عکس آنکھوں نے تمھارا رکھ دیا
دل میں گویا ماہ پارا رکھ دیا
آسماں نے اِک ستارے سے الگ
میری قسمت کا ستارا رکھ دیا
زندگی ہے بوجھ پر ایسا نہیں
جب جہاں چاہا اُتارا رکھ دیا
مسکرا کر اپنے خاص انداز سے
دل ہی رکھنا تھا ہمارا رکھ دیا
میرا دل ہی تھا مِرا سب کچھ جسے
کر کے اُس نے پارا پارا رکھ دیا
میں نے غزلوں کے حسیں جزدان میں
فکر کا روشن سپارا رکھ دیا
عزم کے بڑھتے ہوئے سیلاب نے
موڑ کر دریا کا دھارا رکھ دیا
گردشِ ایّام نے پندار کا
پھوڑ کر اِک اِک غبارا رکھ دیا
بے کلی راغبؔ رہے گی عمر بھر
دل میں اُس نے وہ شرارا رکھ دیا
No comments:
Post a Comment