دکھ تو ہر وقت تعاقب میں رہا کرتے ہیں
یوں پناہوں میں کہاں تک کوئی رہ سکتا ہے
کب تلک ریت کی دیوار سنبھالے کوئی
وہ تھکن ہے کہ مرا جسم بھی ڈھے سکتا ہے
ناگزیر آج ہُوا جیسے بچھڑنا اپنا
کل کسی روز ملاقات بھی امکان میں ہے
میں یہ پیراہنِ جاں کیسے بدل سکتا ہوں
No comments:
Post a Comment