ کے لئے خوشخبری ہے۔‘‘ ڈاکٹر ثانیہ کے الفاظ نے روشین کے کانوں میں گویا ایک رس گھولا تھا۔ خوشی اور مسرت کا اک خوبصورت احساس گہرائی سے اس کے رگ رگ میں اترا تھا۔ وہ اندر ہی اندر فرطِ مسرت سے جھومنے لگی تھی۔ شادی کے سات سال بعد اس جملے کو سن پائی تھی‘ جس کو سننے کی خاطر اس کی سماعتیں ترس گئی تھیں۔ اس نے نہ صرف اس جملے کو سنا تھا‘ بلکہ دل کی گہرائی سے محسوس کیا تھا‘ ساتھ ہی کرسی پہ بیٹھے ہوئے راحیل کے ہونٹوں پر بھی حیرت بھری مسکراہٹ آ گئی تھی۔ ’’کیا ہو گیا ہے بھائی! اتنی بڑی خبر پہ اتنا عام سا رسپانس‘ یہ وہ خبر ہے کہ جس کا انتظار تم دونوں نے کئی سالوں سے کیا ہے۔‘‘ ڈاکٹر ثانیہ ان کی خاموشی پہ حیران تھیں۔ ’’پہلے مجھے یقین دلا دو ثانیہ کہ یہ خبر حقیقت ہے‘ مجھے یقین نہیں آ رہا۔‘‘ روشین کی آنکھیں نمی سے جھلملا رہی تھیں۔ ’’یہ میں نہیں کہہ رہی‘ یہ تمہاری رپورٹس کہہ رہی ہیں۔ اگر زیادہ بے یقینی ہے‘ تو آئو میں تمہارا سکین بھی کیے دیتی ہوں۔‘‘ ثانیہ نے مسکرا کے کہا‘ اور روشین چہرے کے اوپر اپنا ہاتھ رکھے آہستہ آہستہ رونے لگی۔ بعض اوقات خوشی بھی آنسوئوں کو ساتھ لئے آتی ہے‘ رونے کے علاوہ خوش ہونے کا کوئی اور طریقہ نظر نہیں آتا۔ ’’آپ تو جانتی ہی ہیں ڈاکٹر ثانیہ! کہ ہم نے اولاد کے حصول کے لئے کیا کچھ نہیں کیا‘ سات سال کا اک طویل عرصہ اس انتظار میں گزر گیا‘ اور اب کہ جب ہم نے ہر کوشش چھوڑ دی‘ جب ہم ہار مان گئے تو قدرت نے ہمیں نواز دیا۔‘‘ راحیل بھی اسی بے یقینی کے زیر ِاثر بولا۔ ’’یہی تو اللہ کی ذات ہے راحیل بھائی! یہی تو اس کی قدرت ہے‘ کہ وہ ہاں سے دیتا ہے دکھاتا ہے‘ جہاں پہ عقل دنگ رہ جاتی ہے‘ اور وہ وہاں سے نوازتا ہے‘ جہاں پہ ہر امید دم توڑ چکی ہوتی ہے۔ اس کی قدرت کمال ہے‘ اور اس کا کرم بے حساب۔‘‘ ثانیہ نے کہا۔ راحیل اور روشین دونوں نے اسے تسلیم کیا۔ ثانیہ اپنی کرسی سے اٹھی اور روشین کے پاس آئی۔ ’’اولاد نہ دینا اس کی آزمائش تھی‘ اور تم دونوں اس آزمائش میں پورا اترے ہو‘ اور اب اس کی طرف سے یہ تحفہ تمہارے لئے انعام ہے روشین! اپنا اور اس کا خیال رکھو‘ اور اللہ کا بے پناہ شکریہ ادا کرو‘ کہ تم لوگ اس کی طرف سے نوازے گئے ہو۔‘‘ ’’کوئی خطرے کی بات تو نہیں ہے ناں۔‘‘ وہ ثانیہ کی طرف اپنائیت بھری آنکھوں سے دیکھ رہی تھی۔ ’’کوئی خطرے کی بات نہیں‘ میں کچھ دوائیاں لکھ دیتی ہوں‘ روزانہ ان کا استعمال کرنا‘ اچھی غذا لینا‘ اور جی بھر کے آرام کرنا۔ حمل کوئی بیماری نہیں ہوتی۔ ان دنوں میں بھی عورت بھرپور زندگی گزار سکتی ہے۔ تم اس عرصے کو مکمل طور پہ انجوائے کرو اور اپنے ہر ہر احساس کو ایک اچھی ماں کے طور پر ڈائری میں قلمبند کرو۔ میں جانتی ہوں کہ میری دوست ایک بہت اچھی افسانہ نویس ہے۔‘‘ ثانیہ اپنے پیڈ پہ دوائیاں لکھتے ہوئے بولی‘ اور پھر دوائیوں کا پرچہ انہیں پکڑا دیا۔ وہ دونوں جانے کے لئے اٹھے۔ ’’بس کوئی وزن مت اٹھانا‘ اپنا کمرہ اوپر سے نیچے شفٹ کر لو‘ بار بار سیڑھیاں چڑھنے سے گریز کرنا‘ اور گھر کا کام بھی احتیاط سے کرنا۔‘‘ ثانیہ بحیثیت ایک ڈاکٹر کے اسے ہدایات دیتی رہی۔ ثانیہ اور روشین بیس سال پرانی سہیلیاں تھیں۔ دونوں نے انٹر تک ایک ساتھ پڑھا‘ پھر ثانیہ نے میڈیکل کی تعلیم کا آغاز کیا‘ اور روشین کی کم عمری میں شادی ہو گئی‘ لیکن دوریاں ان کی دوستی میں فرق نہ لا سکیں۔ دورانِ تعلیم بھی ثانیہ نے روشین کے لئے اپنا وقت نکالا‘ اور اسے لے کر کئی ڈاکٹرز کے پاس آئی‘ لیکن آٹھ سال تک اسے کوئی اولاد نہیں ہوئی‘ اور اب جبکہ وہ توقع ہی چھوڑ بیٹھی تھی‘ تب اسے اللہ نے نوازنے کی ٹھان لی تھی۔ راحیل اور روشین دل سے بہت خوش تھے۔ …٭٭٭… ’’نجانے تمہاری طرف سے کب کوئی خوشخبری سننے کو ملے گی؟ کب ہمارے کانوں کو شہنائیوں کی آواز سننے کو ملے گی؟ ہمارے تو کان ترس گئے ہیں۔‘‘ فاطمہ نے چائے کا کپ اس کی طرف بڑھایا۔ وہ جو عدنان کے ساتھ مل کر شطرنج کھیلنے میں مصروف تھا‘ مسکرا دیا۔ ’’ایک تو تم نے اور عدنان نے جلدی جلدی شادی کر کے بچے پیدا کر لئے‘ اور مجھے بوڑھا دکھانے کے لئے تم دونوں نے ہر ممکن کوشش کی‘ اور اب بھی میری آزادی تم دونوں سے برداشت نہیں ہوتی۔‘‘ عادل نے جوابی وار کیا۔ ’’میں نے تو سمجھداری کی ہے یار! یونیورسٹی کا سب سے چمکدار روشن ستارہ گھر لے آیا‘ اور اللہ کا شکر ہے کہ دو پالے پالے بچے بھی ہو گئے۔‘‘ عدنان نے گول مٹول سے اذین کو اٹھا کے اپنی گود میں لیا‘ اور اس کے گال کی ایک بھرپور پپی لی۔ اس کے پیار بھرے کمنٹس پہ فاطمہ مسکرا دی۔ ’’میرے لئے بھی کوئی دھندلا سا ہی سہی ستارہ تلاش تو کر لیتے‘ آج اس طرح تمہیں اور فاطمہ کو فکر تو نہ کھائے جاتی‘ میرے کنوارے رہ جانے کی۔‘‘ اس نے شطرنج کی چال چلتے ہوئے کہا۔ ’’عدنان اس کی باتوں پہ یقین مت کیجئے گا‘ اوّل نمبر کا جھوٹا ہے یہ‘ مجھے پتہ ہے اس کا کوئی نہ کوئی چکر ہے ضرور۔ ہر وقت موبائل سے چپکا رہتا ہے۔ کال آئے تو فوراً ٹیرس میں بھاگ کے سنتا ہے۔ ایک کے بعد ایک ایس ایم ایس ٹائپ کرتا رہتا ہے۔ یہ اوّل نمبر کا پاکھنڈی ہے۔‘‘ فاطمہ نے گویا اس کی پول کھول دینے کی ٹھان رکھی تھی‘ اور عادل سوائے ہنسنے کے اور کچھ نہیں کر پا رہا تھا۔ اسے پتہ ہی نہ تھا کہ فاطمہ کی آبزرویشن اتنی شارپ ہے۔ ’’پھر تو اس سے اگلوانا ہی پڑے گا‘ بتا بے کون مل گئی ہے تجھے؟‘‘ عدنان‘ اذین کو صوفہ پہ لٹا کے اس کی طرف لپکا‘ اور اسے دونوں شانوں سے تھام لیا۔ عادل کے قہقہے چھوٹے سے فلیٹ میں گونجنے لگے۔ ’’کوئی نہیں ہے یار! کوئی بھی نہیں ہے۔‘‘ وہ مسلسل انکار کر رہا تھا۔ ’’ٹھہریں ایڈی! یہ ایسے نہیں بتائے گا‘ آپ ذرا اسے اسی طرح پکڑیں میں خبر لیتی ہوں اس کی۔‘‘ فاطمہ جو چار سالہ زارا کو کھانا کھلا رہی تھی‘ دوڑی دوڑی ان دونوں کے پاس آئی‘ عدنان نے عادل کے دونوں ہاتھ مضبوطی سے پکڑ لئے‘ اور فاطمہ اس کا موبائل جیب سے نکالنے لگی۔ عادل ہنسی میں لوٹ پوٹ ہو رہا تھا۔ بچے یہ منظر دیکھ کے حیران تھے۔ انہیں سمجھ نہیں آ رہا تھا‘ کہ وہ تینوں خوش ہو رہے ہیں‘ یا لڑائی کر رہے ہیں۔ زارا آنکھیں پھاڑے انہیں دیکھ رہی تھی اور اذین رونے لگ گیا۔ فاطمہ نے اس کا موبائل نکال لیا‘ اور اسے چیک کرنے کی غرض سے دور بھاگی۔ ’’بتاتا ہوں‘ بتاتا ہوں‘ فاطمہ موبائل دے دو مجھے۔‘‘ وہ گویا ہار مان گیا تھا۔ عدنان نے اس کے ہاتھ چھوڑ دیئے۔ ’’بتائو کون ہے وہ؟‘‘ فاطمہ اس کے سامنے بیٹھ گئی تھی۔ ’’شانزے… شانزے نام ہے اس کا۔‘‘ اس نے پہلی بار اپنے دل کا راز ان دونوں کے سامنے کھولا تھا۔ ’’اور کون ہے؟ کہاں رہتی ہے؟ کیا کرتی ہے؟‘‘ فاطمہ نے ایک ہی سانس میں سوالوں کا تانتا باندھ دیا۔ ’’یار عدنان! تمہاری بیوی کو تو ایف بی آئی طرح کی کسی ایجنسی میں ہونا چاہئے تھا‘ کس رفتار سے سوالات کرتی ہے‘ ہمت ہے تمہاری کیسے ہینڈل کرتے ہو اس کو تم۔‘‘ عادل کی بات پہ عدنان نے کندھے اچکائے۔ ’’اب بات کو تبدیل مت کرو تم فراڈیئے‘ بتائو کون ہے وہ؟‘‘ فاطمہ نے اس پہ چڑھائی کر دی۔ ’’کولیگ ہے میری‘ ان فیکٹ ایچ آر منیجر ہے‘ دو سال سے ساتھ کام کر رہے ہیں‘ اور اسی نے مجھے پرپوز کیا تھا۔‘‘ عادل نے اعتراف کیا۔ ’’میں بھی کہوں کہ کس طرح معاملہ چل نکلا‘ تم نے تو زندگی بھرپرپوز نہیں کرنا تھا اسے۔‘‘ فاطمہ نے کہا ‘اور پھر عادل اپنی اور شانزے کی محبت کی داستان تفصیل سے سنانے لگا۔ اسی طرح تھی ان تینوں کی دوستی‘ لڑتے تھے‘ جھگڑتے تھے‘ ناراض ہوتے تھے‘ مگر ایک دوسرے سے الگ ہونے کا تصور بھی نہ کر سکتے تھے۔ دوستی کے گھنے شجر کی چھائوں تلے بیٹھے بیٹے دس سال کس طرح گزر گئے‘ انہیں پتہ ہی نہ چلا۔ یونیورسٹی کی چار سالہ تعلیم اکٹھے حاصل کی‘ اور اس کے بعد کا عرصہ بھی اکٹھے گزارا‘ گو کہ عدنان اور فاطمہ آپس میں شریکِ حیات تھے‘ لیکن دونوں کی حیات عادل کے بغیر ادھوری تھی۔ فاطمہ ہر پریشانی عادل سے شیئر کرتی‘ اور عدنان کے دل کا دوست بھی عادل ہی تھا‘ اور تو اور دونوں کے چھوٹے چھوٹے بچے زارا اور اذین بھی عادل سے زیادہ اٹیچ تھے۔ زندگی ایک خوبصورت بہائو کے ساتھ موج در موج سفر میں تھی‘ اور زندگی میں کوئی درد‘ کوئی غم نہیں تھا۔ وہ تینوں ایک ہی شجر کی تین ٹہنیاں تھیں۔ دور ہو کر بھی پاس تھیں‘ اور ایک ہی طرح سے سانس لیتی تھیں۔ …٭٭٭… ’’آج کا دن میری زندگی کا سب سے حسین دن ہے راحیل! مجھے بالکل یقین نہیںآ رہا کہ ثانیہ نے جو کچھ کہا ہے‘ وہ سچ ہے۔‘‘ گاڑی میں بیٹھتی ہوئی روشین کے چہرے پہ بے انتہا مسرت اور تازگی تھی۔ ’’یہ ثانیہ نے نہیں تمہاری رپورٹس نے کہا ہے ‘اور میری جان! حسین دن کہاں‘ حسین دن تو اور آنے ہیں‘ ابھی تو ہم نے بہت سی خوشیوں کو اک ساتھ مل کے دیکھنا ہے‘ بہت سے حسین دن‘ بہت سی جگمگاتی راتیں۔‘‘ راحیل کا چہرہ بھی اندرونی خوشی کا غماز تھا۔ ’’راحیل… راحیل وہ ہماری گود میں ہو گا‘ اس کے ننھے ہاتھ‘ نازک گلابی پائوں‘ چھوٹا سا خوبصورت چہرہ۔‘‘ روشین کی آنکھیں خوشی سے نم ہونے لگی تھیں۔ ’’تمہیں اس طرح خوش دیکھنے کے لئے میری آنکھیں ترس گئی تھیں۔‘‘ سگنل پہ گاڑی روک کے وہ اس کی طرف پیار سے دیکھ کے بولا۔ ’’عورت جتنی بھی کوشش کر لے خوش رہنے کی‘ اگر وہ ماں نہ بنے تو وہ مکمل نہیں ہوتی۔ آج راحیل آج‘ میں خود کو مکمل محسوس کر رہی ہوں‘ آج کہ جب مجھے احساس ہوا ہے کہ میری کوکھ میں بھی کوئی پھول کھلا ہے کہ جب میں نے اپنے بچے کے دل کے دھڑکنے کی آواز سنی ہے۔ راحیل تمہاری روشین آج مکمل ہوئی ہے‘ آج ہی اس نے اپنے آپ کو پہچانا ہے۔‘‘ روشین کا روم روم سراپا روشنی تھا‘ گنگنا رہا تھا‘ جھلملا رہا تھا۔ ’’آئی لو یو روشین! میں تمہیں ہمیشہ ہمیشہ اسی طرح خوش‘ اور اسی طرح مسکراتا ہوا دیکھنا چاہتا ہوں۔ میرے لئے تمہاری خوشی سے زیادہ اہم اور کچھ نہیں۔‘‘ اس نے اپنی خوبصورت بیوی کا ہاتھ تھام لیا۔ آج وہ دونوں کسی نئی روح کی آمد کی خبر سن کر بہت خوش تھے۔ ان دونوں کی روحیں اک نئی خوشی اور نئی چمک سے سرشار تھیں۔ ’’چلو آج ہم تینوں کہیں باہر کھانا کھاتے ہیں۔‘‘ روشین نے کھلکھلا کے کہا۔ ’’تینوں…؟‘‘ وہ حیران ہوا‘ جان بوجھ کر۔ ’’ہاں‘ میں آپ اور ہماری محبت کی نشانی۔‘‘ وہ بولی۔ ’’ہاں جی اب تو ہر جگہ یہ ننھے موصوف ساتھ ہوں گے‘ ہماری خوبصورت بیوی کے پاس‘ ہمارے لئے بالکل وقت نہیں ہو گا۔‘‘ اس نے مصنوعی طرز پہ منہ پھلایا۔ ’’اتنے سال تو بیوی کا سر کھایا ہے‘ اچھا ہے اب بیچاری بیوی کا دھیان ہی بٹا رہے گا۔ اس کے کام‘ اس کی باتیں‘ اس کی شرارتیں‘ ہماری زندگی کتنی مصروف ہو جائے گی ناں راحیل۔‘‘ وہ تخیل کی مدد سے بہت آگے جانے کی کوشش میں گم تھی۔ ’’جی ہاں‘ پھر آپ سے اپوائنمنٹ لینی پڑے گی‘ ملنے اور دیکھنے کے لئے بھی۔‘‘ راحیل نے کہا۔ ’’ایسی جلنے والی باتیں نہیں کرو راحیل! میں تمہاری بھی اتنی ہی رہوں گی‘ جتنی کہ اس کی‘ وہ ہماری زندگی کا اک نیا اور خوبصورت باب ہو گا۔ ہمیں وہ بالکل بھی الگ نہیں کرے گا‘ بلکہ ہمیں اور نزدیک لے آئے گا‘ اور ہمیں تاعمر ایک ایسی زنجیر میں باندھ دے گا کہ ہم مر کے بھی الگ نہیں ہو پائیں گے۔‘‘ وہ اک خوشنما احساس کے زیر اثر بولی۔ راحیل لمحہ لمحہ اس کے خوبصورت احساسات کو دیکھ کر انجوائے کر رہا تھا۔ ’’کیا کھائو گی؟ چائینز یا دیسی؟‘‘ ’’کچھ چٹپٹا‘ باربی کیو کا موڈ ہے۔‘‘ وہ فوراً بولی اور راحیل نے مسکرا کر گاڑی ایک باربی کیو ریسٹورنٹ کی طرف موڑ دی۔ …٭٭٭… ’’کہاں گئے ہیں موصوف اور کب لوٹے گا؟‘‘ عادل‘ عدنان کی غیر موجودگی کی خبر سن کر صوفے پہ ہی ڈھے گیا تھا‘ اور ساتھ ہی کھلونوں سے کھیلتے ڈیڑھ سالہ اذین کو اٹھا کے اپنے اوپر بٹھا دیا تھا۔ اذین اس کا مانوس چہرہ دیکھتے ہی خوشی سے ہاتھ پائوں ہوا میں لہرانے لگا‘ اور اس کے چہرے پہ ایک بھرپور مسکراہٹ آ گئی۔ ’’کسی میٹنگ میں گئے تھے۔ دفتر سے تو چھ بجے فارغ ہو گئے تھے‘ پھر کسی کے ساتھ میٹنگ تھی۔‘‘ فاطمہ اپنے امریکن سٹائل کچن میں چائے رکھتے ‘ اور اسے دیکھتے ہوئے بولی۔ چھوٹے سے سلیب کے پارٹیشن کے علاوہ پورا کچن کھلا تھا‘ یا پھر یہ کہنا درست ہو گا کہ کچن لائونج ہی کا حصہ تھا۔ ’’یہ راتوں کو کون سے دفتر لگنے لگے ہیں‘ ذرا نظر رکھا کرو اپنے مجازی خدا پر‘ کہیں کسی بلبل کی زلفوں کا اسیر نہ ہو گیا ہو۔‘‘ عادل نے اذین کو کھلاتے اور پچکارتے ہوئے کہا۔ ’’اتنا تو بیوقوف وہ شکل سے بھی نہیں لگتا کہ میرے جیسی بیوی کو چھوڑ کے ادھر ادھر منہ مارتا پھرے۔‘‘ فاطمہ نے بلا کے اعتماد کے ساتھ کہا۔ ’’ایک تو تم بیویاں بلا کی پرائوڈ ہوتی ہو‘ زعم اور غرور تو تمہارے اندر سے ایسے ٹپکتا ہے‘ جیسے گلاب جامن اور جلیبی سے شیرہ۔‘‘ عادل نے چڑھائی کی۔ ’’ہاں تو ہونا بھی چاہئے‘ احساس کمتری میں جکڑی بیویاں خود کو جلا جلا کے کالا کر ڈالتی ہیں۔ نیند کی گولیاں کھا کھا کے سوتی اور موٹی ہوتی ہیں۔ اور مجبوراً شوہر کو کسی اور نازنین کی طرف مائل ہونا پڑتا ہے۔‘‘ فاطمہ کپ میں چائے ڈال کے اس کے پاس لے آئی۔ وہ اذین کو اٹھا کے سیدھا ہو کے بیٹھ گیا۔ ’’تو تمہارا خیال ہے تم خوبصورت ہو۔‘‘ وہ مگ اٹھا کے اسے چڑانے کی غرض سے بولا۔ ’’تو کیا نہیں ہوں؟‘‘ وہ بھی پرُاعتماد تھی۔ ’’پتہ نہیں‘ کبھی غور سے نہیں دیکھا۔‘‘ وہ ٹال گیا۔ ’’جانے دو‘ جانے دو‘ بڑے آئے مجھ سے بحث میں جیتنے والے‘ میں کوئی مس شانزے نہیں کہ تمہاری ہر بات پہ یقین کر لوں‘ اور تمہاری باتوں میں آ جائوں۔ بھول گئے یونیورسٹی ڈبیٹنگ سوسائٹی کی صدر رہ چکی ہوں۔‘‘ فاطمہ نے بسکٹ اٹھا کے اذین کے ہاتھ میں پکڑائے۔ ’’ہاں کیسے بھول سکتا ہوں‘ میں ہی تو تھا‘ جو تمہاری تقریروں پہ تالیاں بجانے کے لئے فٹ پاتھ سے لوگ پکڑ پکڑ کر لاتا تھا‘ اور فنکشن کے اختتام پر انہیں دس دس روپے بھی اپنی جیب سے دیتا تھا۔‘‘ عادل اسے چھیڑ کے بہت لطف اٹھاتا تھا۔ فاطمہ نے کشن اٹھا کے اسے دے مارا۔ اس نے سائیڈ پہ ہو کے خود کو بچا لیا۔ ’’کب ملوا رہے ہو اپنی مس ورلڈ سے‘ ڈھیروں ڈھیر شکایتیں کرنی ہیں تمہاری۔‘‘ وہ بولی۔ ’’کہو تو ابھی بلا لیتا ہوں۔ ہر وقت تو گاڑی میں سوار رہتی ہے۔ اس کے باپ کے پاس پانچ چھ گاڑیاں ہیں۔ اسے گھومنے پھرنے‘ شاپنگ کرنے کا بہت شوق ہے۔‘‘ عادل نے کہا۔ ’’اوہ تو اڑتی تتلی پھنسائی ہے‘ افورڈ کر سکو گے اسے؟‘‘ فاطمہ نے سنجیدگی سے کہا۔ ’’آج کل کے زمانے میں ہر کوئی خود کو خود ہی افورڈ کرتا ہے بی بی! اتنی اچھی جاب کر رہی ہے۔ والدین کی بھی اکلوتی ہے۔ میں نے تو فائدے کا سودا کیا ہے۔ گھاٹا تو اسے ہے۔‘‘ عادل نے اعتراف کیا۔ ’’چاچو!‘‘ زارا دوڑتی ہوئی آئی اور عادل کے گلے لگ گئی۔ ’’ارے میری باربی کیسی ہے؟‘‘ اس نے اس کے موٹے سے گال پہ پیار کیا۔ ’’چاچو آپ نے پرامس کیا تھا کہ آپ مجھے نئی ڈول لے کر دیں گے‘ لے دیں ناں۔‘‘ زارا نے ہمیشہ کی طرح فرمائش کی۔ ’’ارے یہ کون سی مشکل بات ہے‘ ابھی لے چلتا ہوں۔‘‘ عادل اٹھ گیا‘ اور زارا کو اس نے کندھے پہ اٹھا لیا۔ فاطمہ جو دوبارہ کچن میں آ کے ڈنر کی تیاری کرنے لگ گئی تھی‘ اس نے عادل کو منع کیا۔ ’’عادل! مت لے کر دو اسے باربی ڈول‘ بھر دیا ہے تم نے اس کا کمرہ کھلونوں سے۔‘‘ ’’تم چپ رہو‘ تمہارے لئے نہیں لینے جا رہا۔‘‘ وہ سلاد کی گاجر اٹھا کے منہ میں ڈالنے لگا۔ اذین کے رونے کی آواز آئی۔ عادل نے مڑ کے اس کی طرف دیکھا۔ ’’ارے جہاز کے کپتان کو تو ہم بھول ہی گئے‘ آ جا میرے چاند۔‘‘ عادل نے لپک کے اذین کو اٹھا کے کندھے پہ بٹھا دیا۔ ’’اسے مت لے جائو‘ پیک بھی نہیں کیا اسے۔‘‘ فاطمہ چیختی رہی‘ مگر عادل کہاں رکنے والا تھا۔ ’’مجھے یہ تحفہ بنا پیک کیے ہی قبول ہے‘ زیادہ سے زیادہ گاڑی کی سیٹ ہی دھو دے گا ناں؟ بچے تو فرشتے ہوتے ہیں‘ اور فرشتہ میری سیٹ دھوئے اس سے بڑھ کر کیا خوش نصیبی ہو گی میری۔‘‘ وہ جاتے جاتے کہہ گیا اور فاطمہ اپنی مسکراہٹ روک نہ پائی۔ ’’کھانا ہمارے ساتھ کھانا اور جلدی آنا۔‘‘ اس نے تاکید کی۔ ’’بگاڑ دو گے تم میرے بچوں کو اپنی طرح۔‘‘ وہ خود کلامی کے سے انداز میں بولی‘ اور دوبارہ اپنے کام میں مصروف ہو گئی۔ چھوٹی چھوٹی خوشیوں کو قید کر کے عادل نے ان کی زندگی کو اور خوبصورت بنا ڈالا تھا۔ …٭٭٭… ’’تو تم نے اپنے فرینڈ اور ان کی وائف کو میرے بارے میں سب بتا دیا ہے۔‘‘ لنچ کے دوران کیفے ٹیریا میں بیٹھی شانزے اس سے مخاطب تھی۔ ’’ہاں‘ لیکن وہ لوگ صرف فرینڈز نہیں ہیں‘ میں عدنان اور فاطمہ پچھلے دس سالوں سے بہت کلوز ہیں‘ ہم نے یونیورسٹی لائف اکٹھے انجوائے کی ہے‘ دکھ سکھ ساتھ دیکھے ہیں۔ ان کے اور میرے بیچ میں بہت فرینک نیس ہے۔‘‘ عادل نے کہا۔ ’’یونیورسٹی لائف میں تو ہر دوسرا بندہ ایک دوسرے کے کلوز ہوتا ہے‘ لیکن تمہارا اور میرا رشتہ بہت پرسنل ہے‘ میں نہیں چاہتی تم اسے ہر کسی کے ساتھ شیئر کرتے پھرو۔‘‘ شانزے کے چہرے پر ازلی اعتماد اور غصہ تھا۔ وہ ہمیشہ جو کہتی تھی‘ اس پہ کبھی پشیمان نہیں ہوتی تھی۔ اس کی ذات کا اعتماد اسے کبھی پشیمان یا زیر ہونے نہیں دیتا‘ وہ خود کو ہمیشہ ٹھیک سمجھتی تھی۔ ’’وہ ہر کسی نہیں ہیں شانزے‘ وہ عدنان اور فاطمہ ہیں‘ وہ میری ذات اور میری زندگی کا بہت اہم حصہ ہیں۔ وہ مجھ سے الگ نہیں ہیں۔‘‘ عادل اسے سمجھانے کی کوشش کر رہا تھا۔ ’’اور میں کیا ہوں عادل؟ میری کیا جگہ ہے تمہاری زندگی میں؟ مجھے کہاں پہ رکھو گے؟ تم تو ہر وقت اپنے دوستوں میں رہو گے‘ میں کیا کروں گی۔‘‘ وہ اداسی سے بولی۔ ’’تم میری زندگی ہو شانزے‘ مائی لائف! تم جگہ کی بات کرتی ہو‘ میری تو پوری زندگی تمہاری ہے‘ تمہارے نام ہے سارا کچھ‘ فاطمہ یا عدنان یا کوئی بھی تمہاری جگہ نہیں لے سکتا۔