اسیر شام تنہائی سے یہ آخر گلا کیسا
تجھے تو علم تھا زنجیر کا میری
جو پیروں میں بھی ہے
اور روح پر بھی
میں اپنے بخت کی قیدی ہوں
میری زندگی میں نرم آوازوں کے جگنو
کم چمکتے ہیں
فصیل شہر غم پر خوش صدا طائر
کہاں آ کر ٹھہرتے ہیں
تری آواز کا ریشم میں کیسے کاٹ سکتی تھی
مرے بس میں اگر ہوتا
تو ساری عمر
اس ریشم سے اپنے خواب بنتی
اور اس رم جھم کے اندر بھیگتی رہتی
تجھے تو میرے دکھ معلوم تھے جاناں
یہ کس لہجے میں تو رخصت ہوا مجھ سے...!!!
No comments:
Post a Comment