اشکِ رواں کی نہر ہے ــ اور ہم ہیں دوســـتو
اُس بے وَفا کا شہر ہے ــ اور ہم ہیں دوســـتو
یہ اَجنبی سی منزلیں ـ ـ ـ اور رفتگاں کی یاد
تنہائیوں کا زہر ہے ــ اور ہم ہیں دوســـتو
لائی ہے اَب اُڑا کے ـ ـ ـ گئے موسموں کی باس
برکھا کی رُت کا قہر ہے ــ اور ہم ہیں دوســـتو
دل کو ہجومِ نکہتِ مہ سے ـ ـ ـ لہو کیے
راتوں کا پچھلا پہر ہے ــ اور ہم ہیں دوســـتو
پھرتے ہیں ـ ـ ـ مثل موج ہوا شہر شہر میں
آوارگی کی لہر ہے ــ ہم ہیں دوســـتو
آنکھوں میں اُڑ رہی ہے ـ ـ ـ لُٹی محفلوں کی دُھول
عبرت سرائے دہر ہے ــ اور ہم ہیں دوســـتو
No comments:
Post a Comment