اُس کا اپنا ہی کرشمہ ہے ، فَسوں ہے ، یوں ہے
یوں تو کہنے کو سبھی کہتے ہیں ، یوں ہے ، یوں ہے
جیسے کوئی درِدل پر ہو ستادہ کب سے
ایک سایہ نہ دَروں ہے ، بَروں ہے ، یوں ہے
تم نے دیکھی ہی نہیں دشتِ وفا کی تصویر
نوکِ ہر خار پہ اِک قطرہءِ خوں ہے ، یوں ہے
تُم محبت میں کہاں سُود و زیاں لے آئے
عشق کا نام خِرد ہے نہ جَنوں ہے ، یوں ہے
اب تم آئے ہو میری جان تماشا کرنے
اب تو دریا میں تلاطم نہ سکوں ہے ، یوں ہے
ناصحا تُجھ کو خبر کیا کہ محبت کیا ہے
روز آجاتا ہے سمجھاتا ہے کہ یوں ہے ، یوں ہے
شاعری تازہ زمانوں کی ہے معمار فراز
یہ بھی اِک سلسلہءِ کُن فَیَکوں ہے ، یوں ہے
No comments:
Post a Comment