لکھوں کس طرح میں اس قامتِ زیبا کی رعنائی
جو مجھ پہ کھول دیتی ہے میرے اندر کی پنہائی
سرِ بزمِ تصور جب بھی اس پیکر کی یاد آئی
سماعت جاگ اٹھی ہے ، نکھر اٹھی ہے بینائی
کروں زنجیر کیسے ان تبسم ریز ہونٹوں کو
پکاروں میں بھلا کس نام سے ان زندہ آنکھوں کو
میں اس کی انگلیوں کے لمس کی حدت کو کیا لکھوں
نفس کی آنچ سے منسوب اس لذت کو کیا لکھوں
No comments:
Post a Comment