آج تو بے سبب اداس ہے جی
عشق ہوتا تو کوئی بات بھی تھی
عشق ہوتا تو کوئی بات بھی تھی
جلتا پھرتا ہوں میں دوپہروں میں
جانے کیا چیز کھو گئی میری
...
وہیں پھرتا ہوں میں بھی خاک بسر
اس بھرے شہر میں ہے ایک گلی
جانے کیا چیز کھو گئی میری
...
وہیں پھرتا ہوں میں بھی خاک بسر
اس بھرے شہر میں ہے ایک گلی
چھپتا پھرتا ہے عشق دنیا سے
پھیلتی جارہی ہے رسوائی
پھیلتی جارہی ہے رسوائی
ہم نشیں کیا کہوں کہ وہ کیا ہے
چھوڑ یہ بات نیند اڑنے لگی
چھوڑ یہ بات نیند اڑنے لگی
آج تووہ بھی کچھ خموش سا تھا
میں نے بھی اُس سے کوئی بات نہ کی
میں نے بھی اُس سے کوئی بات نہ کی
ایک دم اُس کے ہونٹ چوم لیے
یہ مجھے بیٹھے بیٹھے کیا سوجی
یہ مجھے بیٹھے بیٹھے کیا سوجی
اک دم اُس کا ہاتھ چھوڑ دیا
جانے کیا بات درمیاں آئی
جانے کیا بات درمیاں آئی
تو جو اتنا اداس ہے ناصر
تجھے کیا ہو گیا بتا تو سہی
تجھے کیا ہو گیا بتا تو سہی
No comments:
Post a Comment