‘‘ عادل نے اسے یقین دلایا۔ ’’لیکن پھر بھی عادل‘ میں تمہیں کسی کے ساتھ شیئر نہیں کر سکتی‘ میں بہت پوزیسو ہوں‘ بہت حساس ہوں۔‘‘ اس نے اعتراف کیا۔ ’’ارے میری جان! تم ان دونوں سے ملو تو سہی‘ وہ ایسے بالکل نہیں‘ وہ تو یوں لگتا ہے کسی اور دنیا کے باسی ہیں۔ ان کے گھر کوئی ٹینشن‘ لڑائی‘ جھگڑا نہیں ہوتا۔ بس پیار ہوتا ہے‘ مسکراہٹ‘ خوشی اور قہقہے ہوتے ہیں۔ وہ دونوں میاں بیوی تو لگتے ہی نہیں‘ محلے دار لگتے ہیں۔ فاطمہ کچھ میں کام کر رہی ہوتی ہے‘ عدنان سیٹیاں مار مار کے اسے اپنی طرف متوجہ کرتا ہے۔ عدنان دفتر کا کام کر رہا ہوتا ہے‘ فاطمہ اسے گانے گا گا کے بلاتی ہے۔ ہر کام دونوں باری باری کرتے ہیں۔ اگر بچوں نے واش روم جانا ہو تو ایک بار فاطمہ لے جائے گی اگلی بار عدنان‘ ایک وقت کا کھانا عدنان باہر سے لائے گا‘ تو رات کا کھانا فاطمہ بنائے گی۔ دفتر جاتے ہوئے فاطمہ گاڑی چلائے گی‘ آتے ہوئے عدنان‘ ان کی زندگی بہت آئیڈیل ہے شانزے۔‘‘ عادل نے اسے تفصیل بتائی۔ ’’اچھا اچھا اب اور تعریفین مت کرو میں جلنے لگوں گی۔‘‘ وہ بسوری۔ ’’کب ملو گی ان سے بہت زور دیا ہے فاطمہ نے۔‘‘ ’’کبھی مل لوں گی۔‘‘ اس نے ٹالنے کی کوشش کی۔ ’’پرسوں ان کی آٹھویں ویڈنگ اینورسری ہے‘ ہم دونوں چلیں گے ان کو سرپرائز وِش کریں گے۔‘‘ ’’دیکھو ں گی اگر فارغ ہوئی تو چلوں گی۔‘‘ شانزے نے پھر ٹال مٹول کی۔ عادل خاموشی سے کھانا کھانے لگا۔ شانزے کو منانا بہت مشکل کام تھا۔ …٭٭٭… ’’راحیل ہم بے بی کے لئے کون سے کمرے کی نرسری بنائیں؟ اس والے کی یا پھر اپنے بیڈ روم کے پاس والے کی۔‘‘ روشین ہاتھ میں ڈائری اور قلم پکڑے کمپیوٹر پہ کام کرتے راحیل کے پاس آئی۔ ’’جو تمہاری مرضی بنا لو‘ بس یہ کوشش کرنا کہ ہمارے کمرے کے آس پاس ہو۔‘‘ راحیل نے کمپیوٹر سکرین کی طرف دیکھتے دیکھتے جواب دیا۔ ’’پھر اپنے کمرے کے ہی ایک کونے میں کیوں نہ بنا لوں؟ یوں بھی میں اسے اپنے سے دور تھوڑی رکھ پائوں گی۔‘‘ روشین کے چہرے پہ اک روشنی سی پھوٹی۔ ’’تمہیں جو کرنا ہے کرو میری جان! مجھے کوئی اعتراض نہیں۔‘‘ راحیل کے ہر ہر لفظ میں اس کے لئے پیار تھا‘ تنہائی کے ان آٹھ برسوں میں اگر راحیل کی بے پناہ محبت نہ ہوتی‘ تو شاید اس کے لئے زندہ رہنا مشکل ہو جاتا۔ ’’اچھا آپ کا تو جیسے وہ کچھ لگتا ہی نہیں ہے ناں‘ آپ اسی طرح بس دفتر کے کام کرتے رہنا‘ دفتر ہی آپ کی زندگی ہے ‘ اور دفتر ہی رشتے دار۔‘‘ وہ خفا ہوئی۔ ’’اوہو! حکم کریں میری جان! کیا کرنا ہے‘ میری تو جان بھی حاضر ہے آپ دونوں کے لئے۔‘‘ وہ کمپیوٹر سے دھیان ہٹا کے بیوی کی طرف متوجہ ہوا۔ ’’میری مدد کریں راحیل! مجھے اپنے بچے کے ویلکم کے لئے بہت… بہت… بہت کچھ کرنا ہے۔‘‘ وہ کھڑے کھڑے اپنے پائوں پہ گھوم گئی تھی۔ راحیل نے اٹھ کے اسے تھام لیا۔ ’’آرام سے… آرام سے میری زندگی! آرام سے… آپ حکم کرو‘ راحیل کی جان بھی آپ کی خدمت میں حاضر ہے۔‘‘ ’’بولئے کیا کرنا ہے؟‘‘ وہ اس کے ہمراہ کمرے کے اندر آ گیا تھا۔ ان دونوں کا کمرہ ابھی تک اسی طرح تھا‘ جس طرح ان کی شادی کے وقت تھا۔ نیا نویلا اور روشن روشن! روشین نے شادی کے بعد کے کئی خوبصورت لمحے سامنے کی دیوار پہ چھوٹی چھوٹی فریم شدہ تصویروں کی صورت لگا دیئے تھے۔ اس نے اپنی چھوٹی سی جنت کو خوب سجا کے رکھا تھا۔ ’’یہ میں کچھ پیارے پیارے بچوں کی تصویریں لے آئی ہوں راحیل! پلیز انہیں سامنے والی الماری پہ‘ واش روم کے اور کمرے کے دروازے پہ لگا دیں۔‘‘ روشین نے پوسٹر سائز تصاویر اس کے حوالے کیں۔ ’’اس سے کیا ہو گا؟‘‘ وہ تصاویر دیکھتے ہوئے گویا ہوا۔ ’’اس سے یہ ہو گا کہ ہمہ وقت میری آنکھوں کے سامنے خوبصورت اور پیارے پیارے بچوں کی تصویریں ہوں گی‘ اور میرا بچہ بھی ان کی طرح خوبصورت ہو گا۔‘‘ وہ ہر لمحہ کچھ اچھے اچھے تخیلات کے گھیرے میں رہنے لگی تھی۔ ’’لیکن میرا مشورہ ہے کہ آپ کو اپنی تصاویر ہر جگہ لگائے رکھنی چاہئیں تاکہ ہمارا آنے والا بچہ آپ کی طرح ہو‘ بالکل آپ جیسی آنکھیں‘ آپ جیسے ہونٹ‘ اور ایک پیارا سا دل۔‘‘ راحیل نے اس کی ننھی سی ناک کو انگلی سے چھوا۔ ’’مجھے تو بالکل آپ کے جیسا بیٹا چاہئے۔‘‘ وہ بولی۔ ’’مطلب موٹا اور گول مٹول۔‘‘ وہ خود ہی اپنا مذاق اڑا رہا تھا‘ روشین نے مکا بنا کے اس کے کندھے پہ مارا۔ ’’دکھائو مجھے تصاویر‘ میں لگا دیتا ہوں۔‘‘ وہ تصاویر اٹھا کے روشین کی بتائی جگہوں پہ چسپاں کرنے لگا‘ کچھ ہی دیر میں الماری کے اوپر‘ دیوار پر‘ دروازوں پر پیارے پیارے سفید غیر ملکی بچوں کی تصاویر مسکرانے لگیں۔ روشین اپنے تخیل کی انگلیوں سے اپنے بچے کے خال و خد دیکھ رہی تھی۔ اپنی گود میں نرم و ملائم وجود کو سمیٹ کے وہ اسے دیکھ رہی تھی۔ سفید گول نازک سا چہرہ سیاہ آنکھوں کے اوپر بھنوئوں کی پتلی سی لکیر‘ دو ننھی ننھی گلابی مٹھیاں‘ ہوا میں لہراتی ہوئی اور چھوٹا سا وجود۔ ’’اور کوئی حکم…؟‘‘ راحیل کی آواز اسے باہری دنیا میں واپس کھینچ لائی تھی۔ ’’آج شام سے ہم نے شاپنگ شروع کرنی ہے‘ بہت ساری شاپنگ ہے اور بچے کی آمد میں فقط آٹھ ماہ۔ اس کے آنے سے پہلے ہم نے پورا گھر اس کی چیزوں سے بھر دینا ہے۔ اس کے کپڑے‘ اس کے بستر‘ اس کے کھلونے‘ اس کے تولیے‘ ہر جگہ بس وہ ہی وہ‘ وہ ہی وہ‘ نہ میں نہ آپ‘ فقط ہمارا بچہ۔‘‘ روشین کی خواہش پہلے محبت کا روپ دھاری پھر دیوانگی کا اور اب دیوانگی انتظار میں ڈھل گئی تھی۔ وہ بے صبری سے منتظر تھی۔ …٭٭٭… ’’لو بھئی مل لو ان سے یہ ہیں شانزے اور شانزے یہ ہیں عدنان اور فاطمہ‘ اور ان کے دو پیارے پیارے بچے۔‘‘ عادل ان کا تعارف کروا رہا تھا۔ شانزے ہاتھ ملا کے سب سے ملی‘ بلیک کلر کے جارجٹ سوٹ میں وہ بہت دیدہ زیب لگ رہی تھی۔ ’’تم سے بہت بہت شکایتیں کرنی ہیں اس گدھے کی۔ اس کے ذرا کان کھینچ کے رکھا کرو۔‘‘ فاطمہ اپنی ازلی فرینک نیس کے تحت شانزے سے اس کی شکایت کر رہی تھی۔ ’’میاں اب تم بھی گئے کام سے‘ ہماری ہی طرح۔‘‘ عدنان نے عادل کے کندھے پہ دھپ دے مارا‘ وہ مسکرایا۔ ’’پتہ ہے شانزے ! یہ موصوف یونیورسٹی کی ہر لڑکی کو دیکھ کر سیٹیاں مارتے تھے‘ ہر ہفتے نئی گرل فرینڈ کے ساتھ ڈیٹ مارتے تھے‘ میری سہیلیوں کو چٹھیاں لکھ لکھ کر اپنی محبت کا یقین دلاتے تھے‘ نجانے کتنی لڑکیوں سے جینے مرنے کے وعدے کر چکے تھے۔‘‘ فاطمہ نے لائونج میں بیٹھتے ہی مزاح کے طور پر کہا۔ ’’کیا واقعی عادل…؟‘‘ شانزے نے اسے گھورا‘ وہ سادگی سے مسکرا رہا تھا۔ ’’ارے نہیں نہیں شانزے جی! فاطمہ مذاق کر رہی ہے۔ عادل تو بہت شریف النفس اور ریزرو قسم کا بندہ تھا۔ اس سے تو کوئی لڑکی مکمل طور پہ دیکھی بھی نہیں جاتی تھی۔‘‘ عدنان نے حقیقت بتائی۔ ’’ایک بار میں نے ایک لڑکی کو دیکھ کر کہا۔ ’’دیکھو عادل! اس پہ سبز چنری کتنی پیاری لگ رہی ہے‘ تو کہنے لگا کہ یہ چنری کیا ہوتی ہے؟‘‘ عدنان کی بات پہ فاطمہ اور عادل دونوں کھلکھلا کے ہنس دیئے۔ شانزے نے فقط مسکرانے پہ اکتفا کیا۔ ’’ہاں واقعی بہت بدھو تھا‘ کیفے ٹیریا میں جہاں سبھی لڑکے لڑکیوں کو لائن مارنے جاتے تھے‘ وہاں یہ موصوف بیٹھ کے زوالوجی کے پریکٹیکل لکھتے تھے۔ کوئی لڑکی بات بھی کرے تو باجی باجی کہہ کے اسے روانہ کر دیتے تھے۔‘‘ فاطمہ نے مزید اضافہ کیا۔ اس کے بعد بھی وہ دونوں بہت دیر تک عادل کی باتیں کرتے رہے‘ ہنستے رہے‘ کھلکھلاتے رہے‘ آپس میں ہنسی مذاق کرتے رہے‘ تالیاں مارتے اور جو کس شیئر کرتے رہے‘ لیکن وہ ان میں نہیں تھی۔ اسے عادل کا اس طرح ان لوگوں سے ہنسی مذاق کرنا شانزے کو بالکل پسند نہیں آ رہا تھا۔ وہ ان تینوں کے درمیان خود کو بہت ان فٹ محسوس کر رہی تھی۔ بہت ان ایزی محسوس کر رہی تھی۔ اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ کیا کرے؟ کیا بولے؟ کہاں ہنسے؟ کہاں مسکرائے؟ اجنبیت کا اک نادیدہ احساس اس کے رُوم رُوم میں پیدا ہو رہا تھا۔ ’’میں کیوں آ گئی عادل کے ساتھ یہاں؟ اس سے بہتر تھا کہ میں کسی شاپنگ پلازہ میں وقت گزار لیتی یا کہیں فاسٹ فوڈ لے لیتی‘ عادل کو بھی مجھے یہاں گھسیٹ لانا لازمی تھا؟ اس کے دوست ہیں‘ وہ خود ہی نبھاتا پھرے دوستیاں۔‘‘ وہ کھانے کی ٹیبل پہ بیٹھی اسی طرح اندر ہی اندر کڑھ رہی تھی۔ فاطمہ نے بھی اس کا گریز اور اس کی اداسی بخوبی محسوس کی‘ اور وہ مستقل اسے دور کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔ لوازمات کی چیزیں باری باری اٹھا کے اس کے سامنے پیش کر رہی تھی۔ بالآخر اس کا صبر جواب دے گیا‘ اور وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔ ’’میں جا رہی ہوں عادل! مجھے ایک ضروری کام یاد آ گیا ہے۔‘‘ وہ اٹھی اور اپنا پرس سنبھالنے لگی۔ ’’کیا ہوا شانزے؟ کہاں جا رہی ہو؟‘‘ فاطمہ نے پیار سے پوچھا۔ ’’وہ مجھے یاد آ گیا کہ مجھے ممی ڈیڈی کے ساتھ کسی فنکشن میں جانا تھا‘ میں پھر کبھی آ جائوں گی۔‘‘ وہ بہانہ بنا کے بولی۔ ’’میں چلوں شانزے۔‘‘ عادل اپنی جگہ سے اٹھا۔ ’’نہیں اٹس اوکے‘ تم انجوائے کرو‘ میں چلی جائوں گی۔‘‘ وہ فوراً یہ کہتی پلٹی اور چلی گئی۔ عادل‘ فاطمہ اور عدنان تینوں ایک دوسرے کا چہرہ دیکھتے رہ گئے۔
’یہی کرنا تو مشکل ہے دوست! یہی کہنا تو بہت مشکل ہے۔‘‘ وہ نفی میں سر ہلانے لگی۔ ’’تو پھر یہ کب تک چلے گا؟ میں تو کہتی ہوں تم کسی طرح اسے بھلانے کی کوشش کرو‘ کچھ تو کرو کہ اس کا خیال تمہارے دل سے نکل جائے‘ ورنہ تم نہ پڑھائی مکمل کر پائو گی‘ اور نہ ہی سکون سے رہ پائو گی۔‘‘ ماریہ نے مشورہ دیا۔ ’’اسے بھلا دوں‘ جس کے علاوہ ساری دنیا بھلا بیٹھی ہوں؟ اس کے سوال کا کوئی جواب ماریہ کے پاس نہ تھا۔ ’’تم پاگل ہو گئی ہو ماہا حسن‘ بالکل پاگل‘ جگہ پہ نہیں ہے تمہارا دماغ‘ توازن کھو بیٹھا ہے اپنا۔‘‘ ماریہ اسے دیر تک ٹوکتی رہی اور وہ فقط مسکراتی رہی۔ اسے اپنی محبت پہ کوئی پچھتاوا نہ تھا۔ اسے اپنی محبت پہ ناز تھا‘ زعم تھا‘ فخر تھا اور یہ فخر اس کی زندگی کا سہارا تھا۔ ٭٭٭… ’’یہ دیکھو راحیل! میں ناموں کی کتاب لے آئی ہوں‘ پوری دنیا میں رکھے جانے والے اسلامی نام۔‘‘ روشین نے ایک موٹی سی کتاب اس کے سامنے رکھی‘ وہ جو ابھی دفتر سے واپس آ کے بیڈ پہ لیٹا تھا‘ متوجہ ہوا۔ ’’اچھا جی تو میری خوبصورت بیوی نے کیا کیا نام سلیکٹ کیے؟‘‘ وہ بولا۔ ’’بہت بہت سے پیارے نام ہیں‘ نئے ہیں‘ جیسے اذان‘ اریز‘ عمار‘ عاشان‘ عالیان وغیرہ وغیرہ۔‘‘ ’’تو کون سا نام فائنل کیا آپ نے؟‘‘ ’’ایسے کیسے فائنل کر سکتی ہوں کوئی نام؟ آپ نے بھی اپنی رائے دینی ہے۔‘‘ وہ بولی۔ ’’ہاں تو پہلے یہ طے کرنا پڑے گا ناں کہ ہمیں کس طرح کا نام چاہئے؟ کس حرف سے ہو؟ اور کس طرح کا ہو؟ چھوٹا ہو‘ بڑا ہو‘ یا پھر درمیانہ؟‘‘ راحیل نے ہمیشہ کی طرح اپنی فلاسفی شروع کی۔ ’’منیجر صاحب! یہ چھوٹا بڑا‘ درمیانہ‘ پلس مائنس اپنے پاس سنبھال کے رکھیں‘ مجھے تو بس ایسا نام چاہئے جس میں آپ کے نام کی گونج ہو۔‘‘ روشین کے پور پور میں شوہر کے لئے پیار تھا۔ ’’تو پھر ایسا کرتے ہیں شرجیل یا عدیل یا شمیل رکھتے ہیں نام بچے گا۔‘‘ ’’کیا آپ نے بھی پرانے اور سڑے ہوئے نام نکال رکھے ہیں‘ میں نے ایک نیا نام سوچا ہے۔‘‘ اس کے چہرے پہ مسکراہٹ تھی۔ ’’اچھا جی وہ کون سا؟‘‘ وہ ہمہ تن گوش تھا۔ ’’اَبیل… اَبیل علی خان جیسے آپ ہیں راحیل علی خان‘ کتنا پیارا لگے گا ناں۔‘‘ اس نام کی گونج روشین اپنے اندر سن رہی تھی۔ ’’واہ نام تو بہت پیارا ہے‘ مطلب کیا ہے اس کا‘ اور یہ لڑکے کا نام ہے یا لڑکی کا؟‘‘ راحیل کو یہ نام حقیقتاً بہت پسند آیا تھا۔ ’’اَبیل کا مطلب ہے جنت کا پھول‘ اور یہ نام لڑکی کا بھی ہو سکتا ہے‘ لڑکے کا بھی‘ دونوں پر سوٹ کرے گا‘ جس طرح فرخ نام کے لڑکے بھی ہوتے ہیں‘ لڑکیاں بھی‘ مصباح نام کے لڑکے بھی ہوتے ہیں‘ لڑکیاں بھی‘ اسی طرح ہماری اَبیل یا ہمارا اَبیل کیا فرق پڑے گا۔