میرے خیال کی بستی میں
اک آگ لگی ہے
سب خیال جل رہے ہیں
سلگ رہے ہیں
اور جو آدھ جلے چند
باقی ہیں
ایک ایک کر کے
رفتہ رفتہ مر رہے ہیں
جب کبھی ان کا دھواں
اک آگ لگی ہے
سب خیال جل رہے ہیں
سلگ رہے ہیں
اور جو آدھ جلے چند
باقی ہیں
ایک ایک کر کے
رفتہ رفتہ مر رہے ہیں
جب کبھی ان کا دھواں
ایک حد سے بڑھنے لگتا ہے تو
آنکھوں میں چبھنے لگتا ہے
اورپھر بہت سے خیال
پانی بن کر آنکھوں کے راستے
بہہ نکلتے ہیں
اور خیال کی بستی کو
ویران کیے دیتے ہیں
اب تو لگتا ہے شائد
ساری عمر یونہی
بے خیالی میں بسر ہوگی
آنکھوں میں چبھنے لگتا ہے
اورپھر بہت سے خیال
پانی بن کر آنکھوں کے راستے
بہہ نکلتے ہیں
اور خیال کی بستی کو
ویران کیے دیتے ہیں
اب تو لگتا ہے شائد
ساری عمر یونہی
بے خیالی میں بسر ہوگی
No comments:
Post a Comment