تیرے عشق کو اپنے لفظوں میں سر عام لکها ہے
میں نے تو خود کو عاشق بے دام لکها ہے
کیوں غزل کے ابتدا میں ہی آنسو ٹپک پڑا
میں نے تو فقط تیرا ابهی نام لکها ہے
کیوں پت جهڑ کا موسم میری روح کو ملا
میں نے تو رت بہار کا پیغام لکها ہے
کیوں ہجر کی تعبیر میری قسمت سے جا ملی
میں نے تو خواب وصل کو انجام لکها ہے
کیوں غم کی سیاه رات میری زیست ہو گئی
میں نے تو خوشی کو صبح و شام لکها ہے
کیوں آگ جل اٹهی ہے آج دل میں میرے
میں تو اپنی حسرت کو گمنام لکها ہے
No comments:
Post a Comment