چوک سے چل کر، منڈی اور بازار سے ھو کر
لال گلی سے گُزری ھے کاغذ کی کشتی
بارش کے لاوارث پانی پر بیٹھی بے چاری کشتی
شہر کی آوارہ گلیوں میں سہمی سہمی گھوم رھی ھے
پوچھ رھی ھے
ھر کشتی کا ساحل ھوتا ھے تو کیا میرا بھی کوئی ساحل ھو گا؟
بھولے بھالے اِک بچے نے
بے معنی کو معنی دے کر
ردی کے کاغذ پر کیسا ظلم کیا ھے !
No comments:
Post a Comment