‘‘ روشین نے اسے سمجھایا۔ ’’چلو تو پھر ڈن ہے۔ یہ نام بہت پیارا ہے‘ اور مبارک نام ہے‘ اور الگ بھی‘ چلیں جی آج نام بھی فائنل ہو گیا۔ امی کو لاہور فون کر کے بتا دینا تم نے نام سلیکٹ کر لیا ہے‘ اور انہیں کہو کہ کچھ دنوں کے لئے آ جائیں‘ اور تمہاری ان ایکٹی وٹیز میں تمہاری مدد کریں۔ اس حالت میں تمہارا اتنا چلنا پھرنا ٹھیک نہیں۔‘‘ وہ اسے سمجھا رہا تھا۔ ’’امی کو مت بتانا کہ میں نے بچے کے لئے شاپنگ یا نرسری کی ڈیکوریشن شروع کر دی ہے‘ پتہ ہے تمہیں بڑی بوڑھیاں روکتی ہیں قبل از وقت کوئی تیاری کرنے سے واہمے ہوتے ہیں‘ ان کے دل میں بہت‘ ان کا خیال ہوتا ہے کہ بچہ ہو جائے پھر سب آ جاتا ہے۔‘‘ روشین نے بتایا۔ ’’ہاں تو اگر بڑے بوڑھے کہتے ہیں‘ تو ٹھیک ہی کہتے ہوں گے‘ تم فی الحال یہ تیاریاں روک دو روشین۔‘‘ راحیل کے دل میں بھی اک خدشے نے سر اٹھایا۔ ’’راحیل میں اس خوبصورت عرصے کو انجوائے نہ کروں؟ جسے اتنی مشکل سے پایا ہے‘ اس کی آمد کی خوشیاں نہ منائوں؟ اللہ نے مجھے عطا کیا ہے‘ تو وہ اس کی حفاظت بھی کرے گا‘ آپ فکر کیوں کرتے ہیں؟ یہ میری خوشی ہے راحیل‘ یہ میری زندگی کا سب سے خوبصورت تجربہ ہے۔‘‘ اس خوشگوار تجربے کا ہر ہر لمحہ اس کی آنکھوں میں چمک رہا تھا‘ راحیل میں اسے روکنے کی بالکل ہمت نہ تھی۔ ’’اوکے میری زندگی جو آپ چاہو وہ کرو‘ میں آپ کو نہیں روکوں گا۔‘‘ وہ بولا‘ روشین مسکرا دی۔ ’’پوچھ سکتا ہوں‘ کل تمہارے اس طرح چلے آنے کی وجہ کیا تھی؟ فاطمہ اور عدنان نے کتنا گلٹی فیل کیا۔‘‘ اگلے دن وہ آفس پہنچتے ہی سیدھا شانزے کے ڈیپارٹمنٹ میں آ گیا تھا۔ ’’بتایا تو تھا کہ کام تھا کوئی ضروری‘ اس لئے چلی آئی اور یوں بھی میں بہت ان ایزی فیل کر رہی تھی۔‘‘ وہ بہت مطمئن لہجے میں بولی۔ ’’کیا کہا‘ ان ایزی فیل کر رہی تھیں؟ مگر کیوں؟ فاطمہ اور عدنان اتنے اچھے ہیں‘ اتنے محبت کرنے والے اور کیئرنگ۔‘‘ عادل نے گویا اسے یقین دلانا چاہا۔ ’’تو میں نے کب کہا کہ وہ لونگ اور کیئرنگ نہیں‘ بس مجھے ان کی کمپنی پسند نہیں آئی۔‘‘ وہ صاف گوئی سے بولی۔ ’’پوچھ سکتا ہوں کیوں؟‘‘ وہ غصے سے بولا۔ ’’کیونکہ وہ تمہارے دوست ہیں‘ تمہاری ٹائپ کے ہیں‘ تم انہیں برسوں سے جانتے ہو‘ میرا ان سے کبھی کوئی واسطہ نہیں پڑا‘ اور تم میرے اوپر اپنا آرڈر لاگو نہیں کر سکتے کہ میں ان سے ملوں جلوں‘ یا ان سے سلام دعا رکھوں۔‘‘ وہ انتہائی کرخت انداز میں گویا ہوئی‘ وہ تلملا سا گیا تھا۔ ’’میں نے تمہیں فورس نہیں کیا تھا‘ میں تو بس ان کو اپنی پسند دکھانے لے گیا تھا‘ مجھے کیا پتہ تھا کہ میری پسند کو میرے دوست اور ان کی کمپنی ناگوار گزرے گی۔‘‘ وہ بولا۔ ’’میں نے تو اس طرح کے دوست کہیں نہیں دیکھے‘ بلاوجہ ہنسنا‘ بلاوجہ تالیاں مارنا‘ سوری ٹو سے عادل‘ لیکن مجھے یہ بالکل پسند نہیں کہ تم اس کی وائف سے اس طرح فرینک ہو‘ لوئر کلاس کے لوگوں کو یوں بھی تعلقات بڑھانے اور غیر ضروری رابطے بڑھانے کا شوق ہوتا ہے۔‘‘ شانزے نے ذومعنی انداز میں کہا۔ ’’کیا مطلب ہے تمہارا؟ کس کی بات کر رہی ہو تم؟‘‘ ’’اسی مس فاطمہ کی‘ بہت شوق ہے ناں اسے اپنے ہزبینڈ کے فرینڈ سے تعلقات بڑھانے کا‘ بے وجہ اس کے پاس بیٹھ کر اس کی پلیٹ میں کیچپ ڈال کے سینڈوچ کھانے کا۔‘‘ شانزے کے لفظ لفظ میں طنز کی کاٹ تھی۔ وہ تلملا گیا تھا۔ اپنے اوپر مشکل سے کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ ’’مائنڈ یوئر لینگوئج شانزے! فاطمہ ایسی نہیں ہے۔ میں اسے پچھلے دس برس سے جانتا ہوں۔ ہم نے ساتھ کھایا ہے‘ پیا ہے‘ وہ مجھے دوست اور بھائی کی حیثیت سے محبت کرتی ہے اور کچھ نہیں۔‘‘ وہ بولا۔ ’’اب بھی مجھ سے اس کی وجہ سے جھگڑ رہے ہو‘ عادل ہوش میں رہ کے مجھ سے بات کرو‘ اور اپنا لہجہ درست رکھو‘ آج تک میرے اپنے فادر نے بھی اس لہجے میں مجھ سے بات نہیں کی۔‘‘ غصہ شانزے کی آنکھوں میں بھی چھلک رہا تھا۔ ’’اگر تمہارے فادر تم سے کبھی اس لہجے میں بات کر کے تمہیں سمجھا دیتے ناں تو شاید آج تم کسی اور سے اس لہجے میں بات نہ کرتیں۔ کسی پہ تہمت لگانے سے پہلے سوچ لیا کرو کہ اس کا کیا اثر پڑ سکتا ہے‘ کیونکہ اگر مجھے اپنا کچھ سمجھتی ہو گی ناں تو یقینا میرے مزاج کا اثر تم پہ بھی پڑے گا‘ اور میرے دل کی بری حالت تم اپنے دل پہ بھی جھیلو گی۔‘‘ انگلی سے تنبیہ کرتا ہوا وہ شانزے کے آفس سے باہر نکل گیا‘ دیر تک شیشے کا دروازہ ہلتا رہا۔ شانزے کو کوئی پشیمانی نہیں تھی‘ کیونکہ پشیمان ہونا اس نے سیکھا ہی نہیں تھا۔ …٭٭٭… چپ کے عالم میں وہ تصویر سی صورت اس کی بولتی ہے تو بدل جاتی ہے‘ رنگت اس کی سیڑھیاں چڑھتے اچانک وہ ملی تھی مجھ کو اس کی آواز میں موجود تھی حیرت اس کی کسی ٹھہری ہوئی ساعت کی طرح مہر بہ لب مجھ سے دیکھی نہیں جاتی ہے اذیت اس کی آنکھ رکھتے ہو تو اس کی آنکھ کی تحریر پڑھو منہ سے اقرار نہ کرنا تو ہے عادت اس کی خود وہ آحوش کشادہ ہے جزیرے کی طرح پھیلے دریائوں کے مانند محبت اس کی روشنی روح کی آتی ہے مگر چھن چھن کر سست رو ابر کا ٹکڑا ہے طبیعت اس کی دل دھڑکتا ہے تو وہ آنکھ بلاتی ہے مجھے سانس آتی ہے تو ملتی ہے بشارت اس کی وہ کبھی آنکھ کے جھپکے تو لرز جاتا ہوں مجھ کو اس سے بھی زیادہ ہے ضرورت اس کی وہ کہیں جان لے ریت کا ٹیلا ہوں میں میرے کاندھوں پہ ہے تعمیر عمارت اس کی وہ اگر جا بھی چکا ہے تو نہ آنکھیں کھولو ابھی محسوس کیے جائو رفاقت اس کی ڈاکٹر ذوالفقار احمد کے چاروں طرف فقط ایک ہی ذات تھی‘ فائزہ ذوالفقار‘ اور اس ایک ذات میں اس کی پوری کائنات تھی۔ وہ ذات اس کے اوپر اتنی بری طرح حاوی رہتی تھی‘ کہ وہ اردگرد کی دنیا سے تعلق توڑ دیتا تھا ‘ اور فقط اس ایک ذات کا ہو جاتا تھا‘ وہ ذات جس کا پچھلے چار برس سے کوئی وجود نہ تھا‘ وہ ذات جسے‘ وہ خود چار برس قبل منوں مٹی تلے دفنا آیا تھا‘ جس وجود کے حسین و جمیل چہرے کو وہ خاک میں ملا آیا تھا‘ وہ وجود آج بھی اس کے اردگرد بکھرا تھا‘ اس کی خوشبو‘ اس کی تصویریں‘ اس کی یادیں‘ اور اس کی محبت وہ نہ ہو کے بھی کہیں تھی‘ بلکہ شاید وہ ہر طرف‘ ہر سوُ ‘ ہر آن تھی‘ سگریٹ کے نازک تیرتے دھویں کی لکیروں میں کمرے میں اڑتے سایوں میں‘ آسمان کی گود میں‘ چمکتے ڈھیروں ڈھیر ستاروں میں‘ گرم بگولوں میں‘ ہوا کے نرم جھونکوں میں‘ آنکھوں میں‘ روح میں‘ وہ آج بھی زندہ تھی۔ ہاں فائزہ ذوالفقار آج تک جا نہ سکی تھی‘ نہ اس گھر سے‘ اور نہ ذوالفقار کے دل سے۔ اس نے بڑی کوشش کی تھی کہ ان آٹھ نو سالوں کی قید سے فرار پا سکے‘ جو اس نے فائزہ کے وصال کی نرم چھائوں میں گزارے تھے‘ لیکن وہ آج تک ناکام رہا تھا۔ فائزہ کی گرفت اس کی زندگی پہ بہت مضبوط تھی۔ وہ چلی گئی تھی۔ اس کا وجود مٹی میں مٹی بن چکا تھا۔ اس کی روح آسمانوں کو پرواز کر گئی تھی‘ لیکن اس کی وہ گرفت رہ گئی تھی‘ اور اس گرفت کے سفاک پنجوں میں تنہا کلبلاتی تھی‘ ذوالفقار احمد کی زندہ لاش‘ جو کہ نہ تو مٹی میں ملی تھی اور نہ اس کی روح پرواز ہوئی تھی‘ لیکن وہ پھر بھی موت سے بھی زیادہ اذیت خود پہ جھیلتا تھا‘ نہ زندہ رہ پاتا تھا‘ نہ مرتا تھا۔ کئی بار خود کو سمجھاتا‘ ذوالفقار احمد! تم اکیلے نہیں کہ جس کی بیوی مری ہے‘ لاکھوں‘ کروڑوں ہیں‘ جو اپنے ساتھی کھو دیتے ہیں‘ مگر زندہ رہتے ہیں۔ تمہاری طرح کھوکھلے نہیں ہوتے۔ تمہاری طرح بھربھرے اور بوسیدہ نہیں ہو جاتے‘ تمہاری طرح زندہ لاش نہیں بن جاتے‘ تمہاری طرح شجر سے ٹوٹے پتوں کو نہیں کھنگالتے رہتے۔ بہت لمبا عرصہ ہوتا ہے چار برس کسی کو بھلانے کیلئے۔ لوگ تیسرے دن چہرے تک کو بھول جاتے ہیں‘ تم مردہ انسان کی پرچھائیوں کے تعاقب میں بھاگ رہے ہو؟ ’’میں کیا کروں… میں کیا کروں؟ وہ مجھے نہیں بھولتی‘ وہ مجھے اپنا آپ بھولنے نہیں دیتی۔ وہ کہتی ہے میں ہوں‘ میں یہیں ہوں‘ میں یہیں کہیں آس پاس ہوں۔‘‘ ذوالفقار احمد نے شیشے کا گلاس زور سے ٹیبل پہ دے مارا۔ اس کی کرچیاں دور تک بکھر گئیں اور اس میں ٹمٹماتی برانڈی بھی پورے کمرے میں پھیل گئی۔ وہ شراب کا سہارا لے کر فائزہ کی یاد سے چھٹکارا پانا چاہتا تھا‘ لیکن مدہوش ہوتے ہی فائزہ کا تخیل گوشت پوست اوڑھ لیتا‘ اور وہ پھر کسی خوش رنگ ساڑی میں اس کے سامنے ہوتی‘ اسی انداز سے مسکراتی‘ دل چراتی اور گنگناتی ہوئی۔ فائزہ کے جانے کے بعد اس کا چھلاوہ اس کی روح کے اندر بس گیا تھا۔ وہ آدھا پاگل ہو گیا تھا۔ ارسلان نے اپنے والد کو آج پھر نیم پاگل پن کی حرکتیں کرتے گلاس ڈور کی پرلی طرف سے دیکھ لیا تھا‘ اور وہ بھی اس حالت پہ فقط افسوس کے سوا کچھ بھی نہ کر سکتا تھا۔ کرتا بھی تو کیا‘ کہ اس کے باپ کی موت اس کی ماں کے ساتھ ہی ہو گئی تھی‘ اور بارہ سالہ ارسلان اس دن سے تنہا تھا۔ ’’فرخندہ بی! ایک بات پوچھوں‘ جواب دو گی تم؟‘‘ صوفے پہ لیٹے ٹی وی چینلز سے کھیلتے ہوئے ارسلان نے اپنی بزرگ آیا سے پوچھا تھا۔ ’’پوچھو بیٹا کیا پوچھنا ہے؟‘‘ فرخندہ بی فرش پہ بیٹھی مٹر چھیل رہی تھی۔ ’’ہم لوگ ممی کی تصویریں دیوار سے اتار کیوں نہیں دیتے۔‘‘ وہ بولا۔ فرخندہ بی کو حیرت ہوئی۔ ارسلان نے ایسی بات پہلے کبھی نہیں کی تھی۔ ’’آئے ہائے‘ کیوں اتاریں یہ تصویریں‘ صاحب نے خود بڑی بڑی کر کے لگائی ہیں پورے گھر میں‘ ہر ہر کونے میں‘ ہر جگہ یوں لگتا ہے بیگم صاحبہ موجود ہیں۔‘‘ فرخندہ بی کی رگ رگ میں صاحب اور بیگم کے نمک کی وفاداری تھی۔ ’’یہی تو میں کہہ رہا ہوں کہ وہ ہر جگہ موجود ہیں‘ اور مجھے خوف آتا ہے ان کی موجودگی سے مرنے والوں کے چہروں سے مجھے یوں بھی ڈر لگتا ہے‘ اور ممی کی تمام کی تمام تصویریں مجھے رات میں ڈراتی ہیں‘ مجھے ممی کی آوازیں آتی ہیں‘ اور میں رات کو سو نہیں سکتا۔‘‘ ارسلان کے چہرے پہ عجیب قسم کے الجھائو کے تاثرات تھے۔ ’’کیا کہہ رہے ہو ارسل بیٹا! وہ تمہاری امی تھیں‘ اور ان کی یادیں اس گھر سے کبھی نہیں جا سکتیں۔‘‘ فرخندہ بی نے اسے سمجھایا۔ ’’فرخندہ بی! میں نے کتاب میں پڑھا ہے کہ شہید کبھی مرتے نہیں‘ اور میری ممی بھی شہید ہیں۔ بم بلاسٹ میں ماری گئیں‘ اور اس بات کا یقین مجھے تب آتا ہے جب میں ممی کی تصویروں کو دیکھتا ہوں‘ کبھی کبھی مجھے لگتا ہے جب میں سو جاتا ہوں‘ ممی اپنی تصویروں سے نکل کے باہر آ جاتی ہے‘ اور پورے گھر میں چلتی ہیں۔ ’’ہندوستانی فلموں نے تمہارا دماغ اچھی طرح سے خراب کر دیا ہے۔ ایسا کچھ نہیں ہے۔‘‘ فرخندہ بی نے اسے ڈانٹا۔ ’’نہیں فرخندہ بی! میں سچ کہہ رہا ہوں۔ ممی کی روح اس گھر میں قید ہو گئی ہے۔ میں ڈیڈی کو دیکھتا ہوں‘ وہ پاگل ہو گئے ہیں‘ کیونکہ انہیں بھی ممی کی موجودگی کا احساس ہوتا ہے۔ وہ بھی جانتے ہیں کہ ممی یہیں کہیں ہیں۔‘‘ ارسلان نے مزید کہا۔ ’’صاحب تو بی بی سے بہت محبت کرتے تھے ناں‘ اس لئے ان کے غم میں پاگل ہو گئے ہیں‘ لیکن اس کی وجہ وہ بالکل نہیں ہے ارسل بابا‘ جو تم بتا رہے ہو۔ صاحب اور فائزہ بی بی کی محبت تو مثالی محبت تھی۔ میں جانتی ہوں سب کچھ‘ مجھے علم ہے‘ میں خود فائزہ بی بی کو اپنے ہاتھوں سے دلہن بنا کے لائی تھی۔ دیوانگی کی حد تک چاہتے تھے ایک دوسرے کو‘ صاحب اور فائزہ بی بی! رفاقت کے نو سالوں میں کبھی میں نے انہیں جھگڑتے نہ دیکھا‘ جو صاحب کہتے وہ بی بی کرتیں اور اسی طرح جس بات میں بی بی کی خواہش ہوتی صاحب ہمیشہ وہی کام کرتے۔‘‘ فرخندہ بی باتیں کرتے کرتے ماضی کے دروازے پھلانگ گئی تھیں۔ ’’کیا اسٹوریاں لے کے بیٹھ جاتی ہو فرخندہ بی! میں وہ بات نہیں کر رہا‘ میں یہ کہہ رہا تھا کہ مجھے اس گھر سے خوف آتا ہے‘ ممی مر گئی ہیں‘ ان کی تصویریں اتار کے اسٹور میں رکھ دو‘ مجھے یہ گھر آسیب زدہ لگتا ہے‘ میں چھوڑ جائوں گا اس گھر کو‘ چلا جائوں گا یہاں سے۔ مجھے ایسے گھر میں رہنے کا کوئی شوق نہیں‘ جہاں زندہ لوگ نہیں مردے رہتے ہوں۔‘‘ غصے سے کہتا ہوا ارسلان لائونج کو تیز تیز قدموں سے پھلانگتا باہر کی طرف چلا گیا‘ اور فرخندہ بی اسے دیکھتی رہ گئی۔ …٭٭٭… ’’کہاں غائب ہو تم تین دنوں سے‘ نہ آئے ہو نہ فون کیا ہے؟‘‘ فاطمہ چھوٹتے ہی اس پر برس پڑی تھی۔ ’’میں نے کہاں جانا ہے‘ یہیں ہوں بس ذرا بزِی تھا کام میں۔‘‘ وہ بولا۔ ’’بزِی کے بچے شکل کیوں نہیں دکھائی تم نے۔ پتہ ہے حرا کی طبیعت دو دن سے کتنی خراب ہے۔‘‘ وہ ہمیشہ کی طرح بہت حق سے بولی۔ ’’کیا ہوا ہے حرا کو؟‘‘ وہ حقیقتاً پریشان ہو گیا تھا۔ ’’ملیریا ہو گیا ہے اسے بری طرح‘ آج تو کچھ بہتر ہے طبیعت‘ لیکن دو دن کے بخار نے نڈھال کر دیا ہے اسے۔ کتنی بار تمہارا پوچھ چکی ہے۔‘‘ ’’دو دن سے بیمار ہے‘ اور تم نے مجھے بتایا تک نہیں۔‘‘ وہ الٹا فاطمہ پہ غصے ہو رہا تھا۔ ’’کہاں سے بتاتی‘ میرے نمبر سے تم فون اٹھا نہیں رہے تھے‘ آفس فون کیا تو سیٹ پہ نہیں تھے‘ اس لئے آج مجبوراً عدنان کے سیل سے فون کیا ہے‘ ہو کیا گیا ہے تمہیں‘ اس طرح تو کبھی نہیں ہوا کہ تم تین تین دن بچوں سے نہ ملو۔‘‘ ’’بس یار الجھا ہوا تھا کسی کام میں۔ پھوپھو بھی گھر پہ آئی ہوئی ہیں ناں آج کل‘ اس لئے گھر پہ وقت گزار رہا ہوں۔‘‘ وہ بہانہ بنا کے بولا۔ ’’سلام کہنا پھوپھو کو میرا‘ حرا ٹھیک ہوتی تو میں ان سے ملنے آ جاتی‘ اور تم فارغ ہو جائو تو چکر لگا لینا‘ رکھتی ہوں فون۔‘‘ فاطمہ نے کہا۔ ’’میں ابھی آتا ہوں حرا سے ملنے کے لئے۔ کھانا تمہارے پاس ہی کھائوں گا۔‘‘ یہ کہہ کے اس نے فون رکھ دیا۔ عارفہ پھوپھو چائے مع سینڈوچز اٹھا کے اس کے پاس آئیں۔ والدین کی وفات کے بعد قریبی رشتہ داروں میں سے اگر کسی نے اسے دل و جان سے چاہا تھا‘ اور اہمیت دی تھی تو وہ عارفہ پھوپھو تھیں۔ اب بھی ہر ماہ اپنے بچوں کو چھوڑ کے وہ چند دن گزارنے اس کے پاس آتی تھیں‘ گھر کی صفائیاں کرواتیں‘ اس کی الماریاں ترتیب دیتیں‘ کئی ساری ڈشنز بنا کے فریز کر دیتیں۔ ’’فاطمہ کا فون تھا؟ کیا کہہ رہی تھی وہ؟‘‘ پھوپھو نے پوچھا۔ ’’ہاں اسی کا فون تھا‘ سلام کہہ رہی تھی آپ کو۔‘‘ عادل نے جواب دیا۔ ’’وعلیکم السلام! کیسی ہے وہ؟‘‘ ’’خود تو ٹھیک ہے‘ لیکن حرا کی طبیعت خراب بتا رہی ہے۔ کہہ رہی تھی اگر حرا ٹھیک ہوتی تو وہ آپ سے ملنے آ جاتی۔‘‘ عادل نے انہیں بتایا۔ ’’اور تم نے پہلے کیوں نہیں بتایا۔ چل کے دیکھ ہی آتے‘ اب اٹھو اور مجھے لے چلو۔‘‘ پھوپھو پریشان ہی تو ہو گئی تھیں۔ ’’مجھے خود پتہ نہیں تھا‘ دو دن سے گیا بھی نہیں‘ اور نہ رابطہ کیا۔‘‘ وہ اعترافاً بولا۔ ’’کیوں نہیں گئے تم؟ ان لوگوں کی وجہ سے تو میں بے فکر رہتی ہوں‘ اطمینان رہتا ہے تمہاری طرف سے کہ تم ٹھیک کھا پی رہے ہو گے‘ ان سے دور مت ہوا کرو بیٹا‘ دوستوں کے دم سے تو زندگی میں رونق ہوتی ہے۔ دوست نہ ہو تو زندگی ویران ہو جائے اور ہر بندہ موت کو گلے لگا لے۔‘‘ پھوپھو نے اسے سمجھایا۔ ’’کچھ لوگ تو دوستی کو بھی غلط نام دے دیتے ہیں پھوپھو! کچھ لوگ تو اس رشتے کے تقدس کو سمجھ ہی نہیں پاتے۔‘‘ وہ ذہن میں شانزے کا تصور لا کے بولا تھا۔ ’’ائے ہائے دفع دور کرو ایسے لوگوں کو‘ اور تم وقت ضائع نہ کرو‘ اٹھو اور مجھے لے چلو فاطمہ کے گھر‘ بہت اچھی اور نیک بچی ہے۔ پیار کرنے والی‘ عزت اور مان دینے والی سلجھی ہوئی لڑکی‘ میں تو کہتی ہوں تم بھی اس کی کوئی فوٹو کاپی لے آئو گھر۔‘‘ پھوپھو کی بات پہ وہ مسکرا دیا۔ …٭٭٭… ’’مجھے یقین تھا کہ پھوپھو ضرور آئیں گی۔‘‘ فاطمہ نے دروازے سے ہی ان کا بھرپور استقبال کیا تھا۔ ’’کیسے نہیں آتی بیٹا؟ میرا دل ہول گیا حرا کی طبیعت خرابی کا سن کر‘ پہلے پتہ ہوتا تو پہلے آ جاتی‘ لیکن عادل نے تو بتایا ہی نہیں۔‘‘ پھوپھو اس سے ملتے ہوئے بولیں۔ ’’یہ موصوف نجانے کس دنیا میں گم رہتے ہیں‘ تین دن سے غائب ہیں‘ ہوا بھی نہیں لگنے دی کہ کہاں ہیں؟ ابھی سے یہ حال ہے شادی ہو جائے گی تو سلام دعا سے بھی جائیں گے ہم۔‘‘ فاطمہ نے اسے کنکھیوں سے دیکھتے ہوئے گلا کیا‘ وہ آنکھیں چرا گیا۔ ’’حرا کہاں ہے؟‘‘ وہ بات گھما کے بولا۔ فاطمہ نے حرا کے کمرے کی طرف اشارہ کیا‘ وہ ہاتھ میں پکڑے دونوں شاپرز اٹھائے حرا کے کمرے کی طرف چلا گیا۔ ان شاپرز میں وہ حرا اور اذین کے لئے ڈھیر ساری چیزیں لایا تھا‘ چپس‘ چاکلیٹ‘ بسکٹ اور کھلونے۔ کچھ ہی دیر میں دونوں بچے ان چیزوں کے ساتھ مشغول ہو گئے۔ حرا بھی اپنی بیماری بھول کے عادل کی گود میں بیٹھ گئی اور نئی گڑیا سے کھیلنے لگی۔ عدنان پھوپھو کے ہمراہ بیٹھ گیا‘ اور فاطمہ چائے بنانے چلی گئی۔ ’’دیکھو بچے کتنا پیار کرتے ہیں تم سے‘ ان سے اس طرح دور مت ہوا کرو تم۔‘‘ پھوپھو نے گویا آج قسم ہی کھا لی تھی‘ اس کو شرمندہ کرنے کی۔ ’’نہیں رہوں گا ان سے دور اب پھوپھو‘ معاف کر دیں میری غلطی اور چھوڑ دیں میری جان۔‘‘ وہ ہاتھ جوڑ کے مسکرا کے معافی مانگنے لگا۔ ’’یار تو ایک دن غائب ہوتا ہے ناں ہمیں خود تشویش ہوتی ہے‘ اپنی حاضری روز لگایا کر ورنہ تیرے حق میں اچھا نہیں ہو گا۔‘‘ عدنان نے کہا۔ ’’اب تو ایک کھونٹا مل گیا ہے ہمیں عادل کے لئے‘ جس میں بوقتِ ضرورت ہم اسے باندھ سکتے ہیں۔‘‘ فاطمہ لوازمات کی ٹرالی کے ہمراہ اندر وارد ہوئی۔ ’’ائے ہائے کون سا کھلونا ‘ کس کی بات کر رہی ہو تم؟‘‘ پھوپھو کو تشویش ہوئی۔ ’’کیا پھوپھو کو نہیں بتایا تم نے عادل؟‘‘ فاطمہ نے مسکرا کر شرارت سے پوچھا۔ ’’یہ کہاں کچھ بتاتا ہے‘ تم لوگ ہی بتا دو۔‘‘ پھوپھو نے فوراً کہا۔ ’’خدا کے لئے فاطمہ اب پول کھولنے نہ بیٹھ جانا تم۔‘‘ عادل نے مسکرا کے ہاتھ جھوڑے۔ |
Nazim's poetry
Saturday, March 17, 2012
یہ جو تمہارا میرا رشتہ ہے
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment